بلوچستان کی پرنسس آف ہوپ خطرے میں؟

image

’پرنسس آف ہوپ‘ کا مجسمہ دیکھنے میں کسی خاتون سے مشابہت رکھتا ہے۔ امید کی شہزادی کا یہ مجسمہ صدیوں سے موجود ہے، یونانی اسکالرز ان کو پرنسس آف ہوپ اور دوسرے مجسموں کو یونانی دیوتائوں اور کچھ لوگ ہندوؤں کے مندر سے جوڑتے ہیں، پرنسس آف ہوپ اور دوسرے شاندار پہاڑی مجسمے کہاں سے آئے اور ان کو کیا خطرات درپیش ہیں، آیئے آپ کو بتاتے ہیں۔

گوادر کی جانب سفر میں ساحلی شاہراہ کے دونوں جانب ایسے پہاڑ دکھائی دیں گے جو پہلی نظر میں کسی ماہر فنکار کے ہاتھوں تراشے ہوئے مجمسے لگتے ہیں۔انہی عجوبوں میں ’پرنسس آف ہوپ‘ یعنی امید کی شہزادی نامی ایک مجسمہ بھی ہے جو دیکھنے میں کسی خاتون سے مشابہت رکھتا ہے۔

پرنسس آف ہوپ صدیوں سے موجود ہے لیکن اسے عالمی سطح پر اس وقت شہرت ملی جب ہالی وڈ کی ایک معروف اداکارہ نےانجلینا جولی اس علاقے کا دورہ کیا اور انہوں ہی اس کو ’پرنسس آف ہوپ‘ کا نام دیا۔

کوئٹہ کے جنوب میں تقریباًسات سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پرنسس آف ہوپ لسبیلہ میں واقع ہے۔رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب بڑا صوبہ بلوچستان اپنے خوبصورت پہاڑوں اور سنگلاخ چٹانوں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔

اب آپ کو لسبیلہ کے بارے میں بتائیں تو یہ بلوچستان کا ایک ضلع ہے اور اس کے مشہور علاقوں میں حب، سومیانی اور گڈانی شامل ہیں۔یہ گوادر اور کراچی کے درمیان واقع ہے۔ اس ضلع کے مشرق میں کراچی جبکہ مغرب میں گوادر اہے۔ ضلع کا جنوبی حصہ سمندری ساحل سے ملتا ہے اور شمال میں ضلع خضدار واقع ہے۔

1948ء کو والی ریاست جام غلام قادر نے لسبیلہ کا پاکستان سے الحاق کیا تھا۔مکران کوسٹل پرہنگول نیشنل پارک کے پہاڑی سلسلے میں یہ اپنی نوعیت کا واحد مجسمہ نہیں بلکہ یہاں انسانوں کو حیران کر دینے والے اس طرح کے متعدد دیگر اسٹرکچرز بھی موجود ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پرنسس آف ہوپ اور دوسرے مجسمے کسی انسانی کاوش کے بغیر مختلف اشکال اختیار کر گئے ہیں۔یہ قدرتی طور پر مٹی سے بننے والے مڈ فارمیشن ہیں جو بزی ٹاپ سے لے کر گوادر میں ایرانی سرحد کے قریب جیونی تک ملیں گے۔

ان اسٹرکچرز کے حوالے سے بعض دلچسپ نظریے اور آرا موجود ہے،ماہر آثار قدیمہ جورج ڈیلز نے 1960ء میں اس علاقے کا دورہ کیا تھا جبکہ اسی طرح فرانسیسی ماہرین کی ٹیم نے بھی اس علاقے کا دورہ کیا لیکن ان کو یہاں ایسے آثار نہیں ملے جن کی بنا پر ان کی تعمیر کو انسانوں سے جوڑا جا سکے۔

یہ مجسمے انجلینا جولی کے دورے کے بعد ملکی اور بین الاقوامی سطح پر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ آثار قدیمہ کے حوالے سے ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔

یونانی اسکالرز میں سے بعض ان کو یونانی دیوتائوں کے تصورکے طور پر لیتے ہیں تاہم ماہرین کی اکثریت کی رائے میں یہ ڈھانچے سمندری کٹاؤ سمیت قدرتی عمل کے نتیجے میں بنے۔

کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ یہ ہندوؤں کے مندر ہیں کیونکہ ہندوؤں کا ایک اہم اور بڑ امذہبی مقام ہنگلاج ماتا قریب ہی ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے پرنسس آف ہوپ اور دیگر مجسمے شدید خطرات سے دوچار ہیں۔ اس لئے بلوچستان انتظامیہ نے ان خوبصورت مجسموں کی حفاطت کیلئے پولیس اہلکار تعینات کردیئے ہیں۔


About the Author:

Arooj Bhatti is a versatile content creator with a passion for storytelling and a talent for capturing the human experience. With a several years of experience in news media, he has a strong foundation in visual storytelling, audio production, and written content.

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.