ماؤنٹ ایورسٹ: ’چوٹی قریب تھی مگر میری آکسیجن کی سپلائی بند ہو چکی تھی‘

ایورسٹ کو کامیابی سے سر کرنے والے سنتوش دوج اپنا تجربہ بتا رہے ہیں۔ 48 سالہ سنتوش ایک تجربہ کار کوہ پیما ہیں اور انھوں نے 17 مئی 2023 کو دنیا کی بلند ترین چوٹی سر کی تھی۔

’ہم ایورسٹ کی چوٹی کے قریب پہنچ چکے تھے۔ جب میں آخری سٹیج، جسے ’ہلیری سٹیپ‘ کہا جاتا ہے، پر پہنچا تو میرے دونوں آکسیجن ریگولیٹرز خراب ہو چکے تھے، لیکن میں نے اس جانب توجہ تک نہیں دی۔‘

چوٹی پر اُوپر چڑھ کر دوبارہ تھوڑا نیچے اترنا پڑتا ہے۔ میں کچھ دیر بس وہیں بیٹھ گیا۔ میں آکسیجن کے بغیر حواس باختہ ہو رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ میں چل رہا ہوں اور آگے بڑھ رہا ہوں، مگر ایسا نہیں تھا۔‘

ماؤنٹ ایورسٹ کو حال ہی میں سر کرنے والے سنتوش دوج نے بی بی سی کو مزید بتایا کہ ’میں ہلیری سٹیپ کے ساتھ کم از کم اکیس منٹ تک اسی طرح بیٹھا رہا۔‘

48 سالہ سنتوش ایک تجربہ کار کوہ پیما ہیں اور انھوں نے 17 مئی 2023 کو دنیا کی بلند ترین چوٹی سر کی تھی۔

درحقیقت 8000 میٹر سے بلند کسی بھی برفانی چوٹی کو سر کرنا آسان نہیں ہے لیکن 2023 کے موسم بہار کے دوران ہمالیہ کی کئی چوٹیوں پر کوہ پیماؤں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

رواں سیزن کے دوران ایورسٹ پر کم از کم بارہ کوہ پیما ہلاک ہو چکے ہیں۔ سنتوش کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا مگر وہ اپنے شرپا ساتھیوں کی مدد کی بدولت زندہ واپس لوٹنے میں کامیاب رہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میں ہلیری سٹیپ کے ساتھ کم از کم اکیس منٹ تک اسی طرح بیٹھا رہا۔ لیکن منگما شرپا اور کرما شرپا وہاں پہنچے اور مجھے ہلا کر جگایا۔‘

’انھوں (شرپا) نے دیکھا کہ میری آکسیجن کی سپلائی بند ہو چکی تھی چنانچہ انھوں نے اپنا ریگولیٹر نکال کر مجھے لگایا اور کہا، سر ابھی اور اگے جانا ہے، آپ چل سکتے ہو۔‘

’یہ ان کی وجہ سے تھا کہ میں نے دوبارہ چلنا شروع کیا، ایورسٹ کو سر کیا، اور پھر واپس زندہ واپس آیا۔‘

سنتوش دیگر تین کوہ پیماؤں بشمول سندیپ موکاشی، ہیمنت جادھو اور تھان جی جادھوکے ساتھ ایورسٹ کی مہم پر گئے تھے۔ گذشتہ کئی سالوں سے یہ چاروں ہمالیہ میں مختلف مہمات میں اکھٹے جاتے رہے ہیں۔ک

لیکن ایورسٹ کا چیلنج کتنا مختلف اور مشکل تھا؟ اس کہانی کو سنتے ہیں سنتوش کی ہی زبانی۔

ایورسٹ سر کرنے کے لیے میں کچھ ایسے تیار ہوا۔۔۔

اگست 2022 میں ماؤنٹ نون، 7,135 میٹر اونچی چوٹی کو سر کرنے کے بعد ہم نے ماؤنٹ ایورسٹ پر نظریں گاڑ دیں۔

ہم نے ان کوہ پیماؤں سے رہنمائی لی جو ماضی میں ایورسٹ کو کامیابی سے سر کر چکے تھے۔

ان کے تجربات سننے کے بعد ہمیں اعتماد ملا کہ کم از کم ہم بھی کوشش کر سکتے ہیں۔

میں ’ویک اینڈ‘ پر ہمالیہ سیر کے لیے جاتا تھا، جب مجھے طویل چھٹی ملتی تھی تو میں اپنی پیٹھ پر دس پندرہ کلو وزن کے ساتھ تین چار دن کا ٹریک کرتا تھا۔ لیکن ایورسٹ کو سر کرنے کے لیے ایک مختلف طرح کی ’فٹنس‘ کی ضرورت تھی۔

اس کے لیے جب بھی مجھے وقت ملتا، تو میں دیگر کوہ پیماؤں کے ہمراہ کم بلند چوٹیوں کا رُخ کرتا اور اپنی رفتار بڑھانے کے لیے ہم ڈیڑھ گھنٹے میں بھیما شنکر نامی چھوٹی چوٹی کو سر کر لیتے تھے۔ میں ہر صبح جم میں مشق کرتا تھا، 15-20 کلومیٹر سائیکل چلاتا تھا اور بار بار تیراکی کرتا تھا۔ ہم پانی کے اندر مراقبہ کرتے تھے تاکہ یہ جان سکیں کہ ہم آکسیجن کے بغیر کتنی دیر زندہ رہ سکتے ہیں۔

صبح ساڑھے چار بجے سے نو بجے تک ہم ورزش کرتے تھے۔

مالی مشکلات

نیپالی حکومت کی فیس، ٹکٹ، سامان، آلات، شیرپا ساتھیوں پر اخراجات وغیرہ سمیت اس مہم پر تقریباً 42 لاکھ روپے خرچ ہونے کا اندازہ تھا۔

اتنے پیسے جمع کرنا انھیں خرچ کرنے سے بڑا چیلنج تھا۔ ’کراؤڈ فنڈنگ‘ کرنے، لوگوں سے ملنے اور ’سپانسرشپ‘ یعنی مدد کے لیے درخواست کرنے کی کوششیں اس کاحصہ تھیں۔

یہ مہم ہر روز نئی باتیں سکھا رہی تھی۔

بہت سے لوگوں نے مدد کی لیکن بعض حلقوں سے منفی ردعمل بھی سامنے آیا۔ لیکن ہمارا عزم یہ تھا کہ اس مہم کو ہر صورت کامیابی سے ہمکنار ہونا چاہیے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔

وینگاؤں کے مہالکشمی مندر ٹرسٹ نے مہم کے لیے رقم اکٹھا کرنے کے لیے گاؤں میں ایک بڑی تقریب منعقد کی۔ میرے ساتھیوں نے ریلوے سے بھی مدد لی۔ اس سے ہم ایک قدم مزید آگے بڑھے۔

ہم سکولوں میں گئے اور اپنی مہم کے بارے میں بتایا۔ اس کے پیچھے کا مقصد پیسہ اکٹھا کرنا نہیں تھا، بلکہ بچوں کو ایورسٹ، کوہ پیمائی اور اس مہم کے بارے میں آگاہی دینا تھا۔ لیکن کچھ بچوں نے حقیقی معنوں میں اس مہم میں حصہ لیتے ہوئے اپنی جیب خرچ سے 100-200 روپے ہمیں عطیہ کیے۔

ہمالیائی چیلنج

ایورسٹ مہم تقریباً 60 دن کی ہے۔ تاہم ہمیں اس مشن کی تکمیل میں 55 دن لگے۔ آب و ہوا اور اونچائی کی عادت ڈالنے کے لیے جو وقت درکار ہوتا ہے وہ اہم وقت ہوتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ راستے میں کسی جگہ رک کر اونچائی کی مشق کرنے کے لیے تھوڑا سا اونچائی کی طرف جایا جائے۔

یکم اپریل کو ہم کھٹمنڈو گئے اور موسم سے ہم آہنگ ہوئے اور 12 اپریل کو ایورسٹ بیس کیمپ پہنچے۔

ہم بیس کیمپ میں ایک ماہ رہے اور اس کا زیادہ تر وقت تربیت میں گزارا۔ ایورسٹ کے راستے میں کھمبو گلیشیئر پر سیڑھیاں لگائی گئی ہیں، آپ کو ان پر چلنا سیکھنا ہے، رکاوٹوں کو کیسے عبور کرنا ہے۔ کوہ پیمائی کی تکنیک کی مشق ضروری ہے۔

اتنی بلندی پر انسان کو جسمانی اور ذہنی طور پر کچھ بھی برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔ جب ہم 18 ہزار فٹ پر پہنچے تو میں نے سوچا، اوہ ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ موسم خراب ہے، آئے روز برفانی تودے گر رہے ہیں، ہماری آنکھوں کے سامنے لوگ مر رہے ہیں۔

28 اپریل کے بعد موسم اس قدر خراب ہوا کہ تقریباً بارہ دن گزر گئے۔ اتنی برف اور ہوا تھی کہ خیمے سے باہر نکلنا بھی مشکل تھا۔ خدا کا نام لے رہا تھا، ڈر بھی رہا تھا کہ ہمارا کیا بنے گا؟

لیکن لوگوں نے ہمارے لیے پیسے اکٹھے کیے، بچوں نے جذبے کا مظاہرہ کیا، ان کا کیا ہو گا؟ ہم یہ کام صرف اپنے لیے نہیں بلکہ ان سب کے لیے کر رہے تھے۔ اس سے ہمیں نئی امید ملی۔

اسی لیے جب حقیقی چوٹی کو سر کرنے کا وقت آن پہنچا تو پھر پر یہ مرحلہ بہت سکون اور صبر سے طے پایا۔

’سمٹ پُش‘ پر روانگی

12 مئی کے بعد ہمیں ایک اطلاع ملی کہ اب آپ کو سمٹ پُش کے لیے روانہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ ہم بیس کیمپ سے سیدھے کیمپ ٹو میں 22 ہزار فٹ کی بلندی پر گئے۔ سب کو وہاں ایک دن آرام کرنا تھا۔

ہماری چار کی ٹیم میں سے ایک سندیپ موکاشی خرابی صحت کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ ہماری ٹیم کے لیے یہ ایک بڑا جھٹکا تھا۔

اس کے بعد ہیمنت اور دھناجی تیسرے دن کیمپ تھری سے روانہ ہوئے اور 15 تاریخ کو کیمپ فور پہنچے۔ لیکن موسم بہت خراب ہو گیا اور ہم اس رات کوہ پیمائی نہیں کر سکے۔

مہم کی منتظم ایجنسی اور شرپا نے پیغام بھیجا کہ آپ کی آکسیجن ختم ہو جائے گی اور آپ مزید آگے نہیں جا سکیں گے۔ آخر کار انھوں نے ہم میں سے صرف ایک کو اوپر جانے کی اجازت دی۔

پھر میرے ساتھیوں ہیمنت جادھو اور دھناجی نے چوٹی کے اتنے قریب ہونے کے باوجود اپنے بارے میں سوچے بغیر مجھے موقع دیا، مجھ پر اعتماد ظاہر کیا، جس سے مجھے نئی طاقت ملی۔ ان کے آکسیجن سیلنڈر مجھے دیے گئے۔

ایورسٹ
Getty Images

میرے ساتھ منگما شرپا اور کرما شرپا دونوں تھے، جنھوں نے بھیڑ سے بچنے کے لیے پہاڑ پر چڑھنے کے لیے جلد روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔

ہم نے شام پانچ بجے کے قریب چوٹی کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ صبح 4-5 بجے چوٹی پر پہنچنے کا اندازہ تھا، لیکن ہم صبح 1:55 بجے چوٹی پر پہنچ گئے۔ ہم نے قومی پرچم ترنگا اور مہاراجہ کا زعفرانی پرچم لہرایا۔

’ہلیری سٹیپ‘ کے بعد ہلکی سی چڑھائی ہے، وہاں اوپر جاتے ہوئے میں پھسل گیا، جس سے میں کوئی 61 فٹ نیچے گرا ہوں گا۔ ٹانگ پر بھی چوٹ لگی۔ لیکن دوبارہ میں نے اوپر کا رخ کیا۔ یہاں سے چوٹی محض دو سو میٹر دوری پر تھی۔

میرے دونوں شرپا ساتھی بغیر آکسیجن کے اس سٹیج پر چڑھ رہے تھے اور آہستہ آہستہ ہم چوٹی پر پہنچ گئے۔

آپ کو یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ آپ ایورسٹ پر پہنچ چکے ہیں۔ اس کے لیے منگما شرپا نے وہاں کچھ تصاویر اور ویڈیوز بنائیں۔ ان ثبوتوں کی بنیاد پر کوہ پیماؤں کو سمٹ کا سرٹیفکیٹ ملتا ہے۔

واپسی کا انتظار

کوئی بھی ایورسٹ کی چوٹی پر زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر سکتا اور نیچے اترنا اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل عمل ہوتا ہے۔ زیادہ تر حادثات واپسی کے راستے میں ہوتے ہیں کیونکہ آکسیجن ختم ہو جاتی ہے، تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے اور چوٹی پر پہنچنے کا احساس ہوتا ہے۔

ہم نے اندھیرے میں اترنا شروع کیا لیکن اوپر آنے والے بادل مزید گہرے ہو رہے تھے۔ ہر قدم کا خیال رکھنا تھا۔ا۔

آہستہ آہستہ ہم اترے اور شام تک کیمپ ٹو واپس آ گئے۔ میری ٹیم وہاں انتظار کر رہی تھی۔ اس سے مل کر سب کی آنکھیں خوشی کے آنسوؤں سے بھر گئیں۔ کیونکہ ہم میں سے ایک چوٹی پر پہنچ چکا تھا۔

میں ’ہلیری سٹیپ‘ کے بعد گر گیا تھا، ٹانگ میں چوٹ کی وجہ سے فوری طور پر کھمبو گلیشیئر کو عبور کرنا ممکن نہیں تھا، اس لیے میرے ساتھیوں نے مجھے ہیلی کاپٹر میں اتارنے کا فیصلہ کیا۔

Delhi
BBC

اس چوٹی کو سر کرنے کے لیے اصل مسئلہ پیسہ ہے۔ آج بھی زیادہ تر کوہ پیما شوقیہ کوہ پیما ہیں اور انھیں مہمات کے لیے خود رقم اکٹھی کرنی پڑتی ہے۔ ایڈونچر گیمز میں دوسرے گیمز جیسا سسٹم نہیں ہوتا۔ بہت سی جگہوں پر کوہ پیمائی کو کھیل کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا اس لیے فنڈنگ حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

اگر بچوں کو سکول میں کوہ پیمائی کی تربیت دی جائے تو وہ موبائل فون اور ٹی وی سے دور رہنا سیکھیں گے۔ فطرت کے پاس جانے کے بعد وہ ٹیم ورک، خود انحصاری جیسی بہت سی چیزیں سیکھ سکتے ہیں۔ اگر ہم ان کا انتخاب کر کے انھیں مزید تربیت دیں تو ہمارے پاس مزید اچھے کوہ پیما ہوں گے۔

’میں ہمالیہ کو نہیں بھول سکتا ہوں کیونکہ میں دوبارہ اسے سر کرنا چاہتا ہوں۔ میں دوبارہ وہاں ضرور جاؤں گا۔ پہاڑوں نے مجھے بہت کچھ سکھایا ہے۔ پہاڑ دوستی، اعتماد اور ٹیم ورک جیسی چیزیں سکھاتا ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.