’بلبلِ ہند‘ لتا منگیشکر کو زہر دینے والا کون تھا؟

image

انڈیا کی عظیم گلوکارہ لتا منگیشکر کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ ’بلبل ہند‘ کے لقب سے مشہور لتا منگیشکر نے تقریبا سات دہائیوں تک سننے والوں کے کانوں میں اپنے سُروں سے رس گھولا۔

شوبز ویب سائٹ ’کُوئی مُوئی‘ کے مطابق عظیم گلوکارہ کی موت کے بعد اُن کی زندگی سے جڑے کئی واقعات سامنے آئے تاہم اُن میں سب سے حیران کُن واقعہ یہ تھا کہ گلوکارہ کو ایک مرتبہ زہر بھی دیا گیا تھا۔

لتا جی نے اپنی زندگی میں ہزاروں گانے گانے کے کئی ریکارڈ  قائم کیے لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ کئی مہینوں کے لیے بیماری کی وجہ سے بستر پر پڑی رہیں۔

رائٹر نسرین مُنی کبیر کی کتاب ’لتا منگیشکر اِن ہَر اون وائس‘ میں گلوکارہ کہتی ہیں کہ ’1962 میں، میں تین ماہ کے لیے بہت بیمار پڑ گئی تھی۔ ایک مرتبہ میں جب سو کر اٹھی تو مجھے پیٹ میں شدید تکلیف محسوس ہوئی۔ پھر مجھے قے آنا شروع ہوگی۔ وہ ہرے رنگ کی بہت تکلیف دہ قے تھی۔ ڈاکٹر مجھے دیکھنے آیا اور اپنے ساتھ  میرے گھر ایکسرے مشین بھی لایا کیونکہ میں چل نہیں پا رہی تھی۔ اُس نے  میرے پیٹ کا ایکسرے کیا اور بتایا کہ مجھے زہر (سلو پوائزن) دیا گیا ہے۔‘

لتا منگیشر اور اُن کی بہن اُوشا منگیشکر کو شک ہوا کہ کوئی گھر کا ملازم اس کام میں ملوث ہے۔

ان کی بہن اُوشا منگیشکر نے باروچیوں کو حکم دیا کہ وہ ان کی بہن کے لیے کچھ بھی نہ بنائیں اور وہ خود لتا مینگیشکر کی خوراک کا خیال رکھیں گی۔

اس کے بعد ایک ملازم بغیر بتائے اور تنخواہ لیے گھر سے چلا گیا۔

لتا جی کہتی ہیں کہ ’تو ہمیں لگا کہ کسی نے اُسے وہاں اسی مقصد کے لیے بھیجا تھا۔ ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ اسے بھیجنے والا کون تھا۔ میں تین ماہ بیماری کے باعث بستر پر پڑی رہی اور بہت کمزور ہوگئی۔‘

کمزوری کے باعث گلوکارہ یہ سوچتی تھیں کہ وہ کبھی دوبارہ گا بھی پائیں گی یا نہیں، تاہم خوش قسمتی سے صحت یاب ہونے کے بعد انہوں نے اپنا گانا ’کہیں دیپ جلے، کہیں دل‘ ریکارڈ کروایا تھا۔

خیال رہے لتا منگیشکر چھ فروری 2020 کو 92 برس کی عمر میں ممبئی کے ہسپتال میں انتقال کر گئی تھیں۔

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.