کراچی میں خاتون کا پولیس اہلکار کو تھپڑ: ’کارِ سرکار‘ میں مداخلت کیا ہوتی ہے اور خاتون اس کی مرتکب کیسے ٹھہریں؟

social media

،تصویر کا ذریعہsocial media

  • مصنف, عمردراز ننگیانہ
  • عہدہ, بی بی سی اردو لاہور

سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان کے شہر کراچی سے ایک ویڈیو حال ہی میں سامنے آئی جس میں ایک پولیس افسر ایک گاڑی کو روک رہے ہیں جبکہ گاڑی سے نکلنے والی خاتون ان کے ساتھ الجھ رہی ہیں۔

خاتون ان کو دھکا دے کر گاڑی کے سامنے سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن پولیس آفیسر بدستور گاڑی کے سامنے کھڑے رہتے ہیں اور گاڑی چلانے والے کو رکنے اور باہر آنے کا اشارہ کرتے نظر آتے ہیں۔

اسی دوران ان سے الجھنے والی خاتون پولیس آفیسر کو تھپڑ رسید کرتی ہیں اور انھیں دھکا دے کر پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتی ہیں ساتھ ہی وہ ان کے ہاتھ میں موجود سرکاری چھڑی چھیننے کی بھی کوشش کرتی ہیں۔ تاہم پولیس آفیسر بدستور گاڑی کو روکتے رہتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر موجود ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون پولیس آفیسر اور ایک دوسرے اہلکار کو دھکے دے کر ایک طرف کرنے کے ساتھ ساتھ گاڑی میں بیٹھے شخص کو اشارہ کرتی رہتی ہیں جو گاڑی کو آہستہ آہستہ چلاتے آگے لے کر جاتے رہتے ہیں۔

لیکن سوشل میڈیا کی ویڈیو میں یہ نظر نہیں آتا کہ اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ کیا وہ خاتون اور گاڑی سوار وہاں سے جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یا پھر پولیس ان کو روک لیتی ہے؟

اور یہ بھی نہیں معلوم ہو پاتا کہ خاتون پولیس آفیسر سے کیوں الجھ رہی ہیں۔ پولیس نے انھیں کیوں روکا اور انھوں نے پولیس آفیسر کے کہنے پر گاڑی کیوں نہیں روکی۔

social media

،تصویر کا ذریعہsocial media

،تصویر کا کیپشنویڈیو سے لیا گیا ایک سکرین شاٹ جس میں الجھنے والی خاتون پولیس آفیسر کو تھپڑ رسید کرتی دیکھی جا سکتی ہیں۔

سوشل میڈیا پر صارفین اس ویڈیو کو لے کر بحث کر رہے ہیں جس میں زیادہ تر صارفین خاتون کے خلاف کارروائی کرنے کی تجویز دے رہے۔

جبکہ کچھ صارفین یہ سوال کرتے بھی نظر آ رہے ہیں کہ خاتون کے ردِ عمل کے پیچھے وجوہات کیا ہے۔ معاملہ کیسے شروع ہوا اور بات الجھنے تک کیوں پہنچی۔

کراچی پولیس کے مطابق ضلع ساؤتھ کراچی کے تھانہ سول لائن میں خاتون، ان کے شوہر اور بھائی کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

پولیس کے مطابق خاتون جن پولیس کے آفیسر کے ساتھ الجھتی ہوئی نظر آ رہی ہیں وہ ٹریفک پولیس کے ڈپٹی سپرینٹنڈنٹ یعنی ڈی ایس پی اشتیاق حسین ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈی ایس پی اشتیاق حسین نے بتایا کہ وہ گاڑی بنیادی طور پر ٹریفک سگنل پر رکنے کے بجائے آگے آگے آ رہی تھی۔ انھوں نے ڈرائیور کر رکنے کا اشارہ کیا کیونکہ اس وقت ان کی بتی سرخ تھی اور باقی ٹریفک بھی رکی ہوئی تھی۔

’پہلے میں نے ان کو ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کیا وہ پھر پھر بھی گاڑی آگے آگے کیے جا رہا تھا پھر میں نے ہاتھ میں چھڑی پکڑی ہوئی تھی اس کے اشارے سے میں نے ان کو گاڑی روکنے کا کہا۔ ڈرائیور تو رک گیا مگر اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی خاتون باہر نکل آئیں اور انھوں نے لڑائی جھگڑا شروع کر دیا۔‘

social media

،تصویر کا ذریعہsocial media

،تصویر کا کیپشنڈی ایس پی اشتیاق حسین کے مطابق خاتون نے ان سے کہا کہ ’تم ہمارے نوکر ہو، تم جانتے نہیں ہو میرے بھائی نیوی میں کمانڈر ہیں‘

ڈی ایس پی اشتیاق حسین کے مطابق خاتون نے ان سے کہا کہ ’تم ہمارے نوکر ہو، تم جانتے نہیں ہو میرے بھائی نیوی میں کمانڈر ہیں۔‘

اشتیاق حسین نے بتایا کہ انھوں نے خاتون کو جواب میں کہا کہ ’وہ قانون پر عمل کرنے والوں کے نوکر ہیں اور وہ ان کو صرف اس لیے روک رہے ہیں کہ انھوں نے قانون توڑا ہے۔‘

ڈی ایس پی اشتیاق حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گاڑی خاتون کے شوہر چلا رہے تھے اور رکنے کے بجائے خاتون کے کہنے پر گاڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے پولیس کے اہلکاروں پر چڑھا رہے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ تھوڑی دیر میں وہاں خاتون کے بھائی اور والد بھی پہنچ گئے لیکن انھوں نے بھی پولیس کے ساتھ بدتمیزی کا رویہ روا رکھا۔

ڈی ایس پی اشتیاق حسین بتاتے ہیں ’ہم نے جب خاتون کے شوہر کو تھانے لے جانے کے لیے پولیس کی گاڑی میں بٹھایا تو خاتون نے بازو سے پکڑ کر انھیں پولیس کی گاڑی سے نیچے اتار لیا۔ ہم نے انھیں بتا دیا کہ ان کے خلاف کارروائی ہو گی اور جب میں تھانے پہنچا تو وہ پیچھے تھانے آئے۔‘

یہ بھی پڑھیے

گیٹی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنفائل فوٹو

تھانے کا عملہ مقدمہ درج کرنے سے گریز کر رہا تھا، چند گھنٹے بعد پولیس نے کہا کہ ’خاتون کو معاف کر دیں‘

تاہم ڈی ایس پی اشتیاق حسین کے مطابق تھانے کا عملہ ابتدائی طور پر مقدمہ درج کرنے سے گریز کر رہا تھا۔ دو تین گھنٹے کی تاخیر سے تھانے کی پولیس نے ان سے کہا کہ خاتون کو معاف کر دیں۔

’میں نے ان سے کہا کہ معاف تو تب کروں نا اگر وہ معافی مانگیں۔ انھیں تو اس وقت بھی اپنے کیے پر کوئی ندامت نہیں تھی، ان کا رویہ تھانے میں بھی ایسا ہی تھا۔‘

ڈی ایس پی اشتیاق حسین کے مطابق خاتون کے والد کی طرف سے سمجھائے جانے پر خاتون نے ان سے معافی مانگی اور رونے بھی لگیں۔

’وہ جب رونے لگیں تو میں نے بھی کہا کہ چلو کوئی بات نہیں اب وہ رو روہی ہیں اور انھوں نے معافی بھی مانگ لی ہے تو معاملہ رفع دفع کرتے ہیں، میں نے معاف کر دیا۔‘

خاتون نے پولیس اہلکار کے ساتھ بظاہر الجھنے میں کار سرکار میں مداخلت کیسے کی؟

social media

،تصویر کا ذریعہsocial media

تاہم اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پولیس کے اعلٰی حکام نے اس کا نوٹس لے لیا۔ اشتیاق حسین کے مطابق اس کے بعد پولیس کی اعلٰی قیادت کے حکم پر خاتون، ان کے بھائی اور شوہر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

سول لائن پولیس کے مطابق مقدمے میں پانچ دفعات شامل کی گئی ہیں جن میں بنیادی طور پر سیکشن 353 یعنی کارِ سرکار میں مداخلت کا جرم شامل کیا گیا ہے۔

تاہم کار سرکار قانون کی نظر میں کیا ہوتا ہے اور ویڈیو میں نظر آنے والی خاتون نے پولیس اہلکار کے ساتھ بظاہر الجھنے میں کار سرکار میں مداخلت کیسے کی؟

اور کیا پولیس آفیسر کی جانب سے بھی خاتون کے ایک شہری کے طور پر حقوق کو پامال کیا گیا؟

اس حوالے سے وکیل اور قانونی ماہر میاں علی اشفاق سمجھتے ہیں کہ جو واقعہ سوشل میڈیا کی ویڈیوز کے ذریعے نظر آ رہا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خاتون ’واقعتاً کار سرکار میں مداخلت کی مرتکب ٹھہرتی ہیں۔ اس میں پولیس اہلکار کی جانب سے ان کے کسی حق کی تلفی نہیں کی گئی۔‘

’خاتون نے قانون کے اہلکاروں کو ان کا کام کرنے سے روکنے کی کوشش کی ہے‘

گیٹی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنفائل فوٹو

وکیل علی اشفاق کے مطابق گاڑی کو روکنے والا شخص پولیس کا ایک تجربہ کار آفیسر ہے جو اس وقت وردی میں اور آن ڈیوٹی ہے۔ اس کے ساتھ اس کے ماتحت اہلکار بھی کھڑے ہوئے ہیں جو ڈیوٹی دے رہے ہیں۔

’ایسے میں وہ اگر آپ کو رکنے کا اشارہ کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ آپ نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو قانونی طور پر آپ کو اس کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے رکنا ضروری ہے۔ اگر آپ اس کی بات سے اختلاف کرتے بھی ہیں تو آپ شائشتہ انداز میں اس کے ساتھ بات کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ نہیں مانتا تو آپ کو داد رسی کے لیے قانونی طریقہ اپنانا ہو گا جو قواعد میں دیا گیا ہوتا ہے۔‘

وکیل میاں علی اشفاق کے مطابق ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون جو کہ خود گاڑی چلا بھی نہیں رہیں وہ گاڑی سے باہر آتی ہیں اور پولیس اہلکار کو پہلے دھکے دیتی ہیں اور پھر تھپڑ بھی رسید کر دیتی ہیں۔

’ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ وہ مسلسل پولیس اہلکار کو دھکے دیتے ہوئے گاڑی ڈرائیو کرنے والے کو گاڑی آگے لانے کا کہتی رہتی ہیں اور ڈرائیور ان کی بات ہر عمل کرتا رہتا ہے۔ یہ واضح طور پر کارِ سرکار میں مداخلت ہے یعنی انھوں نے قانون کے اہلکاروں کو ان کا کام کرنے سے روکنے کی کوشش کی ہے۔‘

قانونی ماہر میاں علی اشفاق سمجھتے ہیں کہ ان کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعات کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کارِ سرکار میں مداخلت قابلِ ضمانت جرم ہے تاہم تین سال تک اس کی سزا ہو سکتی ہے۔