’مجھے کہا گیا قاری صاحب کس کام میں پڑ گئے ہو، آپ کی الیکٹرک بائیک نہیں چلے گی‘

الیکٹرک بائیک
،تصویر کا کیپشنادارۂ شماریات پاکستان کے اندازے کے مطابق ملک میں قریب 27 ملین رجسٹرڈ بائیکس ہیں
  • مصنف, عمیر سلیمی
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور

’میں چاہتا تھا کہ ایسی بائیک ہو جس کی آواز بھی نہ ہو اور جیب پر بھی بھاری نہ پڑے۔۔۔‘

27 سال سے وزیر آباد کی ایک مسجد میں امام قاری محمد فیاض کی خواہش تھی کہ ان کے پاس بجلی سے چلنے والی موٹر سائیکل ہو۔ وہ آئے روز پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں سے تنگ آ چکے تھے۔ سرکاری وظیفے پر گھر کے اخراجات برداشت کرنا بھی مشکل ہوتا جا رہا تھا۔

ایک روز انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ اپنی پرانی موٹر سائیکل کو ہی الیکٹرک بائیک بنا لیا جائے۔ لیکن اس کام کے لیے ان کے پاس کوئی مہارت نہ تھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ایک تو مجھے شوق تھا، دوسرا مہنگائی کا بھی معاملہ تھا۔‘ آٹو مکینک کا کام کرنے والے ان کے دوست کہتے تھے ’چھوڑیں قاری صاحب کس کام میں پڑ گئے ہیں لیکن میں انھیں کہتا تھا کہ میری الیکٹرک بائیک ضرور چلے گی۔‘

پاکستان میں موٹر سائیکل کروڑوں عام لوگوں کی سواری ہے جو بچوں کو سکول چھوڑنے سے لے کر نوکری پر جانے تک قریب ہر کام کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

ادارۂ شماریات پاکستان کے اندازے کے مطابق ملک میں قریب 27 ملین رجسٹرڈ بائیکس ہیں۔ مگر جب سے پیٹرول کے نرخ بڑھے ہیں، آمدورفت کے اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور لوگ متبادل توانائی کے ذرائع تلاش کر رہے ہیں۔

قاری فیاض کی طرح بعض لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پیٹرول سے چلنے والی پرانی موٹر سائیکلوں کو بجلی پر منتقل کیا ہے۔

قاری فیاض کا کہنا ہے کہ ’اس کام کے لیے میں نے بہت نقصان اٹھایا، گھر والوں اور دوست احباب کی باتیں بھی سنیں۔۔۔ حتیٰ کہ مسجد کی انتظامیہ نے پوچھ لیا کہ قاری صاحب آپ آئے روز لاہور جا رہے ہیں، آخر چکر کیا ہے؟ آپ ایک وقت میں ایک ہی کام کریں۔‘

قاری فیاض
،تصویر کا کیپشنقاری فیاض کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ’ہائبرڈ‘ موٹر سائیکل 50 کلومیٹر تک بجلی پر چلاتے ہیں

تاہم اس سب کے باوجود انھوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور اپنے شوق کی تکمیل کے لیے ڈٹے رہے۔

’کبھی بیٹری کے پھٹنے سے دھواں نکلا، کبھی بائیک اُلٹی چلنے لگی‘

وزیر آباد سے قاری فیاض ایک دن کے نوٹس پر ہم سے ملنے لاہور آئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اکثر اپنی الیکٹرک بائیک پر یہ سفر طے کرتے رہتے ہیں۔

ان کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ موٹر سائیکل کو بجلی پر چلانا آسان کام نہیں تھا۔ پیٹرول انجن کو الیکٹرک میں تبدیل کرنے کے لیے موٹر، کنٹرولر، بیٹری اور تھروٹل جیسے کئی پرزے درکار تھے جو چین سے درآمد کیے جاتے ہیں، یا لاٹ کے مال میں سیکنڈ ہینڈ ملتے ہیں۔

قاری فیاض بتاتے ہیں انھیں اس کام کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ’ایک بار بیٹری خریدی تو وہ پھٹ گئی اور ہر طرف دھواں اٹھنے سے لوگ جمع ہوگئے۔‘ اسی طرح ایک بار انھیں خراب بیٹریاں فروخت کر دی گئیں۔ ابتدائی نقصانات کے بعد انھیں سامان کے انتخاب میں احتیاط برتنا پڑی۔

آہستہ آہستہ انھوں نے پیسے جمع کر کے تمام پارٹس خرید لیے مگر اب مسئلہ یہ تھا کہ ان کی فٹنگ کیسے کی جائے گی۔

پاکستان

اس دوران انھیں کئی بار یہ سننے کو ملا کہ یہ ’نہیں چلے گی‘ مگر وہ سب کو یہی جواب دیتے تھے کہ ’یہ ضرور چلے گی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے کاریگر کو فون کیا، وہ مصروف تھا۔ میں نے اسے کام کرتے دیکھا تھا بلکہ کئی مشورے بھی دیے تھے۔ لہذا میں نے خود ہی تمام پرزے موٹر سائیکل میں لگا لیے۔‘

’مگر جب ہر چیز فٹ ہوگئی تو وہیل آگے گھومنے کے بجائے پیچھے کی طرف گھومنے لگا۔ پہلے تو گھر والے حیران ہوئے کہ میں نے خود ہی الیکٹرک بائیک تیار کر لی ہے مگر پھر ہم سب ہنسنے لگے اور پریشانی میں مبتلا ہو گئے کہ اسے آگے کی طرف کیسے چلایا جائے۔‘

اس روز انھیں کچھ جلدی بھی تھی کیونکہ انھیں عشا کی نماز پڑھانے مسجد جانا تھا۔ لہذا انھوں نے وہیل کو الٹایا، جس سے پچھلی بریک ناکارہ ہوگئی، اور اگلی بریک استعمال کرتے ہوئے آہستہ آہستہ مسجد پہنچ کر نماز پڑھائی۔ مگر یہ کوئی مستقل حل نہیں تھا۔

ایسے میں ان کی مدد فیصل گجر نے کی جو تعلیم کے اعتبار سے تو لا گریجویٹ ہیں مگر قریب ڈھائی سال قبل لاہور کے نواحی علاقے شاہدرہ میں پرانی موٹر سائیکلوں کو الیکٹرک بائیک بنانے کا کام کر رہے ہیں۔

وہ عام لوگوں کی آگاہی کے لیے یوٹیوب پر ویڈیوز بھی لگاتے ہیں۔

پاکستان
،تصویر کا کیپشنفیصل گجر کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکل عام آدمی کی سواری ہے مگر جب سے پیٹرول مہنگا ہوا ہے تب سے کئی لوگ ان کے پاس اپنی بائیک کو الیکٹرک کروانے کے لیے آ رہے ہیں

انھوں نے قاری فیاض کو بتایا کہ کنٹرولر میں تاریں غلط لگائی گئی ہیں اور اس تصحیح کے بعد موٹر سائیکل آگے کی جانب چلنے لگی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں یہ الیکٹرک بائیک 15 ماہ سے چلا رہا ہوں۔ لوگ اسے تجسس سے دیکھتے ہیں۔ میں بائیک پر آتے جاتے لوگوں کو یہی مشورہ دیتا ہوں، چاہے وہ مانگیں یا نہ مانگیں۔‘

ان کے مطابق وہ اپنے علاقے میں کئی موٹر سائیکلوں کو بجلی پر منتقل کر چکے ہیں کیونکہ یہی مستقبل ہے۔

اپنی موٹر سائیکل کو بجلی پر چلانا کیا واقعی فائدہ مند ہے؟

پاکستان
،تصویر کا کیپشنپارٹس مہنگے ہونے کے باعث منتقلی کا یہ عمل بذات خود ایک مہنگا کام ہے جس کا خرچ 70 ہزار روپے سے شروع ہوتا ہے تو ایک لاکھ 20 ہزار روپے تک جاتا ہے

قاری فیاض کے تجربے محض یہاں تک محدود نہیں رہے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ’ہائبرڈ‘ موٹر سائیکل 50 کلو میٹر تک بجلی پر چلاتے ہیں اور جب اس کی رینج ختم ہوجاتی ہے تو اسے دوبارہ پیٹرول پر منتقل کر دیتے ہیں۔ اس طرح وہ قریب ہر ہفتے وزیر آباد سے شاہدرہ تک کا سفر طے کر لیتے ہیں۔

وہ مستقبل میں ایک الیکٹرک کار تیار کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں اور انھیں معلوم ہے کہ اسے سولر پاور پر چلانا سب سے بہترین راستہ ہوگا۔

فیصل گجر کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکل عام آدمی کی سواری ہے مگر جب سے پیٹرول مہنگا ہوا ہے تب سے کئی لوگ ان کے پاس اپنی بائیک کو الیکٹرک کروانے کے لیے آ رہے ہیں۔

ان کے مطابق موٹر سائیکل کو بجلی پر چلانا اس لیے سستا ہے کیونکہ اس میں قریب ایک روپے فی کلو میٹر کی لاگت ہے جو پیٹرول کے مقابلے کئی گنا کم ہے۔ تاہم پارٹس مہنگے ہونے کے باعث منتقلی کا یہ عمل بذات خود ایک مہنگا کام ہے جس کا خرچ 70 ہزار روپے سے شروع ہوتا ہے تو ایک لاکھ 20 ہزار روپے تک جاتا ہے۔

قاری فیاض کہتے ہیں کہ ’حکومت کو چاہیے کہ ٹو وہیلرز کے لیے آٹو پارٹس سستے کیے جائیں تاکہ ملک میں حقیقی طور پر الیکٹرک وہیکلز کا انقلاب آ سکے۔‘