’اگر بابر اعظم کے پاس بھی کرس جارڈن ہوتے‘: سمیع چوہدری کا کالم

PSL

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, سمیع چوہدری
  • عہدہ, کرکٹ تجزیہ کار

ریورس سوئنگ معجزے برپا کر سکتی ہے۔ لیکن معجزے صرف تبھی ممکن ہو پاتے ہیں اگر کوئی اس مہلک ہتھیار کا درست استعمال جانتا ہو اور اسی طرح نبھا پائے جیسے کرس جارڈن نے نبھایا۔

یہ بابر اعظم کے خلجان کی قیمت تھی جو زلمی کو ایلیمینیٹر تک لے گئی اور سلطانز نے متواتر ایک اور پی ایس ایل فائنل کی ٹکٹ بک کر لی۔

جب بابر اعظم کریز پر تھے، تب وہ بدقسمت رہے کہ جونہی جارحیت کو قدم بڑھانے لگتے، دوسرے کنارے سے کوئی نہ کوئی وکٹ گرتی رہی اور جس ابتدائی سست سٹرائیک ریٹ کا ازالہ وہ انتہائی اوورز میں کرنا چاہتے تھے، وہ ممکن نہ ہو پایا۔

کراچی کی پچ نے پچھلے چند دنوں میں اوپر تلے سنسنی خیز معرکے بپا کئے ہیں۔ یہ پچ بھی کچھ ایسی ہی تھی کہ نئی گیند کے ساتھ بلے بازی کو سازگار تھی مگر جوں جوں گیند پرانا ہونے لگتا، ریورس سوئنگ جھلک دکھلانے لگتی اور بلے بازی دشوار ہوئی جاتی تھی۔

محمد رضوان نے پچ کی اس چال کا بہترین استعمال کیا۔ پاور پلے میں وہ پیسرز کو بروئے کار لائے اور زلمی کو ہاتھ کھولنے کا موقع فراہم کیا۔ مگر پاور پلے ختم ہوتے ہی وہ اپنے بہترین ہتھیاروں کی طرف لوٹے۔ افتخار احمد اور اسامہ میر یہاں ناقابلِ تسخیر ٹھہرے۔

یہی وہ مرحلہ تھا جہاں زلمی کے اوسان خطا ہوئے۔ پشاور کے بلے باز یہ بھانپ نہ پائے کہ یہاں لمبے شاٹس کی کھوج بے سود تھی اور سٹرائیک روٹیشن ہی بہترین جارحیت تھی۔ باؤنڈریز کی تلاش میں زلمی اپنے بلے باز گنواتی گئی اور سکور بورڈ پہ جمود طاری ہو رہا۔

اور پھر کرس جارڈن کی وہ گیند بابر اعظم کا مقدر ٹھہری جو آف سٹمپ کے باہر سے ہلکی سی ریورس سوئنگ کے ساتھ سٹمپس پہ یوں حملہ آور ہوئی کہ بابر اعظم کی مشاقی لاجواب ہو گئی۔ وہاں بابر ہی کیا، کوئی بھی عظیم بلے باز ہوتا، اس پرفیکٹ یارکر کا توڑ نہ کر پاتا۔

PSL

،تصویر کا ذریعہGetty Images

زلمی کا مجموعہ ملتان کی بیٹنگ کے تقابل میں واقعی حقیر تھا اور پھر بابر کے بولنگ وسائل بھی سلطانز کی نسبت کمتر تھے۔ لیکن اگر بابر اعظم خلجان کا شکار نہ ہوتے تو اس قلیل ہدف کے دفاع کو بھی ممکن بنا سکتے تھے۔

مہران ممتاز سے اٹیک اوپن کروانے کا فیصلہ یوں دانش سے عاری ٹھہرا کہ نئی گیند پہ یہاں رنز بٹورنے میں وہ دشواری ہی نہ تھی جو قدرے پرانی گیند پہ موثر سپن کے خلاف درپیش ہو سکتی تھی۔

اگر زلمی کے تھنک ٹینک نے سلطانز کی بولنگ سے ہی کچھ سیکھا ہوتا تو صائم ایوب اور مہران کو پاور پلے کے بعد بیچ کے اوورز کو بچا کے رکھا جاتا اور متواتر آٹھ اوورز تک ملتان کی بلے بازی کو محبوس کیا جاتا۔

مگر نہ تو بابر اپنی سوچ میں واضح تھے اور نہ ہی زلمی کے بولرز اس ڈسپلن سے مالا مال تھے جو رضوان کے بولرز نے دکھایا۔

اگر بابر تجربات میں الجھنے کی بجائے لیوک ووڈ اور عامر جمال سے اٹیک کروا لیتے تو ممکن تھا کہ یاسر خان کی اننگز یوں طول نہ پکڑ پاتی اور قلیل ہدف کے تعاقب میں ایسی برق رفتار اننگز میچ کو یوں یکطرفہ نہ کر جاتی۔

حالانکہ محمد رضوان کی وکٹ جلدی حاصل کر لینا غنیمت سے کم نہ تھا کہ اس طرح کی پر پیچ وکٹ پہ وہی اس تعاقب کی کامیابی کی کلید ہو سکتے تھے۔ لیکن اکیلے رضوان کو آؤٹ کر لینا کافی نہ تھا کہ سکور بورڈ اتنا تگڑا نہ تھا جو سلطانز کے اعصاب پہ سوار ہو پاتا۔

اگرچہ زلمی کی بولنگ نے ڈیتھ اوورز میں ریورس سوئنگ کا قدرے بہتر استعمال کیا مگر مڈل اوورز میں وہ اس لینتھ پہ ضرب لگانے سے قاصر رہے جہاں سے ملتان کی اننگز منتشر ہو پاتی۔

گو اختتامی لمحات میں تھوڑے سے بھونچال کا امکان تو پیدا ہوا مگر اعتماد سے معمور افتخار احمد نے بولرز کی ایک نہ چلنے دی اور اپنی ٹیم کو فائنل کی راہ دکھا دی۔ جبکہ بابر اعظم کو فائنل تک رسائی کے لیے ایک اور امتحان درپیش ہو رہا۔