میری جس دن سے اس سے شناسائی ہوئی ہے
اس دن سے خود سے آگاہی ہوئی ہے
میں ہر گام پلٹ کر اس کو ہی دیکھتی ہوں
گر اس ظالم کی عاشقی میں ،بہت رسوائی ہوئی ہے
ہر بار یہی ارادہ کیا کہ چهوڑ دیں اس کو
کیا کریں کہ لب بلب جاں آئی ہوئی ہے
میری جان اس مہربان میں ہے بند
یہ لوگوں کو کس بات کی قیامت آئی ہوئی ہے؟