شکوہ کبھی زبان پہ لایا نہ جائے گا
وہ بات یونہی اپنی سنایا نہ جائے گا
خوشیوں کی اک جھلک ہی دکھانے سے پیشتر
مجھ کو مرے نصیب رلایا نہ جائے گا
خلقِ خدا کو سینے سے اک بار تو لگا
اخلاص سے ہی بخت جگایا نہ جائے گا
پتھر نہیں یہ پیار کا گوہر ہے ہاتھ میں
ہونٹوں سے جس کو وہ بھی لگایا نہ جائے گا
ماتم کدہ ہیں اپنی انا کے غرور میں
سورج کو جو چراغ دکھایا نہ جائے گا
اشکوں سے تر وفا ؤں کی خالی زمین پر
آنکھوں میں خواب وشمہ جی آیا نہ جائے گ