حسرت کسی کے دل میں جلایا نہ جائے گا
غیروں سے اب تو ہاتھ ملایا نہ جائے گا
بن کر جو کانٹے میرے ہی سپنے بگاڑ دیں
پلکوں یہ ایسے رنگ سجایا نہ جائے گا
لے لے نہ جان وقت کے موسم کو دیکھ کر
اب پھول پر ھی تتلی نچایا نہ جائے گا
اے فیس بک کے دوستوں تم سے گلہ نہیں
سچ ہے کہ وقت پر کبھی آیا نہ جائے گا
اب مرتے مرتے موت کا بھی ڈر نہیں رہا
اب زندگی کا ساتھ نبھایا نہ جائے گا
وشمہ یوں تیرے لمس کی خوشبو بکھر گئی
بالوں میں گل یہ کلیاں سجایا نہ جائے گا