یاد ہے انکی عنایت ظلم ڈھانا یاد ہے
جانَ من مجھکو محبت کا زمانا یار ہے
ہم جہاں چھپ چھپ کے ملتے تھےکبھی جانَ جہاں
آج بھی وہ راستہ اور وہ ٹھکانا یاد ہے
بھول بیٹھے ہیں ستم کے آپ ہی قصے مگر
درد غم آنسو کا مجھکو ہر فسانہ یاد ہے
اس لءے دور َ پریشانی سے گھبراتا نہیں
مشکلوں میں انکا مجھکو مسکرانا یاد ہے
گھر کے باہر یک بیک سن کر میری آواز کو
بن د پٹا تیرا دروازے پہ آنا یاد ہے
جان سے اپنی گیا پا کر اشارہ جو تیرا
کیا تجھے اپنا ستمگر وہ د وانہ یاد ہے
حکم سے کس کے گری تصدیق بجلی کیا پتہ
ہمکو جلتا صرف اپنا آشیانہ یاد ہے