حسنِ طرار کے انداز کہاں ملتے ہیں
پیکرِ یار کے انداز کہاں ملتے ہیں
خامشی وصف تو ہے اہلِ ہنر کا لیکن
اس کے افکار کے انداز کہاں ملتے ہیں
ڈھونڈنے والے بھی نادان رہے بستی میں
چشمِ بیدار کے انداز کہاں ملتے ہیں
اپنا اظہارِ محبت بھی جدا ہے سب سے
اس کے انکار کے انداز کہاں ملتے ہیں
یہ جو بیٹھا ہے مرے سامنے اب محفل میں
ایسے دلدار کے انداز کہاں ملتے ہیں
خون روتی ہوئی آنکھوں سے نہ پوچھو وشمہ
ایسے بیمار کے انداز کہاں ملتے ہیں