وہ ایک شخص بھی دیکھا ہےزندگی کی طرح
کہ نام جس کا مرے دل میں بندگی کی طرح
قدم قدم پہ وہ مڑ مڑ کے دیکھتا تھا مجھے
کہ مجھ کو چھوڑ ا تو نکلا ہے خوشی کی طرح
میں اس کی یاد بھلانے جو گھومنے نکلی
وہ شہر کے سبھی چہروں میں اجنبی کی طرح
کوئی بھی سمت نہ تھی تیرے دام سے باہر
میں جس طرف بھی گئی تیری بے خودی کی طرح
سروں کے بوجھ سے آزاد ہوکے بھی دیکھا
شناختوں کا وہی طوق آگہی کی طرح
یہ کیا سفر تھا کہ جب لوگ لوٹ کر آئے
تو بس غبار ندامت کی نمی کی طرح
صبا یہ کیسی تھی وشمہ کہ جس کے جھونکوں سے
فروغ شاعری کا کرئے تازگی کی طرح