جب بھی تمہیں یاد کروں پلکیں بھیگ جاتی ہیں
تیرا بچھڑنا ناسور بن کر دل کو زخم دیتا ہے
آخر جھوٹی نکلیں وہ قسمیں بے وفا نکلا تُو بھی
تجھ سے بڑھ کر تجھے چاہا پھر بھی تُو فریب دیتا ہے
زمانے سے بیگانہ ہوا سکون میں تھا اب بے قرار ہوں
سانسوں میں بسایا تجھے مہکے پھولوں کی چاشنی کی طرح
مسکرانا سکھایا خوشگوار سپنے بُنے تیرے لئے
کیسے ایک لمحے میں چھوڑ دیا کیا خاص اہمیت دیتا ہے
پہلی ملاقات میں درد دل بڑھا کر مسکراتا تھا
میری خوشی کو اپنی زندگی کا سرمایہ سمجھتا تھا
میرے پیار بھرے خط پڑھ کر مہک سا جاتا تھا
بدلا ہے کیسے ظالم انجانے زخمِ جدائی دیتا ہے
میرے چہرے کو مہتاب ہونٹوں کو چھلکتا جام کہتا تھا
میری دید کواپنی آنکھوں کی آرزو دل کا قرار کہتا تھا
چاہت کے باوجود انجانے پن کو اپنی مجبوری کہتا تھا
پیار تھا درمیان پھر کیوں جدا رہنے کی سزا دیتا ہے