یہ جو ہر سمت ترے بزم کی شہرت کی ہے
سچ تو یہ ہے کہ مرے سر کی بدولت کی ہے
ایسے موسم میں وہ چپ چاپ نظر جو آیا
اس نے آنکھو ں سے کوئی شکایت کی ہے
میں نے جو چیز گنوا دی اسے ہیرا کہہ کے
کسی نادار مسافر نےعنایت کی ہے
اس کو لفظوں میں اتاروں تو ورق ہوں روشن
اس کی تصویر بنا لوں تو محبت کی ہے
اے مرے پاؤں کے چھالو مرے ہمراہ رہو
امتحاں سخت ہے ہم نے بھی وکالت کی ہے
میری تاریک شبوں میں ہے اجالا ان سے
چاند سے زخموں پہ مرہم کی رفاقت کی ہے
اس سے جب عہد وفا کر ہی لیا اے وشمہ
بے وفا کہہ کے اسے اشک ندامت کی ہے