جس ملک میں حاکم ڈرتے ہوں
دہشت گردی سے مرتے ہوں
جب گھر میں بلائے جاتے ہوں
بندوق کے سائے جاتے ہوں
جہاں عصمتیں صبح و شام لٹیں
جہاں خاص لٹیں جہاں عام لٹیں
جہاں دین لٹے جہاں دھرم لٹے
جہاں پیار لٹے جہاں بھرم لٹے
جہاں معبد خوں میں نہائے ہوں
جہاں سب منظر دھندلائے ہوں
جہاں ہر سو ظلم کے پہرے ہوں
جہاں غم کے موسم ٹھہرے ہوں
جہاں منصف و حاکم اندھے ہوں
جہاں مکر و فریب کے دھندے ہوں
جہاں صبحیں کالی کالی ہوں
جہاں راتیں جیسے گالی ہوں
جہاں فکر اور فن بکاؤ ہوں
جہاں تن اور من بکاؤ ہوں
جہاں مہنگائی کی ڈائن ہو
جہاں رکھوالا ہی خائن ہو
ہر آدم زاد سے اے لوگوں
اپنے ہمزاد سے اے لوگوں
صد ادب ہمیں یہ کہنا ہے
کب تک ہمیں یہ سب سہنا ہے
اقبال نے کب یہ سوچا تھا
قائد نے کب یہ چاہا تھا
کہ ایسا پاکستان بنے
جو ظلمت کی پہچان بنے