دیدارِ یار کی جب تمنّا تھی پنپتی من میں
رُخِ دلدار کو دیکھتے ہی قرار آ جاتا
بیعت چاہی تھی اُس کی شبِ فِراق میں لیکن
کہ شائید پرستار کو دِلِ اُمید سے فرار آجاتا
قصد کر لیا کہ تخت اُس کا آنچل اوڑھ لے مگر
باغِ گلشن کی کلی میں بھی جرار آجاتا
اطاعت چاہی تھی اُس نے طرفہ شناسائی کی
انتشار نہ ہو کہ پھر بدگمانی سے اغیار آجاتا
ہٹ جاتا وہ گر انا پرستی کی آتش میں
کافر ہو جاتا میں میرے عشق کو سنگسار کیا جاتا
آشتی سے فتح کر لیا ساک نے اُس کو
ورنہ جہاں میں فسانوں کا انبار آجاتا