میری رہ کی دیوار بنے ہیں
جو لوگ مرے یار بنے ہیں
غم سارے انھوں نے ہی دیے ہیں
یہ آج جو غم خوار بنے ہیں
کالے بال، پیشانی کشادہ
ان کے نین تلوار بنے ہیں
بس جھوٹ زمانے میں پھیلانے
اتنے سارے اخبار بنے ہیں
لگتا ہے کہ اب بچھڑیں گے ہم بھی
کچھ ہجر کے آثار بنے ہیں
تمہاری مہربانی کی خاطر
کچھ اچھے بھی بیمار بنے ہیں
یہ لوگ، بڑے لوگ ہیں طاہر
جو دھوپ میں اشجار بنے ہیں