راستوں کا سراغ رکھا ہے
اپنا حاضر دماغ رکھا ہے
شب اندھیری ہے گِر نہ جائے کوئی
چاہ پر اک چراغ رکھا ہے
ساقیا! بے شعور آنکھوں کے
سامنے کیوں ایاغ رکھا ہے
دشت کے درمیان میں جا کر
اپنی خواہش کا باغ رکھا ہے
اتنی مصروفیت سے کیا حاصل
کچھ تو خود کوفراغ رکھا ہے
اس کی چاہت کا ہر گھڑی وشمہ
اپنے سینے پہ داغ رکھا ہے