شادی بیاہ اور ساس بہو کا جھگڑا ہی صرف عورت کا مسئلہ نہیں بلکہ ۔۔ یمنیٰ زیدی کا ڈرامہ بختاور کس عورت کی اصل کہانی پر بنا ہے؟

image

ماں ہو یا بیٹی، عورت اپنے ہر روپ میں بہت مضبوط اور ہمت والی ہے لیکن ظالم زمانہ اکیلی عورت کو جینے کا حق نہیں دیتا۔ ہمارے معاشرے میں ایک عورت کا اکیلا رہنا کتنا دشوار ہے اس پر تو بہت بار بات کی جاتی ہے لیکن ایک سبق جو ہمیں بختاور ڈرامے سے ملتا ہے وہ یہ کہ عورت کی زندگی میں شادی بیاہ اور ساس بہو کی لڑائی کے علاوہ بھی بہت مسئلے ہیں، جن پر روشنی نہیں ڈالی جاتی۔

حال ہی میں یہ ڈرامہ اپنے اختتام کو پہنچا ہے جس میں یمنیٰ نے بختاور نامی ایک ایسی نوجوان لڑکی کا کردار ادا کیا جو اپنے گھریلو مسائل اور مشکلات کو ختم کرنے کے لیے کوششیں کرتی دکھائی دی ہیں۔

ڈرامہ یا اصل کہانی؟

یہ ڈارمہ لاہور کی رہائشی فرحین اشتیاق کی حقیقی زندگی پر بنا ہے جھوں نے اپنی بیٹی کو پالنے اور لوگوں کی ہوس کا نشانہ بننے سے بچنے کے لیے مرد کا روپ دھار لیا تھا اور یہ روپ وہ 9 سال تک دھارے رہیں۔ اسی روپ کے ساتھ فرحین نے نوکری کی اور پیسے بچا کر چھوٹا سا کاروبار شرروع کیا۔ اور جب حالات بہتر ہوئے تو فرحین نے اپنی کہانی دنیا کے سامنے پیش کی۔

اسی حقیقی کہانی سے متاثر ہو کر بختاور ڈرامے کی ابتدا ہوئی، جہاں بختاور کے والد جوئے کی بازی ہارنے کے بعد بختاور کی بڑی بہن کی شادی ایک بڑی عمر کے شخص سے کرا دیتے ہیں اور پھر وہ خود گھر سے غائب ہو جاتے ہیں۔ جبکہ چھوٹا بھائی معذوری کی حالت میں فوت ہو جاتا ہے۔ ماموں جیسے قریبی رشتہ دار بختاور کی ماں سے مالی کفالت کے بدلے اپنے ذہنی معذور بیٹے کے لیے بختاور کا رشتہ مانگتے ہیں۔

اس صورتحال سے تنگ بختاور تعلیم حاصل کرنے کی چاہ رکھتی ہے لیکن اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے پر اپنی ہی برادری میں اسکی زندگی اجیرن بن جاتی ہے اور خاندان کے مردوں سے زیادہ عورتوں نے ہی ایسے حالات پیدا کر دیے کہ بے سہارا لڑکی اپنی ماں کے ساتھ شہر بھاگ جاتی ہے۔

اس کے بعد بختاور کو پہلی بار اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دنیا تو مردوں کی ہے، جس میں مردوں کے بغیر دو عورتوں کا گزارہ مشکل ہے۔ تاہم شہر آنے کے بعد سب سے پہلے کرائے کا مکان حاصل کرنے اور نوکری کی تلاش کے دوران چند خوفناک واقعات بختاور کو مردانہ حُلیہ اپنانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

ایک مثبت پیغام

ڈرامے کے اختتام پر اداکارہ یمنٰی زیدی نے ایک بیان میں کہا کہ، میرے نزدیک بختاور ایک مضبوط کردار تھا، یہ ڈرامہ رومانوی گانے یا عام خاندانی سیاست کے بغیر شائقین کے دلوں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوا۔

ڈرامے کے اداکار شمعون عباسی کا کہنا تھا کہ، آج کے دور میں جہاں ہم ڈراموں میں نفرتیں دیکھ رہے ہیں وہاں بختاور ڈرامے نے ایک مثبت پیغام دیا ہے۔ اس ڈرامے نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ عورت کے مسائل ساس بہو کی لڑائی، اور شادی بیاہ کے لیے کسی مرد کے پیچھے بھاگنا نہیں جو اکثر ڈراموں میں دِکھائے جاتے ہیں۔

ڈرامے میں سیاستدانوں کے دہرے معیار سمیت بہت سے مسائل کو اٹھایا گیا ہے۔ ساتھ ہی والدین کی اہمیت، عورت کے حقوق اور پولیس کے مثبت چہرے کو بھی اجاگر کیا گیا۔

اس ڈرامے میں خواتین کے لیے بہت اچھا پیغام تھا کہ خواتین چاہیں تو وہ معاشرے کی تبدیلی کے لیے ایک اچھا کردار ادا کرسکتی ہیں لیکن انہیں اپنے حق کے لیے خود آواز اُٹھانا ہوگی۔

ڈرامے میں روایتی شادی بیاہ کے موضوع سے ہٹ کر ترقی پسند سوچ کو دکھایا گیا جس میں لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کو شادی کرنے پر ترجیح دی گئی جو یقیناً ہمارے معاشرے کے لیے ایک مثبت پیغام ہے۔

You May Also Like :
مزید