“ چاہ “

اللہ تعالی کی آزمائش جو ہر کسی کہ لئے نہیں ہوتی بعض دفع اللہ اپنے بندے کو خود سے قریب کرنے کے لئے اسے آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔ اسکے دل میں ایسی شہ کی محبت ڈال دیتا ہے جو اسکے لئے نہیں ہوتی پھر اسکو اس کے ہاتھوں سے توڑ کر کہتا ہے،،، اب بتا کون ہے تیرا میرے علاوہ ؟ پھر وہ بندہ عشق مجاذی سے عشق حقییقی کو پا لیتا ہے۔

میں ایک ہس مکھ لڑکی، جس کو لوگ پوچھا کرتے تھے ، تم اتنی خوش کیسے رہ لیتی ہو ؟ تو میں ہس کر کہتی تھی پتا نہیں ،،،، میں اپنی ہی دنیا میں رہنے والی لڑکی تھی۔ خوش رہنا خوشیاں بانٹنا ، بڑی سے بڑی بات کو “ کوئی میں ایک ہس مکھ لڑکی، جس کو لوگ پوچھا کرتے تھے ، تم اتنی خوش کیسے رہ لیتی ہو ؟ تو میں ہس کر کہتی تھی پتا نہیں ،،،، میں اپنی ہی دنیا میں رہنے والی لڑکی تھی۔ میرا نام ظہور انسا ہے، مگر پیار سے سب مجھے ظہور کہ کر پکارتے تھے۔ خوش رہنا خوشیاں بانٹنا ، بڑی سے بڑی بات کو “ کوئی نہیں “ کہ کر ٹال دینا۔ ہر ایک کی مدد کرنا، میری بہت ساری دوستیں تھی پر بوائے فرینڈ کوئی نہیں تھا۔ اسکی وجہ یہ نہیں کہ میں پیاری نہیں تھی۔ اچھی ہائٹ ، گورا رنگ ، لمبے بال مجھ میں وہ ہر کوالٹی تھی۔ جسے لوگ دیکھ کر پہلی نظر میں ہی پسند کر لیا کرتے تھے۔ مجھ پر بہت سے لڑکوں نے قسمت آزمائی پر میں کسی کو خاطر میں نہیں لائی، کچھ نے شرط تک لگا کر قسمت آزمائی پر کسی کی دال نہیں گلی۔
میری بچپن سے سب سے زیادہ دوستی اللہ سے تھی۔ ہر بات رات کو سونے سے پہلے اللہ سے شئیر کیا کرتی تھی، اللہ سے باتیں کرتے کرتے جانے کب سو جاتی تھی پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔ وہ چپ چاپ میری ڈھیر ساری باتیں سنا کرتا تھا۔ آھستہ آھستہ میں نے وہ سارے کام شروع کر دیئے جو اللہ کو پسند تھے۔ مجھے پہلا عشق اللہ سے ہوگیا۔ تب میں نے پڑھا کہ عورت کا مطلب ڈھکی چھپی ہوئی چیز،، تب میں نے اپنے گرد ایک دائرہ کھینچ لیا کہ میری زندگی میں میرے شوہر کے سوا کوئی مرد نہیں آئے گا۔ نہ کوئی مجھے دیکھے گا نہ میں کسی سے بات کروگی۔ میرے گرد اس دائرے پر درار تب پری جب مجھے میری دوست کی کال آئی۔
“اسلام و علیکم“ فون اٹھانے پر دوسری طرف سے آواز آئی۔
“ والسلام ،،،، کیسی ہو ؟ “ میں نے کہا
ٹھیک ہوں تم کیسی ہو ظہور ؟ “ دوسری طرف سے پوچھا گیا۔
“ میں اچھی ہاہاہا “ ایک تو تم ہنستی بہت ہو ،،،، “ میرے بیٹی ہوئی ہے “
“ ارے واہ اللہ نے رحمت بھیجی بہت بہت مبارک ہو ،،، کہاں ہو ہوسپٹل کہ گھر ؟ “ میں نے خوشی سے پوچھا۔
“ گھر آگئی ہوں اپنے سسرال ہوں، آجاؤ تم اب لگا لو چکر کب سے کہ رہی ہوں۔“ دوسری طرف ہلکی سی ناراضگی سے کہا گیا۔
“ اب تو ضرور آؤ گی بیٹی جو دی اللہ نے مجھے لڑکیاں بہت پسند ہیں۔“
“ ہاں دیکھو گی، کب آتی ہو،،، اچھا میں پھر بات کرتی ہوں آئمہ اٹھ گئی ہے۔ “ دوسری طرف جلدی سے کہا گیا۔“
“ ارے واہ آئمہ بہت پیارا نام ہے ماشااللہ، چلو ٹھیک ہے اللہ حافظ ۔“ میں نے اتنا کہ کر کال کٹ کردی۔
میں نے جلدی دے اپنی آپی ، بھائی سب کو بتایا کہ میری دوست کے گھر رحمت آئی ہے۔ ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا کہ مجھے اسکے گھر جانا ہے تو جانا ہے۔ میں بہت ضدی تھی۔ اپنے بابا سے زیادہ بڑے بھائی سے ضد کیا کرتی تھی۔ جب تک بڑے بھائی نے لے جانے کی ہامی نہ بھر لی میں نے انکی جان نہیں چھوڑی۔
میں نے تھوڑا سا آگے ہو کر دیکھا تو ایک لڑکا کھڑا تھا۔ شاید یہ ہی ہمٰیں لینے آیا ہوگا کیا پتہ شیزا کا دیور ہو۔
“ کیا یہ شیزا کا دیور ہے ؟ “ میں جو ابھی سوچ رہی تھی میری بہن نے مجھ سے وہ پوچھ ہی لیا۔
“ ہو سکتا ہے کتنے سارے تو اسکے دیور ہیں،، ہاہاہا “ میں ہنسنے لگ گئی۔
“ توبہ اتنے بھی نہیں بس چار ہیں “ میری بہن نے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔
پھر ہم اسکی ہمراہی میں اسکے پیچھے گاڑی دوڑاتے انکے گھر پہنچ گئے۔ گھر ایک تنگ گلی میں تھا، اور مجھے یہ دیکھ کر بری حیرت ہوئی کہ سب ہمارے انتظار میں باہر ہی کھڑے تھے۔ شیزا کی ساس، سسر ، اسکا شوہر سب ہی بڑے اچھے طریقے سے ملے۔ مجھے وہ لوگ بڑے ہی اچھے لگے سادہ سے لوگ تھے۔کچھ دیر باتیں ہوتی رہی باتوں باتوں میں شیزا نے اپنے شوہر سے چھوٹے دیور کی بات کی، میں سمجھ گئی کیونکہ وہ مجھ سے پہلے بھی اس ٹاپک پر بات کر چکی تھی۔ میں نے اسے سیدھے لفظوں میں اپنی بڑی بہن کا کہا۔ اسنے فورا سے کمرے سے باہر جا کر بات کی، مجھے اسکی جلد بازی پر حیرت ہوئی اور عجیب بھی لگا۔ وہ دوبارا اپنے بچوں کو کمرے میں لے کر آئی۔ اسکے دونوں بچے ما شااللہ بہت پیارے تھے، اسنے پھر باتوں باتوں میں کہا،،،، “ وہ دونوں کا کہ رہے ہیں کہ بڑے کہ لئے بڑے کا اور چھوٹی کہ لئے چھوٹے کا۔“ مجھے اس وقت حیرت کا شدید جھٹکا لگا اور میں اسکے منہ کی طرف دیکھنے لگ گئ لیکن اسکا دھیان میری طرف نہیں تھا، وہ اپنے کام میں مصروف تھی۔
“ اسکو تو میں بعد میں پوچھو گی۔ “ میں نے دل میں سوچا۔ میرے لئے یہ حیرت کی بات نہیں تھی معمولی سی بات تھی کیونکہ میں جہاں جاتی تھی وہاں سے رشتہ کا پیغام آجاتا تھا۔ میں نے اسے بھی سر سری ہی لیا۔
“ کون ہیں تمہاری چھوٹی کہ لئے چھوٹا دیور “ میں نے زبردستی مسکراتے ہوئے پوچھا۔
“ ارے وہی جو تم لوگوں کو لینے گیا تھا۔ یہ میرے لئے حیرت کا دوسرا جھٹکا تھا۔ جانے کیوں مجھے حیرت ہی ہوئی جا رہی تھی۔ وہ پھر جو اسکی تعریفیں کرنے لگی مجھے اس میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا، اس لئے بے دلی دے ادکی باتیں سنتی رہی۔ ( جاری ہے )
 

Zeena
About the Author: Zeena Read More Articles by Zeena: 92 Articles with 200931 views I Am ZeeNa
https://zeenastories456.blogspot.com
.. View More