کربلا اور حسین ؓ (یومِ عاشور) (دسویں قسط)

کربلا اور حسین ؓ
(یومِ عاشور)
(دسویں قسط)
تحریر: شبیر ابن عادل

خلافت کو ملوکیت میں تبدیل ہونے سے بچانے اوراپنے نانا ﷺ کے دین کی سربلندی کے لئے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ، اپنے ساتھیوں کی مختصر سی جمعیت کے ساتھ ذی الحجہ سن 61ھ میں مکہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے تھے۔ راستے کے مصائب تکالیف اور یزیدی فوج کا اما م عالیمقام اور ان کے ساتھیوں کوکربلا کے مقام پر گھیرا جانا، پانی کا بند کیا جانااور سخت گرمی میں اذیتوں کو برداشت کرنے کی تفصیل کو چھوڑ کر یوم عاشور کاذکر کرتے ہیں، جس کے بارے میں سن کر تمام کلمہ گو مسلمانوں کی آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں۔

دس محرم کی شب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے تمام ساتھی خشوع وخضوع کے ساتھ نماز، دعا اور دیگر عبادات میں مصروف رہے۔ رات ختم ہوئی، فجر کی نمازکی امامت سیدنا حسین ؓ نے کی، اس کے بعد انہوں نے حفاظتی اقدامات کے لئے اپنے تھوڑے سے ساتھیوں کی فوج مرتب فرمائی۔ میمنہ، میسرہ اور قلب کے سالار مقرر کئے۔ حضرت امام حسین ؓ کے سامنے 32سوار اور40 پیدل افراد تھے۔72 افراد پر مشتمل وہ مختصر سی سپاہ خیموں کے سامنے صف باندھے کھڑی تھی۔ جبکہ اُن کے مدِّ مقابل دشمنوں کا ٹِڈی دَل تھا۔ آپؓ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی، اور سواری طلب فرمائی، سواری پر بیٹھ کر خطبہ دیا۔ جس میں پہلے وعظ ونصیحت کا حق اد ا کیا، اس کے بعد دنیا و آخرت کا فرق اورتوجہ الی اللہ کی دعوت دی۔ پھر اپنے حسب و نسب اور فضائل کا تذکرہ فرمایا اور فرمایا کہ:
"لوگو! جلدی نہ کرو، پہلے میری بات سن لو مجھ پر تمہیں سمجھانے کا جو حق ہے، وہ ادا کرلینے دو اور میرے یہاں آنے
کی وجہ بھی سن لو، اگر تم میرا عذر قبول کرلو گے اور مجھ سے انصاف کرو گے تو انتہائی خوش نصیب انسان ہوگے۔

لیکن تم اس کے لئے تیار نہ ہوئے تو تمہاری مرضی سب مل کر میرے خلاف زور لگا لو اور مجھ سے جو برتاؤ کرنا چاہتے ہو،
کر ڈالو۔ اللہ بڑا کارساز ہے وہی اپنے نیک بندوں کو ہدایت دیتا ہے تم لوگ میرے حسب نسب پر غور کرو اور دیکھو کہ
میں کون ہوں؟پھر اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے آپ کو ملامت کرو کہ تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی
ہے؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ اور ان کے چچا زاد بھائی کا بیٹا نہیں ہوں؟ جنہوں نے اللہ عزوجل کے حکم پر سب
سے پہلے لبیک کہا اور اس کے رسول ؐ پر ایمان لائے۔ کیاسیّد الشہداء حضرت امیر حمزہ ؓ میرے والد کے چچا نہیں تھے؟
کیا حضرت جعفر طیار ؓ میرے چچا نہیں تھے؟ کیا تمہیں میرے اور میرے بھائی کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا یہ قول یاد
نہیں کہ ہم دونوں جنت کے سردار ہوں گے؟ اگر میں سچ کہہ رہا ہوں تو پھر مجھے بتاؤ تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ
کرنا چاہئے؟"
حضرت امام حسین ؓ اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر خطاب فرما یا اور آپ ؓ کے ہاتھ میں قرآن کریم تھا اور دشمن سے کسی بھی قسم کا خوف یا خطرہ لاحق نہیں تھا۔ اس دوران ابن سعد کے لشکری آ پؓ کی جانب بڑھے تو آپؓ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور بارگاہِ رب العزت میں یوں دعا فرمائی:
"یا اللہ! میں نے ہر مصیبت میں تجھ پر ہی بھروسا کیا ہے اور ہر سختی میں تو ہی میری پشت پناہی کرنے والا ہے۔ میں نے
ہمیشہ تجھ ہی سے مانگا ہے اور تو نے ہی ہمیشہ میری دست گیری کی ہے تو ہی ہر نعمت کا مالک ہے تو ہی احسان کرنے والا تھا
آج بھی میں تجھ ہی سے التجا کرتا ہوں "۔
پھر آپ ؓ نے کوفیوں کو مخاطب ہوکر کہا کہ مجھے بتاؤ تم مجھے کس جرم میں قتل کرنا چاہتے ہو؟ ان کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ پھر آپ ؓ نے ان سرداروں کے نام لے کرفرمایا، جنہوں نے آپ ؓ کو خط لکھے تھے کہ کیا تم نے مجھے خطوط نہیں لکھے تھے؟ ان بے ایمانوں نے کہا کہ ہم نے آپ کو خطوط نہیں لکھے۔ آپ ؓ نے فرمایا کہ اگر تم مجھے پسند نہیں کرتے ہو تو میں واپس چلا جاتا ہوں مجھے جانے دو۔ ان سرداروں نے جواب دیا آپ خود کو ہمارے حوالے کردیں۔

حضرت امام حسین ؓ نے کہا کہ میں جیتے جی ہرگز خود کو تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔ صرف ایک حر ہی تھے، جن کے دل پر آپ ؓ کی باتوں کااثر ہوا۔ اسی نے آپ ؓ کو حجاز کا راستہ اختیار کرنے سے روکا تھا اور اس وقت وہ اپنی اس حرکت پر نادم تھا کہ میں نے آپؓ کو ان ظالموں کے حوالے کردیا۔ اسی ذہنی کشمکش کی کیفیت میں اس نے ابن سعد سے پوچھا کہ کیا تمہیں ان کی تینوں میں سے کوئی تجویز بھی منظور نہیں ہے؟ ابن سعد نے جواب دیا کہ اگر میرا کچھ اختیار ہوتا تو میں فوراً منظور کرلیتا مگر اب میں بے بس ہوں۔


پھر اپنے حریف کے کردار پر روشنی ڈالنے کے بعد آپ سواری سے اتر آئے۔ اس کے بعد اتمام حجت کے لئے زھیر بن قین آئے، انہوں نے عمر بن سعد کی فوج کو سمجھایا بجھایا اور اپنے عقیدہ و ایمان کا اعلان کیا، زُہیر اپنا فرض پورا کرچکے تو بُریر بن حُضیر نے تقریر کی۔
حُر بن یزید الرباحی، امام کے حالات اور خطبات سے متاثر ہوکر حاضر خدمت ہوچکے تھے۔ حُر نے معافی بھی حاصل کرلی تھی۔ انہوں نے اجازت طلب کرکے حریفوں کو للکارا، ان کے ظلم کی وجہ سے ان پر لعنت ملامت کی، اور اہل بیت پر پانی بند کرنے پر انہیں شرم دلائی۔

عمر بن سعد (ملعون) فوج سے نکل کر سامنے آیا کمان میں تیر جوڑا اور یہ کہہ کر تیر چلایا کہ لوگوں گواہ رہنا، میں نے سب سے پہلے تیر چلایا ہے۔ ایک تیر کا چلنا تھا کہ نہ معلوم کتنی کمانیں کڑکیں ور تیر فضا میں تیرنے لگے۔ اس وقت امام حسین ؓ کی استقامت اور اصحاب کی پامردی تاریخ کے صفحات پر سنہری حروف سے لکھی گئی۔ بڑی دلیری اور جانثاری سے تیر وتلوار کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے موت کے لئے تیار رہے۔ جب دشمن للکارتاتو ایک فدا کار بڑھ کر جواب دیتا تھا۔

فجر سے ظہر تک ایک ایک کرکے امام حسین ؓ کے جانثار میدان میں آتے اور داد شجاعت دے کر جام شہادت پیتے رہے۔ سب سے پہلے مبارزت طلب کے مقابلے میں عبداللہ بن عُمیر کلبی نکلے۔ مقابلے میں یسار اور سالم، (مولی زیاد) و مولی عبیداللہ ابن زیاد تھے۔ کچھ دیر جھڑپ ہوتی رہی، پھر عبداللہ بن عمیر نے ایک ایک کرکے دونوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور خود بھی لہولہان ہوگئے۔ ان کی زوجہ ام وَھب بنت عَبد، گرز لے کر میدان میں آگئی تھیں۔ عبداللہ بن عمیر نے زخمی ہونے کے باوجود زوجہ کو خیمے میں پہنچایا اور خود بھی فاتحانہ انداز میں واپس آئے اور دوبارہ میدان میں کود پڑے۔ مسلم بن عَوسجہ کے بعد شہید ہوئے۔

یزیدی لشکر کے ایک افسر عمرو بن الحجاج نے اصحاب امام کے میمنہ پر حملہ کیا تو انہوں نے گھٹنے ٹیک کر نیزے تان لئے، کمان داروں نے تیر چھوڑے اور دشمن اپنے آدمیوں کو میدان میں تڑپتا چھوڑ کر بھاگے۔ حضرت حُر نے اجازت حاصل کی اور ایک شیر کی طرح حملہ کیا۔ متعدد افراد ان کی تلوار سے مارے گئے، وہ رجز پڑھتے رہے اور حملے کرتے رہے یہاں تک یزید بن سفیان سامنے آیا اور قتل ہوا۔ اس کے بعد دشمن سامنے سے ہٹ گیا، آپ زخموں سے چور اپنے مرکز میں لوٹے۔ اور بعد ظہر بہت بے جگری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ مسلم بن عوسجہ، بربر بن حُضیر، منحج بن سہم، عمر بن خالد اسدی کوفی، جنادہ بن حارث سلمانی کوفی، جندب بن حجیر کندی کوفی، جندب بن حجیر کندی کوفی جیسے تقریباًبارہ افراد نے دست بدست جنگ کی۔ یہ حضرا ت رجز پڑھتے تھے، حریفوں میں ایک ایک اور دس دس سے لڑتے اور انہیں قتل کرتے تھے۔


ظہر تک ایک کے مقابلے میں ایک مجاہدآتے اور جنگ کرتے رہے، انصارِ امام کی حوصلہ مندی و حق پرستی کا جوش بڑھتا گیا اور دشمن فوج میں خوف و بدنظمی پھیلتی گئی۔ تیس بتیس سوار جب سیکڑوں کے دستے پر جھپٹتے تھے تو لشکر یزید میں تہلکہ مچ جاتا تھا، پرے چھٹ جاتے تھے۔ ظہر کے قریب عروہ بن قیس نے، عمر بن سعد کو جنگ کی صورتحال سے مطلع کیا کہ تھوڑے سے آدمی بے جگری سے مقابلہ کررہے ہیں۔ کچھ فوج اور تیرانداز معین کئے جائیں تو کام بنے، چنانچہ تیر اندازوں کو حکم ہوا، تیر چلے تواصحابِ امام نے اس کمال اور شجاعت سے مقابلہ کیا کہ دشمن کے دانت کھٹے کردئیے۔ اب حصین بن نمیر نے پانچ سو تیر انداز سامنے کھڑے کردئیے۔ اس حملے میں گھوڑے زخمی ہوگئے، اور دشمن آگے بڑھے، لیکن زھیر بن قین نے دس مجاہدوں کے ساتھ دشمن پر ایسا شیرانہ حملہ کیا کہ شمر بن ذی الجوشن کا دستہ میدان چھوڑ کر بھا گ گیا۔ محققین کا خیال ہے کہ اس معرکے میں کم و بیش پچاس حضرات نے جامِ شہادت نوش کیا۔

پہلے حملے کے بعد شمر (ملعون) نے خیموں کو گرانے اور جلانے کا منصوبہ بنا کر دوبارہ پیش قدمی کی۔ امام حسین ؓ نے بڑھ کر شمر کو تنبیہ کی، اس پر فوج کے سرداروں نے شمر کو ملامت کی اور بات ٹل گئی۔ اس موقع پر ابو ثُمامہ الصائدی نے عرض کی کہ دل چاہتا ہے کہ آخری نماز حضور کے ساتھ پڑھوں۔ امام حسین ؓ نے فرمایا کہ ہاں نماز کا وقت ہے، اللہ تمہارا شمار نمازیوں میں کرے، دیکھو، اگر یہ لوگ نماز کی مہلت دے دیں تو اچھا ہے۔ دیکھیں، امام عالیمقام کو علم تھا کہ ان کی شہادت میں چند لمحے باقی ہیں، چاہتے تو یزیدی لشکر میں پیشقدمی فرماتے تو بے جگری سے لڑتے ہوئے شہید ہوجاتے۔ لیکن انہوں نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ دشمن کی تلواروں کی چھاؤں میں بھی نماز ضرور ادا کی جائے۔ یزیدی لشکر نے سیدنا حسین ؓ اور ان کے ساتھیوں کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ چنانچہ امام حسین ؓ نے اپنے جانثاروں کے ساتھ تلواروں کی زد میں نماز ظہر ادا کی۔ زُھیر بن قَین اور سعید بن عبداللہ آگے کھڑے تیر روکتے رہے، امام نے نماز ختم کی اور سعید نے جان دے دی اور ساتھ ہی مزید ۳۲ جانثار وں نے جامِ شہادت نوش کیا۔

اس کے بعد اقربا اور بنی ہاشم نے میدان گرم کیا، علی اکبر سے لے کر علی اصغر تک سب ایک ایک کرکے جام شہادت نوش فرماتے چلے گئے، اُس جنگ میں حضرت سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کے سات (7) بیٹوں میں حضرت سیدنا امام حسین ؓ، حضرت عباس ؒ، حضرت جعفر ؒ، حضرت عبداللہؒ، حضرت عثمان ؒ، حضرت محمد ؒاور حضرت ابوبکر ؒکو بے دردی اور سفاکی سے شہید کیا گیا۔ واضح رہے کہ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ ؓنے حضرت سیدہ فاطمہ بنت محمد ؓ کے وصال کے بعد شادیاں کیں، جن سے ان کی مزید اولادیں ہوئیں۔ ان میں چھ (6) بیٹے اپنے سوتیلے لیکن عظیم بھائی پر میدان کربلا میں نثار ہوگئے۔ ان کے علاوہ حضرت حسینؓ کے بیٹے علی اکبر ؒ اور ان کے بھائی عبداللہؒ شہید ہوئے۔ حضرت حسن ؓ کے بیٹے عبداللہ ؒ اور ان کے دو بھائی ابوبکر ؒ اور قاسم ؒ بھی قتل کردئیے گئے پانچوں حضرت فاطمہ زہرا ؓ کے پوتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن جعفر طیار ؓ کے بیٹوں میں محمد اور عون قتل ہوئے۔ عقیل بن ابی طالب کے بیٹوں میں سے بعض معرکے میں کام آئے۔ مسلم بن عقیل کو کوفہ میں ہزاروں

کوفیوں کے مجمع میں یزیدی گورنر نے شہید کروا دیا۔

امام حسین ؓ کو اس وقت دیکھنے والوں میں سے عبداللہ بن عمار کا بیان ہے کہ میں نے آج تک ایسا زخمی اورعزیزوں کا ماتم دار نہیں دیکھا جو امام حسین ؓ سے زیادہ مطمئن ہو۔ اگر فوج ان پر حملہ کرتی تھی تو وہ تلوار لے کرجھپٹتے تھے اور مجمع یوں بھاگتا تھا جیسے بکریوں کے گلے میں شیر آجائے۔ آخر آپؓ خیمے میں آئے، عزیز و انصار کی خواتین کو الوداع کہا، ایک بوسیدہ لباس زیب تن کیا، پھر میدان میں آئے۔ تیر اندازوں نے تیر برسائے اور امام خون میں نہا گئے، مگر اب بھی یہ عالم تھا کہ سامنے آئے ہوئے لوگ کانپ رہے تھے۔ امام حسین ؓ نے دوبارہ حملہ کیا تو نہر فرات تک پہنچ گئے۔ اس وقت حصین بن نمیر نے ایک تیر مارا جس سے دہن مبارک سے خون جاری ہوگیا۔ اسی دوران لشکر یزید کا ایک دستہ خیموں کی طرف بڑھا اورشمر نے پکار کر کہا کہ خیموں میں آگ لگا دو، امام نے شیرانہ صدا دی اور دشمن پلٹ آئے اور امام کا محاصرہ کرلیا، آپؓ فرمارہے تھے۔
"یاد رکھو، اللہ میرے قتل سے انتہائی ناراض ہے میں قسم کھا کرکہتا ہہوں کہ تمہارے ذلت دینے سے اللہ مجھے
عزت دے گا اور پھر میرا بدلہ تم سے اس طرح لیا جائے گا جس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ یادرکھو! مجھے قتل
کرنے کے بعد خود تمہارے درمیان تفرقہ پڑجائے گا، خانہ جنگیا ں ہوں گی اور آخرکار تمہارا خون بھی بہایا
جائے گا۔ اس کے بعد آخرت کی سزا، وہ اس سے بھی زیادہ ہے"۔
عصر کا وقت تھا، امام مظلومؓ یاد حق میں مصروف تھے، کھڑے ہونے کی قوت جواب دے چکی تھی۔ جسم تیروں سے تار تار اور سر مبارک زخم سے خونبار تھا۔ لوگوں کو ہمت نہ پڑتی تھی کہ وار کریں، آخر شمر (ملعون) نے شہ دی اور مالک بن نسر، زُرعَہ بن شَرِیک، سِنِان بن اَنَس نے باری باری نیزے اور تلوار سے وار کیا اور رحمت للعالمین اور ہمارے نبی کریم ﷺ کے چہیتے نواسے اور جنت کے نوجوانوں کے سردار حضرت سیدنا حسین ؓ کا سر انتہائی سفاکی سے تن سے جدا کردیا گیا۔

حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کے بعد خیمے لوٹے اور جلائے گئے، اہل بیت اسیر ہوئے،امام حسین ؓ سمیت تمام شہداء کے سر نیزوں پر چڑھائے گئے اور اہل بیت کے ساتھ کوفے سے شام بھیجے گئے۔ امام حسین ؓ کی اولاد نرینہ میں صرف حضرت امام زین العابدین علی بن حسین باقی رہے۔ کیونکہ جنگ کے دوران وہ بخار میں تپ رہے تھے۔
ملعونوں نے امام حسین ؓ سمیت تمام شہداء کے لاشوں پر گھوڑے دوڑا کر انہیں پامال کیا۔ ان کے جانے کے بعد قریب ہی آباد قبیلہ بنو اسد کے لوگوں نے آکر ان کی نمازِ جنازہ ادا کی اور انہیں سپرد خاک کیا۔


اس سے قبل خولی بن یزید نے حضرت امام حسین ؓ کا سر ایک نیزے پر چڑھایا اور ایک فوجی دستے کے ہمراہ کوفہ پہنچاتو شام ہوچکی تھی۔ شام ہوجانے کی وجہ سے اسے گورنر ہاؤس میں داخلے کی اجازت نہ ملی۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو اجازت دے دی کہ وہ اپنے گھروں کو چلے جائیں اور خود بھی امام حسین ؓ کا سر لے کر وہ اپنے گھر چلا گیا۔ اس کی بیوی نے اسے برابھلا کہا، وہ اہل بیت اطہار سے سچی محبت کرتی تھی۔ اس نے خولی بن یزیدسے علیحدگی کامطالبہ کیا۔ خولی بن یزید نے اسے ابن زیاد سے حاصل ہونے والے انعام واکرام کا لالچ دیا لیکن اس نے کسی قسم کا تعاون کرنے سے انکار کردیا۔ وہ رات بھر حضرت سیدنا امام حسین ؓ کے غم میں آنسو بہاتی رہی اور طلوعِ سحر کے وقت گھر سے نکل گئی اور پھر کبھی واپس نہیں آئی۔

مختصر یہ کہ واقعہ کربلا اسلام کے لئے عظیم سانحہ تھا۔ اُس لڑائی میں تمام اصولوں اور قدروں کو پامال کیا گیا۔ اہل بیت کا، جن کے احترام اور خیال رکھنے کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے متعدد بار تاکید کی تھی، ان کا خون پانی کی طرح نہایت سفاکی اور درندگی کے ساتھ بہایا گیا اور حرمت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بالکل خیال نہیں رکھا گیا۔ افسوس، صد افسوس (جاری ہے)
=================



shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 110696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.