بھوکے پیاسے اپنی گاڑی چھوڑ کر پیدل اسلام آباد پہنچے، اپنی جان بچانے والے اس نوجوان کے ایسے انکشافات جو سنسنی کی لہر دوڑا دیں

image
 
ملکہ کوہسار مری جو سال کے بارہ مہینے عوام کی تفریح اور دلچسپی کا ایک اہم مرکز رہتا ہے مگر اس سال ہونے والی برف باری نے اور ہونے والی اموات نے مری کے حوالے سے اور وہاں موجود لوگوں کے رویے کے حوالے سے کئي سوالات اٹھا دیے-
 
سانحہ مری میں حکومتی ترجمان کے مطابق 23 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے یہ وہ افراد تھے جو سیر و تفریح کے لیے آئے تھے- مگر برف باری کے سبب اپنی گاڑیوں تک محصور ہو گئے اور مری کے ہوٹل مالکان کے مہنگے کرائے افورڈ نہ کر سکنے کے سبب گاڑيوں میں اپنی فیملی کے ساتھ رات گزارنے پر مجبور ہو گئے- جس کی وجہ سے ان افراد کی گاڑی میں گیس بھر جانے کے سبب موت واقع ہو گئی-
 
ہلاکتوں کے علاوہ متاثرہ افراد کی تعداد بھی کم نہیں ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق برف باری کے وقت مری کے محدود سے علاقے میں لاکھوں افراد موجود تھے- جن میں فیملی کے ساتھ آئے افراد کے علاوہ ایسے نوجوان طالب علم بھی تھے جو کہ تعلیمی اداروں کی چھٹی کے سبب مری تفریح کے لیے آئے تھے-
 
ایسے ہی ایک نوجوان طالب علم محمد طیب جس کا تعلق میانوالی سے تھا اس کا یہ کہنا تھا کہ وہ مری اپنے دوستوں کے ساتھ تفریح کے لیے آئے تھے- مگر انہیں وہاں مری کے لوگوں اور ہوٹل مالکان کی جانب سے بہت مایوس کن رویے کا سامنا کرنا پڑا-
 
image
 
ان کا مزيد یہ بھی کہنا تھا کہ وہاں کے مقامی لوگ کسی بھی قسم کے تعاون کے لیے تیار نہ تھے یہاں تک کہ ہوٹل مالکان واش روم تک استعمال کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہ تھے- ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنی گاڑی میں ٹریفک جام میں پھنس گئے-
 
رات بھر پھنسے رہنے کے سبب جب صبح وہ لوگ اٹھے تو انہوں نے کئی گاڑيوں کے شیشے کھٹکھٹائے مگر ان میں سے کسی نے دروازے نہ کھولے- ان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ ان گاڑی والوں کی لاشیں بعد میں فوج نے آکر شیشے توڑ کر نکالیں-
 
ان حالات میں محمد طیب کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کے بعد وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بھوکے پیاسے پیدل ہی اسلام آباد کی طرف روانہ ہو گئے-
 
image
 
محمد طیب کے ساتھ موجود دوسرے نوجوانوں کا یہ کہنا تھا کہ ان کو پیدل چلتے دیکھ کر وہاں چـلنے والی گاڑیوں نے ان کو پندرہ ہزار میں چوک تک پہنچانے کی آفر کی- مگر طالب علم ہونے کے سبب ان کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ وہ اتنی بھاری قیمت ادا کر سکتے اس وجہ سے ان کو مجبوراً پیدل ہی آنا پڑا-
 
کچھ نوجوانوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے جو کمرہ ایک دن کے لیے چھ ہزار یومیہ لیا تھا برف باری ہوتے ہی اس کی قیمت بڑھ گئی اور ہوٹل مالکان نے ان سے کہا کہ جو بھی ان کو زيادہ قیمت ادا کرے گا وہ اس کو کمرہ دیں گے-
 
اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ پانی کی ایک بوتل تین سو روپے اور جو کھانا انہوں نے پہلے دن کھایا تھا اگلے ہی دن ساڑھے چار ہزار تک جا پہنچا۔
 
یہ تمام باتیں اور واقعات سن کر سانحہ مری کی تکلیف اور بھی سوا ہو جاتی ہے اگر انسان دوسرے انسان کے کام آجاتا تو اس دکھ کی تکلیف اتنی زيادہ نہ ہوتی۔ کوئی بھی حکومت عوام کو سہولت تو فراہم کر سکتی ہے مگر ایک انسان کے دل میں دوسرے انسان کے لیے ہمدردی اورمحبت کا جزبہ نہیں پیدا کر سکتی ہے اس وقت سانحہ مری کا سب سے بڑا تکلیف دہ پہلو یہی ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: