عقلِ کُل سمجھنے والا بے بس ہے کتنا!
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
|
عقلِ کُل سمجھنے والا بے بس ہے کتنا! (خون کا عطیہ دیتے ہوئے گوگل سے لی گئی تصویر) جنگل میں ہر قسم کی مخلوق کےدرمیان ہر لمحہ چوکنّا رہنے والا ، اپنا جسم درختوں کے پتّوں سے چھپا کر پتھروں کے اوزاروں سے شکار کر کے کچّا کھانے والا آج اپنے عالیشان محل میں ڈرون کے ذریعے اپنی خواہش کا کھانا آنے اور اسے کھانے کے انتظار میں، اپنے بچوں کو بِنا ڈرائیور گاڑی میں یونیورسٹی چھوڑ کر واپس آنے والی گاڑی کے انتظار میں ، اپنی تمام کمانڈز اپنی تمام گیجٹس کو دے کر بے خبری کی نیند میں بظاہر سورہا ہے لیکن یہ اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھنے والا کتنا بے بس ہے کہ نیند میں بھی سوچ رہا ہے کہ اپنے جسم میں خون کے ایک قطرے کے علاوہ اور کیا ایجاد کر سکتا ہے کیونکہ اس کا جواب اس کی ایجاد کردہ مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس ) نے ابھی تک نہیں دیا۔یعنی مکمل طور پر اپنا نعم البدل روبوٹ تیار کر لینے کے بعد بھی بے بسی کی انتہا ہے کہ اس کے جسم کو خون کی ضرورت پیش آجائے تو دوسرے انسان کا ہی محتاج ہے کیونکہ دنیا بھر کی مخلوقات کا خون پی کر بھی انسان کے علاوہ کسی دیگر مخلوق کا خون اپنی زندگی بچانے کے لئے استعمال نہیں کر سکتا خواہ اس کے پاس کرہِ ارض کی تمام دولت ہی کیوں نہ ہو۔ ماں کے پیٹ میں زندگی مِل جانے اور چلتی سانس کو قابو میں رکھنے سمیت کچھ بھی تو نہیں اس کے اختیار میں جس پہ اتنی اکڑ ہے کہ گردن ہی سیدھی نہیں ہوتی۔شہرت کا ایسا بھوکا کہ کھانے کی فکر ہی نہیں ، دولت کے پیچھے ایسے بھاگ رہا ہے کہ بڑے سے بڑے طوفان سے آگے نکلنے کی کوشش میں عزتِ نفس کی پرواہ ہی نہیں۔منہ کے بَل زمین پر گرے تو اپنی ایجاد کردہ مشینوں کے بَل کھڑا تو ہو جاتا ہے لیکن چہرہ بگڑ جائے تو اس کو چھپا بھی نہیں سکتا، دوسرا اس جیسا بنا بھی نہیں سکتا اور ٹھیک کرنے کی کوشش میں جو خون درکار ہو تو پھر اس انسان کا محتاج ہو جاتا ہے جسے منہ لگانا پسند نہیں کیا تھا کبھی۔افسوس کتنا بے بس ہے یہ انسان جو اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتا ہے۔
|