کیجریوال: اینگری ینگ مین سے کنفیوژ اولڈ مین تک

اینگری ینگ مین کے طور پر سیاست کےپردے پر نمودار ہونے والے اروند کیجریوال نے ہندوستانی رائے دہندگان کو فلم زنجیر کے امیتابھ بچ کی یاد دلا دی تھی ۔ انا ہزارے تحریک کے دوران جس وقت انہوں نے سیاسی میدان میں قدم رکھا تو ان کے سامنے وزیر اعلیٰ شیلا دکشت اور وزیر اعظم منموہن سنگھ تھے ۔ ان دونوں عمر دراز رہنماوں کے سامنے وہ بچے تھے ۔ اس لیے ان کا بات بات پر چیخنا ، چلانا، روٹھنا اور مان جانا عوام کو اچھا لگتا تھا۔ انتخاب میں کانگریس کی زبردست مخالفت کرنے کے باوجود آگے چل کراس کے ساتھ ہاتھ ملا لینا اور حکومت بنانا ایک بچکانہ حرکت تھی ۔ اپنی اس غلطی کا احساس ان کو بہت جلد ہوگیا ۔کانگریس سے پیچھا چھڑانے کی خاطر انہوں نے لیفٹننٹ گورنر یاور جنگ کے دفتر میں نہایت بھونڈے اندازسے دھرنا دیا اور بالآخر استعفیٰ دے کر کنارے ہوگئے ۔ وہ ان کی ایک سیاسی مجبوری تھی جس میں نگاہیں کہیں اور تھیں نشانہ کوئی اور تھا لیکن کیجریوال کے بھکت اس کو کارنامہ خیال کرکےجئے جئے جھاڑو کا نعرہ لگانے لگے جبکہ بقول شاعر؎
ادھر ہم سے محفل میں نظریں لڑانا،ادھر غیر کو دیکھ کر مسکرانا
یہ بھینگی نظر کا نہ ہو شاخسانہ،‘کہیں پہ نگاہیں‘ کہیں پہ نشانہ‘

اروند کیجریوال سمجھ گئے تھے کہ عآپ کا جھاڑو اگر ایک بار کانگریس کے پنجے میں چلا جائے تو اس سے کمل کا صفایا تو ہوسکتا ہے لیکن اس کے بعد جھاڑو کی ضرورتو اہمیت ختم ہوجائے گی۔ صارفیت کی سیاست کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جب کوئی شئے بے مصرف ہوجائے تواولین فرصت میں اس کو( یعنی جھاڑو سمیت کیجریوال کو ) کوڑا کرکٹ کے ساتھ کوڑے دان کی نذر کردیا جائے گا۔ یہ کانگریس پارٹی کی روایت رہی ہے ۔ چودھری چرن سنگھ اور چندر شیکھر کے ساتھ وہ اس قسم کا سلوک کرچکی ہے۔ بی جے پی فی الحال اسی کو آگے بڑھا رہی ہے ۔ وہ اپنی حلیف جماعتوں کے ساتھ وہی منہ پر رام بغل میں چھری والامعاملہ کررہی ہے جو کسی زمانے میں کانگریس کیا کرتی تھی۔ اس موقع پرستانہ یہ جمہوریت میں ہر جماعت کو یہی کرنا اور سہنا پڑتا ہے ۔ سیاست کےدنیا میں ’یوز اینڈ تھرو ‘ کاعمل بے دریغ دوہرایا جاتا ہے ۔

اس عیاری و مکاری کی ایک بڑی مثال جموں کشمیر میں پی ڈی پی اور بی جے پی کا اشتراک اور انشقاق تھا ۔ دوسری مثال مہاراشٹر کے اندر بی جے پی کا اپنی ہم نظریہ شیوسینا کے ساتھ چلنے والی تو تو میں میں تھی ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ اس بار یہ داوں الٹا پڑ گیا اور خود بی جے پی کو دنگل سے باہر اچھال دیا گیا ۔ دھوکہ دھڑی کے معاملےامیت شاہ جب شرد پوار کے ہتھے چڑھے تو لوگوں کو بے ساختہ اونٹ پہاڑ کے نیچے والا محاورہ یاد آگیا ۔راہل گاندھی2014میں جب پپو کے طور پر سیاسی افق پر نمودار ہوے تو کیجریوال کو کوئی فرق نہیں پڑا لیکن 2019 میں جب باہو بلی بن کر کٹپاّ کے سامنے آگئے تو اروند کیجریوال اچانک بوڑھے نظر آنے لگے ۔ اس کے باوجود انہوں نے2020میں دادامنی کی طرح بی جے پی کے زہر ہندوتوا کی مدد سے اس کو دہلی کے انتخاب میں دھول چٹائی اور کامیاب ہوگئے لیکن فی الحال کورونا نے ان کو کنفیوژ کردیا ہے ۔

کورونا کی بابت سنا ہے کہ وہ جوانوں کے بجائے بزرگوں پر زیادہ اثر کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ راہل گاندھی تو تارکین وطن مزدوروں سے ملنے کے لیے سڑک پر آگئے مگر موت سے خوگزدہ مودی جی نہ جانے کس غار میں جا چھپے۔ وہ تو بھلا ہو اس کیمرے جو وقتاً فوقتاً ان کا دور درشن کرواتا رہتا ہے ور نہ ان کے فراق میں کئی بھکت خود سوزی کرلیتے۔ وزیر اعظم کا یہ عالم ہے کہ کئی بار وہ کیمرے کے سامنے بھی نقاب اوڑ ھ کر یعنی ماسک پہن کر آتے ہیں ۔ امیت شاہ بھی کورونا کے آتے ہی اسی طرح زیر زمین چلے گئے جیسے سہراب الدین اور پرجا پتی کے فرضی انکاونٹر کے بعد غائب ہوگئے تھے لیکن اس وقت کے وزیر داخلہ پی چدمبرم نے انہیں ڈھونڈ نکالا ۔ وزیر اعلیٰ مودی کو پہلے تو شاہ جی کواپنی کابینہ سے نکالنا پڑا اور پھر انہیں تہاڑ جیل میں چکی پیسنے کے لیے بھیج دیا گیا۔ شاہ جی کو بھی جب موقع ملا تو انہوں چدمبرم سے انتقام لے لیا اور اب وہ اروند کیجریوال سے بدلہ لینے کے فراق میں ہیں ۔

اروند کیجریوال نے ابتداء میں کورونا کا مقابلہ ڈٹ کر کیا اور ٹیلی ویژن کے پردے پر آ آکر اس جرثومہ کو خوب للکارہ لیکن وہ بی جے پی کی مانند کوئی کاغذی کمل توتھا نہیں جو دوچار بالٹی پانی سے مرجھا جاتا اور اس پر جھاڑو پھیر دیا جاتا۔ کورونا تو کورونا تھا دھیرے دھیرے وہ اپنے پیر پسارتا رہا اور اب یہ حال ہے کہ اس نے ایک زمانے کا اینگری ینگ مین کوکنفیوژڈ اولڈ میں تبدیل کردیا ہے۔ اس بیچارے کوامر پریت سنگھ کلے کی طرح سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ’اگرکریں تو کریں کیا؟ اور بولیں تو بولیں کیا؟؟‘یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی سرحد میں چین کی فوجیں داخل ہوگئیں ۔ اس پر ہر چھوٹے بڑے سیاستداں نے کچھ نہ کہا لیکن بڑے شرم کی بات ہے کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ کی زبان سے ایک لفظ نہیں نکلا ۔وہ اس قدر حواس باختہ ہیں کہ ایسا لگتا ہے گویا انہیں یہ معلوم ہی نہ ہو کہ سرحد پر کیا ہورہا ہے؟
مرکزی حکومت نے گلوان کے مسئلہ پر کل جماعتی میٹنگ کی تو اس میں عآپ کو شرکت کی دعوت تک نہیں دی مگر اس رسوائی کو اروند کیجریوال نے خاموشی سے برداشت کرگئے ۔ ان کے اندر خودداری ہوتی تو وہ اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے ورچول خطاب عام نہ سہی تو کم از کم کسی اخباری کانفرنس میں من کی بات کہہ دیتے جیسے وزیر اعظم نے دور درشن پر اپنی تقریر نشر کروادی۔ اس دوران اروند کیجریوال یہ بھول گئے کہ وہ دہلی شہر کئ میئر نہیں بلکہ صوبہ دہلی کے ایسے وزیر اعلیٰ ہیں جس کو وہاں کی عوام نے 70 میں 63 حلقہ انتخاب پر کامیاب کیا ہے۔ بھیڑئیے کی مانند رال ٹپکانے والے امیت شاہ نے جب دیکھا کہ پریس کانفرنس میں آکر کورونا سے متعلق بلند بانگ اعلانات کی جھڑی لگا نے والے کیجریوال کے اکثر و بیشتر دعوے غلط نکل رہے ہیں تو وہ حرکت میں آگئے اور انہوں نے کورونا کی خاطر دہلی کے اندر کل جماعتی نشست کا اعلان کردیا ۔ اس بار کیجریوال کو اپنے ہی صوبے کی راجدھانی میں اپنے حریف کا چھوٹا بھائی بن کر جانا پڑا اور واپسی میں یہ احمقانہ اعلان کرنا پڑا کہ مرکزی حکومت انگلی پکڑ ہمیں چلا رہی ہے۔

اروند کیجریوال کا یہ بیان دہلی میں کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت سازی سے چھوٹی حماقت نہیں تھی۔اس کے بعد ان پر ویسا ہی کوئی بڑا تماشہ کرنا لازم ہوگیا جیسے لیفٹننٹ گورنر کے دفتر میں کیا تھا لیکن اسی کے ساتھ وہ اپنی کرسی کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے موگامبو کے انداز میں اعلان کردیا کہ اب دہلی کے اسپتالوں میں باہر کے لوگوں کا علاج نہیں ہوگانیز یہ فرمان بھی جاری کردیا کہ ہریانہ کی سرحد کو بند کردیا جائے گا۔اس طرح کے اعلانات اگر یوگی ادیتیہ ناتھ کی طرف ہوتے تو کسی کو حیرت نہیں ہوتی اس لیے کہ وہ آئے دن یہی سب کرتے رہتے ہیں لیکن کیجریوال جیسے سابق آئی اے ایس افسر کی زبان سے یہ سن کر عوام کو یقین ہوگیا کہ وہ اپنی ساری افسری بھول کر خالص سیاست داں بن چکے ہیں ورنہ اس قدر بچکانہ باتیں نہ کرتے۔ اس بیان سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ دہلی کے اندر کورونا کی وباء کےبے قابو ہونےسے کیجریوال کے اندر چھپا نٹ کھٹ بچہ اب بھی کلکاریاں مار کر اچھل کود کررہا ہے۔

دہلی کے وزیر اعلیٰ کو اول تویہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ دہلی پورے ملک کی راجدھانی ہے وہاں شہریوں کو علاج کے لیے آنے سے روکنا نہ صرف غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہے بلکہ غیر انسانی بھی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ صوبے کے بہت سارے اسپتال مرکزی حکومت کے تحت ہیں اور کچھ اسپتالوں کا انتظام و انصرام میونسپل کارپوریشن کرتی ہے۔ ان دونوں مقامات پر بی جے پی قابض ہے جو کیجریوال کی اس بیوقوفی کو چلنے ہی نہیں دے گی ۔ کیجریوال نے اگر اپنے رائے دہندگان کو خوش کرنے کے لیے یہ شوشہ چھوڑاتھا تو وہ بھی غلط تھا کیونکہ اگر کوئی شخص دہلی میں رہتا ہےاور اس کے والدین کسی گاوں میں بیمار ہوجائیں تو لازماً وہ انہیں علاج کے لیے دہلی لائے گا ۔ اس فرمان کے مطابق اگر اس کو روک دیا جائے گا تو وہخوش ہونے کے بجائے ناراض ہوجائے گا؟ اس لیے سیاسی اعتبار سے یہ ایک نقصان دہ فیصلہ تھا لیکن وزیر اعلیٰ کی قسمت اچھی تھی جو لیفٹننٹ گورنرنے اس پر روک لگا دی اور کیجریوال نے بھی عقل سلیم کا استعمال کرتے ہوئے اس کے آگے سرِ خم تسلیم کرلیا ۔

دوسرا معاملہ ہریانہ اور دہلی کی سرحد کے بند کرنے کا تھا تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں صوبوں کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ پہلے ہریانہ کے احمق وزیر اعلیٰ موہن لال کھٹر نے بارڈر سیل کردی تھی جو غلط فیصلہ تھا لیکن اس کے پاس کم ازکم اس حکم کے نفاذ کی خاطر پولس فورس تو تھی ۔ اروند کیجریوال کے پاس تو وہ بھی نہیں ہے ۔ دہلی کی پولس امیت شاہ کے تحت ہے ۔ وہ کیجریوال کے بجائے کھٹر کی وفادار ہے ۔ کیجریوال نے جب دیکھا کہ دہلی میں کورونا کے مریض بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں تو انہوں نے بھی بی جے پی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ٹسٹنگ کم کردی ۔ امیت شاہ نے یہ دیکھ کر ڈنڈا چلاد یا اور وزیر اعلیٰ کا دماغ ٹھکانے آگیا۔ ایسے میں کیجریوال کے بھکت توقع کررہے تھے کہ وہ پلٹ وار کر دیں گے لیکن انہوں نے وہی کیا جو وزیر اعظم نریندر مودی نے چین کے ساتھ کیا تھا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کا ’’کوئی چینی ہمارے یہاں نہیں گھسا‘‘ والا بیان سن کر سارے ہندوستانی ناراض اور چینی خوش ہوگئے۔پی ایم او کو اس وضاحت کرنی پڑی مگر چین کے وزارت خارجہ نے اس کی من وعن شائع تائید کردی اور اپنے حق میں ثبوت کے طور پر پیش کردیا۔ کیجریوال نے بھی امیت شاہ سے اپنے حلقۂ انتخاب احمد آباد میں ٹسٹنگ کی شرح بڑھانے کا مشورہ دینے کے بجائے مرکزی حکومت کے سامنے فرشی سلام کرتے ہوئے کہہ دیا کہ مرکزی حکومت انہیں انگلی پکڑ کر چلنا سکھارہی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا کیجریوال دودھ پیتے بچے ہیں جو کوئی ان کو انگلی پکڑ کر چلایا جارہا ہو؟ان بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کیجریوال کی عقل پر جھاڑو چل گیا ہے۔کورونا سے متعلق راہل گاندھی کا جو مشورہ پیار سے ان کی عقل میں نہیں آیا وہ امیت شاہ کی مار سے سمجھ میں آگیا اور اب انہوں نے کورونا کی جانچ کا کام تیز کردیا ہے ۔ خیردہلی والوں کے لیے بات سے نہ سہی تو لات سےاس عقل کا ٹھکانے آنا اچھا شگون ہے ۔ اس موقع پر علامہ اقبال کا یہ شعر اروند کیجریوال پر صادق آتا ہے کہ ؎
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر زبانِ نرم و نازک بے اثر


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1221853 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.