دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ

رومن کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشواپوپ فرانسس1934سے عجائب گھرکی حیثیت میں موجودعمارت کومسجدبنائے جانے کے فیصلے پرشدید ردِّعمل ویٹی کن سٹی سے جاری ہونے والے سرکاری رومن کیتھولک اخبارکے ذریعے ظاہرکیاہے۔پوپ فرانسس نے کہاہے کہ استنبول میں واقع سینٹ صوفیہ کے بارے میں سوچ کرانہیں شدید دکھ ہورہا ہے۔ ویٹی کن میں سینٹ پیٹرزاسکوائرمیں اپنی رہائش گاہ کی کھڑکی سے باہر کھڑے مسیحی زائرین سے اپنے ہفتہ وارخطاب کے دوران پوپ فرانسس نے کہاکہ سینٹ صوفیہ کے بارے میں سوچ کرانہیں شدید دکھ ہورہاہے اوردورسمندرپاراستنبول ان کی سوچ میں ہے اوروہاں کے سینٹ صوفیہ نے انہیں اداس کررکھاہے۔11 جولائی کوجنیوامیں قائم ورلڈکونسل آف چرچزنے بھی ترک حکومت کے اس فیصلے پرگہرے دکھ اورافسوس کااظہارکیاتھا کہ آیاصوفیہ ساری دنیا کے لوگوں کیلئے ثقافتوں کے سنگم کی حیثیت حاصل کرچکاہے اوراس تبدیلی سے اس شناخت کودھچکا پہنچاہے۔دنیابھرکے آرتھوڈکس چرچ کے روحانی سربراہ پیٹریاک بارتھو لومیو نے بھی ترک صدرکے فیصلے پرمایوسی کااظہارکیاہے۔ عالمی آرتھوڈکس چرچ کا مرکزی مقام ترک شہراستنبول میں واقع ہے۔

میں یہ سمجھنے سے قاصرہوں کہ بازنطینی دورمیں گرجاگھرکے طورپرتعمیر کی جانے والی اس عمارت کی تبدیلی سے بھلا کیا فرق پڑے گااوراس قدرشور مچانے کی ضرورت کیاہے کیونکہ استنبول کارخ کرنے والے سیاحوں کیلئے یہ عمارت پہلے کی طرح پرکشش ہی رہے گی۔دوسری بہت سی عبادت گاہوں کے مقدرکودیکھتے ہوئے میں یہ سوچنے پرمجبورہوں کہ ردعمل کا بنیادی سبب عبادت سے ہٹ کریابڑھ کرسیاسی تونہیں۔دنیابھرکے سیاسی قائدین کی نظرمیں اردگان ایک تقسیم پسندرہنما کی حیثیت رکھتے ہیں مگردنیا بھرکے سنی مسلمانوں کی نظرمیں وہ دِین کے محافظ کی حیثیت سے دیکھے جاتے ہیں۔امریکا،
یورپی یونین،روس یا کسی اورطاقت کی ناراضی کی پرواکیے بغیراردگان پناہ گزینوں سے روارکھی جانے والی زیادتی اور بد سلوکی پرآوازاٹھاتے ہیں۔

فلسطین،کشمیر،لیبیا،شام یاخانہ جنگی وعسکریت پسندی کی زدمیں آئے ہوئے کسی اورخطے کے مسلمانوں پرڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف وہ یکساں جوش وخروش سے آوازاٹھاتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ کسی بھی بڑے دارالحکومت میں انہیں پسندیدگی کی نظرسے نہیں دیکھاجاتا۔شام اورلیبیامیں ترکی کی عسکری مداخلت نے بہت سی طاقتوں کوناراض کیاہے اور سچ تویہ ہے کہ اس حوالے سیچندمسلم ممالک بھی ان سے خفاہیں۔روس سے فوجی سازوسامان کی خریداری کیفیصلے نے امریکااورنیٹودونوں کو ناراض کیاہے۔
ایک دورتھاکہ دنیابھرمیں ظلم وستم کاسامناکرنے والے بے کسوں کی فریادسننے کافریضہ مذہبی رہنماانجام دیاکرتے تھے۔خانہ جنگی میں پھنسے ہوئے بے سہاراانسانوں بالخصوص بیواؤں اوریتیم بچوں کی دادرسی کے حوالے سے جوکردارمذہبی رہنماوں کو اداکرناتھا،وہ رجب طیب اردگان نے اداکیاہے۔اس حوالے سے انہیں غیرمعمولی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ایک تلخ حقیقت اور بھی ہے اوروہ یہ کہ دنیابھرمیں مذاہب کے ماننے والوں میں یہ تاثربہت تیزی سے ابھراہے کہ ان کے روحانی پیشواوں نے انہیں چھوڑ دیاہے۔یہی سبب ہے کہ مذہبی اجتماعات میں حاضری گھٹتی جارہی ہے۔میراخیال یہ ہے کہ پوپ فرانسس کواس بات سے زیادہ پریشانی لاحق ہونی چاہئے تھی کہ امریکااوریورپ میں سیکڑوں گرجاگھر فروخت ہوچکے ہیں ،حاضری کم ہوتی جارہی ہے اور سب سے بڑھ کریہ کہ پادری بڑی تعدادمیں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں مقدمات کا سامناکررہے ہیں اوربہت سوںکوتوسزابھی سنائی جاچکی ہے۔یہ باتیں زیادہ پریشان کن ہیں مگراِن پرمتوجہ ہونے کے بجائے ترکی میں ایک گرجاگھرکومسجدبنانے پرردعمل کااظہارکیاجا رہا ہے۔

کیاجب اسرائیل نے صفدمیں تیرہویں صدی کی مسجداحمرکونائٹ کلب میں تبدیل کیاتودنیابھرمیں کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے کسی بھی رہنما نے ردعمل ظاہرکیا؟شراب خانے میں تبدیل کیے جانے سے قبل یہ مسجد یہودیوں کامرکز تھی اورپھرکدما پارٹی نے(جوشیرون اورزپی لیونی نے مل کر قائم کی تھی)اسے اپناالیکشن آفس بنایا۔گزشتہ برس اسرائیل میں نزارتھ کی ایک عدالت میں فلسطینی وقف بورڈکے سیکرٹری خیرطبری نے مسجداحمرکی حوالگی کے حوالے سے مقدمہ دائر کیاتھا۔اس مسجدپر انتہاپسند یہودیوں نے حملہ بھی کیااورقرآن کے نسخوں کی بے حرمتی بھی کی۔ان نسخوں کوہٹاکروہاں احکامِ عشرہ کے نسخے رکھ دیے گئے۔1948سے اب تک اسرائیل نے دوسری بہت سی مساجد کی بے حرمتی کی ہے،انہیں بمباری کانشانہ بنایاہے، مسمار کیا ہے مگراس حوالے سے عالمی برادری کاکوئی ردعمل سامنے آیا؟

2018میں جب ٹرمپ نے شام کی گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے حوالے کیں تواقوام متحدہ نے معمولی نوعیت کاردعمل ظاہرکیا اوروہ بھی جلدختم ہو گیا اورپھر”قنیطرہ”نامی قصبے کاتذکرہ خال خال ہی سنائی دیا۔2001میں پوپ جان پال دوم نے وہاں اسرائیلی بمباری سے تباہ ہونے والے گرجاگھرمیں عبادت بھی کی تھی!وہ شام کے تاریخی دورے کا تیسرادن تھااورپوپ نے1974ء میں اسرائیلیوں کے انخلاکے وقت گرجاگھرکی باقیات کادورہ کیا ۔ برسوں کے قبضے کے بعداسرائیلی فوجیوں نے انخلاکے وقت قنیطرہ کوشدید بمباری کانشانہ بنایااوراب وہاں اسرائیلی فون کے انٹینااورفوجی بھی تعینات ہیں جنہوں نے قصبے پرنظررکھی ہوئی ہے۔ پوپ نے گریک آرتھوڈوکس چرچ کی باقیات میں عبادت بھی کی۔پوپ کے ساتھ جانے والے صحافیوں نے تصدیق کی کہ اسرائیلی بمباری سے گرجاگھرتباہ ہوااوراس سے ملحق احاطے میں موجودقبورکی شدیدبے حرمتی ہوئی مگرپھربھی پوپ جان پال دوم نے مکمل خاموشی اختیارکی۔پوپ جان پال دوم دراصل سینٹ پال کے نقوشِ قدم پرچل رہے تھے جنہوں نے دمشق کی راہ پرگامزن ہوتے ہوئے عیسائیت قبول کی تھی۔پوپ جان پال دوم کے دورے کابنیادی مقصد مسلمانوں اورعیسائیوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات دورکرکے ہم آہنگی کی فضا پیداکرناتھا۔انہوں نے شام کے دارالحکومت دمشق میں بنو امیہ کے دورکی ایک مسجد کابھی دورہ کیاتھا۔اسی مسجد میں مقبول روایات کے مطابق یحیی علیہ السلام کامقبرہ بھی ہے۔

میراخیال ہے کہ اگرآج پوپ جان پال دوم ہوتے تواردگان کے حکم کوسمجھنے میں غلطی غلطی نہ کرتے اورکھلے دل سے قبول کرتے۔ یوں بھی اردگان نے حکم کے ذریعے 1934کے اس حکم نامے کومنسوخ کیاہے جس کے تحت آیاصوفیہ کوعجائب گھر میں تبدیل کیاگیاتھا۔آیاصوفیہ کواقوام متحدہ کے ادارے یونیسکونے تاریخی ورثے میں شمارکیاہواہے۔گرجاگھرسے مسجد میں تبدیل کیے جانے والے آیا صوفیہ کوعجائب گھرمیں تبدیل کرنے کاکوئی قانونی جواز یوں بھی نہیں تھاکہ اس عمارت کو 1453میں سلطان محمد دوم نے ایک وقف بورڈکے تحت قانونی تحفظ فراہم کیاتھا۔اس حوالے سے معرضِ وجود میں آنے والی دستاویزآج بھی انقرہ میں ہے۔اس طاقتورترک حکمران نے تب یہ گرجاگھرمتعلقہ عیسائی حکام سے باضابطہ طور پرخریداتھا۔

اردگان کے فیصلے سے سب سے زیادہ جزبزیونانی حکومت ہوئی ہے۔ یونان کے وزیر خارجہ نکولس ڈنڈیاس نے آیاصوفیہ کو مسجدمیں بدلنے کوایک سنگین تاریخی غلطی قراردیتے ہوئے کہاہے کہ دنیاکے اہم سفارت کاروں کواردگان کاراستہ روکنے کیلئے آگے بڑھناچاہیے۔اب یہ واضح ہوتاجارہاہے کہ اردگان عثمانیہ عہد کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اوروہ ترکی کو خطے کابادشاہ گربناناچاہتے ہیں جوبین الاقوامی قانون اوراخلاقیات کی نفی ہے۔بین الاقوامی تعلقات کے ایک ماہرکانسٹینوس فلیزکاکہناہے کہ ایسادکھائی نہیں دیتاکہ ایتھنزکو اس معاملے میں امریکااور یورپی اتحادیوں سے وہ حمایت مل سکے گی جس کی وہ کوشش کررہاہے۔ ہمیں حقیقت کاادراک کرناچاہیے۔یہ ترکی کاایک اندرونی معاملہ ہے اورایتھنزاس بارے میں کسی بھی جانب سے ایک متحدہ ردعمل حاصل نہیں کرسکتا ۔ اس چیزپرسوالیہ نشان ان کاکہناتھاکہ اس چیزپرسوالیہ نشان ہے کہ آیاصدرٹرمپ یونان کی خاطراس مسئلے پرترک قیادت سے اپنے تعلقات خراب کرنے کیلئے آگے بڑھیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ انیسویں صدی میں آزادی نصیب ہونے پر یونانی حکمرانوں نے سلطنت عثمانی کے دورکی سیکڑوں مساجداوردیگرمذہبی عمارتوں کوتباہ کیا۔بہت سی مساجدکوبند کردیا گیایا پھرگرجاگھرمیں تبدیل کردیاگیا۔سلطنتِ عثمانیہ کے دورکی سیکڑوں تاریخی عمارتوں کوفوجی جیل خانوں، دفاتر، سنیما گھروں، ہاسٹل اورگودام میں تبدیل کردیاگیا۔

روس نے بھی اردگان کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ وہ دنیاکوتقسیم کررہے ہیں۔یہ بات ایک ایسے ملک کے منہ سے بہت عجیب لگتی ہے جس نے اپنے ہمسایہ ملک افغانستان میں جارحیت کرکے20لاکھ سے زائدافرادکوخاک وخون میں نہلا دیا، شام میں بشارالاسد کی سفاک آمریت کومضبوط تربنانے میں کلیدی کرداراداکیاہے اورایک ایسی خانہ جنگی کوہوادی جس نے شام کی نصف سے زائدآبادی کوبربادی سے دوچارکررکھاہے۔بہت سے اقدامات ہیں جوروس کی منافقت ظاہرکرنے کیلئے کافی ہیں۔اس نے کرائمیا کے حوالے سے قابلِ مذمت کرداراداکیا۔لیبیامیں باغی کمانڈرفیلڈمارشل خلیفہ ہفتارکاساتھ دیا۔شام میں بشارالاسدکی پشت پناہی کی۔لٹیوینینکوکے قتل میں اس کاکردارہے۔ مغرب کے انتخابات میں اس کی مداخلت بھی کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں۔

آیاصوفیہ کے حوالے سے سب سے بڑامنافقانہ کردارتویونیسکوکاہے جس نے اس عمارت کے حوالے سے تاریخی ورثہ ہونے کارونا رویاہے۔2002میں جب چند فلسطینیوں نے بیت الحم کے چرچ آف نیٹیویٹی میں پناہ لی تھی تب اسرائیلی فوجیوں نے ان پر گولی چلانے سے گریزنہیں کیاتھا۔عیسائیوں کی عبادت گاہ کاتقدس اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں پامال ہونے پریونیسکونے کچھ نہیں کہاتھا۔پوپ جان پال دوم نے معمولی نوعیت کاردِعمل ظاہرکیاتھاتاہم چرچ آف انگلینڈکی طرف سے ایک لفظ نہیں کہاگیا۔یہ بات خاص طورپرقابل ذکرہے کہ امریکااوراسرائیل نے تاریخی اورثقافتی ورثے کی نگہبانی پر مامور اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے2017میں باضابطہ طورپرالگ ہونیکااعلان کیا.دوڈھائی عشروں کے دوران امریکاکوتاریخی ورثے کے تحفظ سے زیادہ عراق کی تیل کی تنصیبات کے تحفظ کی فکرلاحق رہی ہے۔

مسجد اقصی اوردیگرمتبرک مسلم مقامات کی بے حرمتی کے حوالے سے اخباری مضامین اورتجزیوں میں توجہ دلائی جاتی رہی ہے مگرکوئی شنوائی نہیں ہوئی۔اسپین کے شہرکارڈوبا(قرطبہ) میں عظیم الشان مسجدآج بھی گرجاگھرکی شکل میں موجودہے۔80سے زائد مساجدبھی عیسائیوں کے معبدمیں تبدیل کردی گئی ہیں۔اس حوالے سے احتجاج کی توفیق کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔غزہ کی پٹی کیلئے(مڈل ایسٹ مانیٹر)کے نمائندے معتصم دلول نے ایک رپورٹ میں لکھاہے کہ اگرعبادت گاہوں کی نوعیت بدلنے پراحتجاج بنتاہے توپھراسپین پر 1492 ء میں عیسائی افواج کے قبضے کے بعدوہاں کی سب سے بڑی مسجدکوگرجاگھرمیں تبدیل کرنے کابھی نوٹس لیتے ہوئے اس پراحتجاج کیاجاناچاہیے۔دنیابھرمیں جہاں بھی عبادت گاہوں کو تبدیل کیاگیاہے،اس کانوٹس لیاجانا چاہیے۔ اس حقیقت کوکسی بھی طورنظراندازنہیں کیاجاسکتاکہ مسلم حکمرانوں نے آیا صوفیہ کوعیسائی انتظامیہ سے باضابطہ خریدا تھا ، طاقت کے ذریعے اس پرتسلط قائم نہیں کیاتھا۔

دنیابھرمیں جتنے بھی سیاسی قائدین اردگان کے فیصلے پرجزبزہوئے ہیں اوران پرتنقید کے حوالے سے جوش وجذبہ محسوس کر رہے ہیں،انہیں اس نکتے پرغورکرناچاہیے کہ ماضی کی غلطیوں کودرست کرنالازم ہے اوریہ اچھاموقع ہے ایساکرنے کا۔ماضی میں جوکچھ بھی غلط ہوا،اس کے ازالے پرتوجہ دینی چاہیے۔جہاں مذہب اورعبادت کی بات آجائے،وہاں سیاست کوترجیح دینا کسی بھی اعتبارسے کوئی قابلِ ستائش رویہ نہیں اورخاص طورپران کیلئے جو (ماسوائے پوپ فرانسس کے) مذہب کے بارے میں یوں بھی کم ہی جانتے ہیں اور اپنی تاریخ سے تواوربھی کم واقف ہیں۔دوسری جانب اردگان نے آیا صوفیہ کی شناخت تبدیل کرنے پراٹھنے والے خدشات اورتحفظات کومستردکرتے ہوئے کہا کہ ترکی نے ایسا کرنے میں اپناریاستی اختیاراستعمال کیاہے۔ آیا صوفیہ کی حیثیت کی تبدیلی کے بعدبھی یہ مسیحی زائرین اور دوسرے غیرملکی سیاحوں کیلئے کھلی رہے گی۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 315027 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.