اندھیروں کو نکالا جا رہا ہے،مگر گھر سے اجالا جا رہا ہے

وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ امریکی دورے سے ان کے بھکتوں کو مایوسی ہوئی کیونکہ اس بار ناچ گانا اور شور شرابہ نہیں تھا اس کے باوجود یہی یہ ان کا کامیاب ترین دورہ تھا ۔ مودی جی سیر و تفریح کے شوقین آدمی ہیں لیکن انہوں نے اپنے غیر ملکی دوروں کو بھی عوامی تفریح کا سامان بنا رکھا تھا ۔یہ کسی پروقار سربراہِ مملکت کو ہر گز زیب نہیں دیتا تھا۔ دنیا کا کوئی لیڈر اپنے غیر ملکی دوروں پر وہ کھیل تماشا نہیں کرتا جو مودی جی کیا کرتے تھے ۔ وہ کہیں ڈھول بجاتے تو کہیں شہنائی بجاکر شائقین کا دل بہلاتے ۔ یہ وزیر اعظم کا کام نہیں ہے۔ دراصل مودی جی نے غیر ملکی دوروں کو اپنی مقبولیت بڑھانے کا ذریعہ بنایا ۔ وہ ہر جگہ ہندوستانیوں کو تقریر سنانے کے لیے جمع کرتے لیکن انہیں خوف ہوتا کہ پردیس میں بسنے والے ہندوستانی صرف ان کے من کی بات سننے کے لیے آنے کی زحمت نہیں کریں گےاس لیے تفریح طبع کی خاطر ناچنے گانے والوں کا بلایا جاتا تاکہ ان کے طفیل بھیڑ جمع ہوجائے اور وزیر اعظم اپنا بھاشن بگھار کر پیٹھ تھپتھپائیں ۔ اسی کے ساتھ موقع پاتے ہی اپنے پیش رو رہنماوں کو کھری کھوٹی بھی سنائی جاتی جو غیر ملکی سرزمین پر ایک ناقابلِ معافی جرم ہے۔ کوئی اور اگر ایسا کرے تو وزیر اعظم کو چاہیے کہ اسے منع کریں مگر افسوس کہ وہ خود اس کا ارتکاب کرتے رہے۔
وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار جب مودی جی امریکہ گئے تو ان کا استقبال کسی نئی نویلی دلہن کی طرح کیا گیا۔ میڈیسن اسکوائر ایک تفریح گاہ ہے ۔ وہاں کوئی فلمی گانوں پر تھرک رہا تھا کوئی گربا ناچ رہا تھا ۔ کوئی وائلن بجا رہا تھا تو تصویر بنارہا تھا ۔ اس کے ساتھ مودی جی کی تقریر بھی ہوگئی ۔ کورونا سے قبل ان کا آخری امریکی دورہ ہیوسٹن کا ہوا۔ اس میں انہوں نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم چلائی ۔ وزیر اعظم نے بذات خود صدر ٹرمپ کا اسٹیج پر استقبال ا ور تعریف و توصیف جس طرح کی ویسے تو کوئی باوقار ناظم بھی نہیں کرتا۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے دو پیغام دیا ۔ پہلا ’چنگا سی‘ یعنی ملک میں سب اچھا ہے ۔ یہ بات خاص طور پر کشمیر کے تناظر میں کہی گئی تھی حالانکہ یہ حقیقت ہے کشمیر میں آج بھی حالات معمول پر نہیں آئےہیں اور وادی تو دور پچھلے ہفتے پینتھرس پارٹی کے زیر اہتمام جموں میں ہونے والا احتجاج اس بات کا ثبوت ہے کہ وہاں بھی لوگوں میں شدید بے چینی ہے۔ اتفاق سے یہ مظاہرہ اس دن ہوا وزیر اعظم امریکہ میں تھے۔ دوسرا پیغام ٹرمپ کو کامیاب کرنے کا تھا جسے احمد آباد میں نمستے ٹرمپ کا نعرہ لگاکر دوہرایا گیالیکن افسوس کہ اب کی بار ٹرمپ سرکار کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا یعنی ہردو محاذ پر مودی جی ناکام و نامراد ہوگئے۔

پچھلے سال کورونا کے سبب اقوام متحدہ کا اجلاس آن لائن ہوا تھا لیکن اس بار 109ممالک کے سربراہان نے بہ نفس نفیس شرکت کا ارادہ کیا ان میں سے ایک وزیر اعظم نریندر مودی بھی تھے۔ اس مرتبہ خوش آئند بات یہ تھی وزیر اعظم کے پروگرام میں کوئی ایسی عوامی سرگرمی نہیں تھی کہ جو وزیر اعظم کے وقار کو مجروح کرتی ہو لیکن اپنے دورے پر کلنک لگانے کی خاطر نہ جانے کس دشمن نے انہیں انجنا اوم کشیپ کو ساتھ لے جانے کا مشورہ دے دیا۔ انجنا کبھی استقبال کرنے کی خاطر ڈھول بجانے والوں سے پوچھتی کہ وہ کیوں آئے ہیں تو کبھی کسی غیر متعلق انگریز سے سوال کرنے لگتی۔ اس کے جواب میں ڈھول والے بتاتے کہ وہ پیشہ ور ڈھولچی ہیں یعنی ان کی شادی میں بھی اپنی خدمات پیش کرسکتے ہیں۔ ویسے خود انجنا بھی پیسے کےلیے مودی جی کا ڈھول پیٹتی رہتی ہیں۔ سمپت سرل کی ایک نظم کا مصرع ہے:’ بگڑی کو بنانے چکر میں بگڑی کو اور بگاڑنے کے اپنے مزے ہوتے ہیں‘۔ یہ مزہ لینے کی خاطر انجنا بن بتائے ہندوستان کی فرسٹ سیکریٹری سنیہا دوبے کے کمرے میں گھس گئیں اور انہوں نے دھکے مار کر کو بھگا دیا۔ اپنی جھنجھلاہٹ مٹانے کی خاطر انجنا اخبار کھول کر بیٹھ گئیں اور اپنا نمبر بڑھانے کی خاطر مودی جی عدم مقبولیت کا پول کھول دیا۔ اس طرح ساری دنیا کو پتہ چل گیا کہ امریکی میڈیا یعنی اخبارات نے مودی جی کو کوئی اہمیت نہیں دی ۔ انجناکی اس حرکت پر تو یہ شعر (ترمیم کے ساتھ )صادق آتا ہے؎
یہ کشیپ، مودی جی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

وزیر اعظم مودی نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے 76 ویں اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کورونا وبا میں جان گنوانے والے سبھی لوگوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور متاثرہ کنبوں کے تئیں اپنی تعزیت کا اظہار کیا ۔ وزیر اعظم زبانی جمع خرچ کے ماہر ہیں۔ وطن عزیز میں کورونا سے فوت ہونے والوں کے لیے معاوضے کی خاطر متاثرین کو سپریم کورٹ میں گہار لگانی پڑتی ہے۔ اس پرعدالت نے مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا تو پہلے ٹال مٹول کی روش اختیار کی گئی۔ کورٹ کی پھٹکار پڑنے کے بعد کہا گیا کہ اتنا بڑا معاوضہ دینے سےمرکزی حکومت کو بھاری نقصان ہوجائےگا ۔ اس لیے یہ معاوضہ چار لاکھ روپے نہیں بلکہ صرف پچاس ہزار ہوگا اور وہ بھی مرکزی حکومت نہیں بلکہ ریاستی سرکار کے خزانے سے ادا کیا جائے گا ۔ اسے کہتے ہیں ’ حلوائی کی دوکان پر داداجی کی فاتحہ‘ ۔ اب ملک بھر میں پوسٹر لگیں گے معاوضہ دینے کے لیے ’تھینک یو مودی جی‘ یعنی ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ آئے چوکھا۔
وزیر اعظم مودی نے اقوام متحدہ میں فرمایا کہ میں اس ملک کی نمائندگی کررہا ہوں جس کو مدر آف ڈیموکریسی ہونے کا فخر حاصل ہے حالانکہ اس سے ایک دن قبل ہندوستان کی بیٹی کملا ہیرس انہیں جمہوریت کے خطرے میں ہونے کا مژدہ سنا چکی تھیں ۔ ان کے چہیتے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما 800خاندانوں کو اجاڑ کر اس کا ثبوت پیش کرچکے تھے۔ ایسے میں یہ مثال کہ ہندوستان کا ایک چھوٹا بچہ جو کبھی ایک ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچ کر اپنے والد کی مدد کرتا تھا چوتھی مرتبہ ہندوستان کے وزیر اعظم کے طور پر یو این جی اے سے خطاب کررہا ہے بے معنی ہوگیا ۔ وزیر اعظم مودی نے ملک کے اندر ایک ہی دن میں کروڑوں ویکسین ڈوز لگانے کا اعلان کرنے کے بعد یہ جانکاری دی کہ ہندوستان نے دنیا کی پہلی ڈی این اے ویکسین ایجاد کرلی ہے ، جس کو 12 سال سے زیادہ عمر کے سبھی لوگوں کو لگایا جاسکتا ہے ۔ اس اعلان پر ان لوگوں کو ہنسی آئی ہوگی کہ جن کو ملک میں بنی کوویکسین لگوانے کے بعد بھی دنیا بھر میں قرنطینہ کی صعوبت جھیلنی پڑتی ہے کیونکہ اسے عالمی برادری نے ابھی تسلیم نہیں کیا ہے۔

وزیر اعظم نے افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے استعمال سے روکنے کی ضرورت پر زور دیا۔ دور دراز کے ممالک میں دہشت گردی کا ماتم کرنے والے وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ آسام کے اندر لاش پر کودنے والے سرکاری فوٹو گرافر کی ویڈیوکم از کم ایک بار دیکھ لیں۔ ویسے وزیر اعظم کا یہ جملہ خود اپنے ملک میں جاری زعفرانی دہشت گردی پر صادق آتا ہے کہ :’ جو ملک دہشت گردی کو سیاسی آلۂ کار کے طور پر استعمال کرتے ہیں ، شاید وہ بھول رہے ہیں کہ دہشت گردی ان کیلئے بھی اتنا ہی بڑا خطرہ ہے ‘۔ انہوں نے فرمایا :’ اس وقت افغانستان کے عوام ، خواتین ، بچوں اور اقلیتوں کو مددکی ضرورت ہے اور اس میں ہمیں اپنا فرض نبھانا ہوگا ‘۔ یہ اچھی بات ہے مگر وزیر اعظم یہ بھی بتائیں کہ وطن عزیز میں خواتین کی مدد کون کرے گا؟ دارالخلافہ دہلی ’ریپ کیپٹل ‘ بن چکا اور جہاں تک اقلیتوں کا سوال ہے وہ تو مودی سرکار سے مایوس ہوچکے ہیں۔

اقوام متحدہ میں وزیر اعظم کے خطاب کے وقت اس ہال کی بیشتر کرسیاں خالی تھیں اور جو موجود تھے ان میں سے بھی کوئی تالی بجانے کی زحمت نہیں کررہا تھا ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی برادری وزیر اعظم کی جملہ بازیوں سے اوب چکی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کے روشن چراغ تلے گہرا اندھیرا ہے۔ اس محاورے کے پسِ پشت یہ دلچسپ حکایت ہے کہ گزرے زمانے میں کوئی سوداگر اپنا مال فروخت کرنے کے لیے دور دراز کے شہروں میں جایا کرتا تھا۔ ایک سفر کے دوران بادشاہ کے محل سے قریب رات ہوگئی تو اس نے قلعہ کی دیوار کے سائے میں یہ سوچ کر ڈیرہ ڈال دیا کہ یہی سب سے محفوظ مقام ہے۔ اس کی یہ خوش فہمی اس وقت دور ہوگئی جب اسے پتہ چلا کہ رات میں ڈاکو اس کا سارا سامان لوٹ کر لے گئے۔ صبح دم اس نے محل میں پہنچ کر فریاد کی تو بادشاہ نے الٹا سوداگر کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے اس سےغفلت کی وجہ دریافت کی ۔ سوداگر نے جواب دیا مجھے محل کے زیر سایہ لٹنے کی توقع نہیں تھی۔ اس پر بادشاہ نے پوچھا کہ کیا تجھے نہیں پتہ کہ ’’چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے۔‘‘ مودی جی کا یہی حال ہے کہ وہ ساری دنیا میں روشنی پھیلاتے ہیں مگر خود ان کا اپنا ملک تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ وزیر اعظم کے اقوام متحدہ میں خطاب پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
اندھیروں کو نکالا جا رہا ہے
مگر گھر سے اجالا جا رہا ہے


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1222333 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.