فقہ حنفی اور عمل بالحدیث

علامہ اُسید الحق قادری بدایونی دامت برکاتہم العالیہ (ولی عہد خانقاہ عالیہ قادریہ ، بدایوں، انڈیا) کی کتاب تحقیق و تفہیم سے ھدیہء قارئین ہے۔

امام الائمہ ،سراج الامۃ،امام اعظم ابو حنیفہ جیسا مجتہد،محدث اور فقیہ عطا فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس امت پر عظیم احسان فرمایا،قرآن فہمی میں رسوخ،معانی حدیث کا درک،آثار صحابہ اور فتاویٰ تابعین پر گہری نظر ،ملکۂ استخراج واستنباط،خدا دادقوت حفظ، کمال زہدوتقویٰ اور اس خیر امت کے صلحا ،اولیا ،مفسرین ،محدثین ،فقہا ،اور علما کی اکثریت کااعتماد واعتبار جب یہ ساری خوبیاں کسی شخصیت میں یکجا ہوجائیں تو کہیں جا کرایک ابو حنیفہ بنتا ہے -امام عظم کے علمی اور دینی کارناموں اور خدمات پر تفصیلی گفتگو کرنے کا یہ موقع نہیں ہے،آپ کی جلیل القدر خدمات اپنی جگہ مگر آپ کا سب سے عظیم کارنامہ ’’فقہ اسلامی کی تدوین‘‘ہے -آپ نے اپنے اصحاب کی ایک ٹیم کو لے کر یہ عظیم کام شروع کیا ، طہارت سے لے کر میراث تک کتاب وسنت سے لاکھوں مسائل کا استنباط فرماکرباضابطہ فقہ اسلامی کو مدون فرمادیا -آپ کے تلامذہ نے آپ کے مستخرجہ مسائل کو اپنی کتب میں محفوظ کر دیا تا کہ آنے والی نسلیں ان سے استفادہ کر سکیں،ان تلامذہ میں امام محمد اور امام قاضی ابو یوسف کے نام سرفہرست ہیں-

جہاں اس امت کی اکثریت نے امام اعظم کے فضل وکمال کا اعتراف کیا اور ان کے ذریعہ تدوین کی گئی فقہ کو حرزجان بنایاوہیں بعض حضرات ان کے مخالف بھی ہوگئے،امام اعظم کے مخالفین کو ہم تین طبقوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
(۱) وہ حضرات جو محض بغض وحسد کی بنیاد پر آپ کی مخالفت پر آمادہ ہوگئے،اور آپ کے خلاف مکروہ پروپگنڈہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا -
(۲) وہ حضرات جو امام اعظم کے بارے میں درست معلومات نہ ہونے کی وجہ سے حاسدین کے ذریعہ پھیلائے ہوئے پروپگنڈہ کا شکار ہو گئے،اور پھر خود بھی ان خلافِ حقیقت باتوں کی ترویج واشاعت میں مصروف ہوگئے -
(۳) وہ حضرات جو غلط فہمی کی بنیاد پرامام اعظم سے بد ظن ہوگئے،مگر بعد میں جب حقیقت منکشف ہوئی تو اپنے سابقہ موقف سے رجوع کر کے امام صاحب کے فضل وکمال کے معترف اور آپ کے گرویدہ ہو گئے-(مگر کچھ لوگ اب بھی ان حضرات کے پہلے والے اقوال نقل کر کے امام اعظم کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کر نے میں رات دن کوشاں ہیں )
ان تینوں طبقوں کی نمائندگی کر نے والے حضرات کے اسماء گرامی مستند تاریخی حوالوں سے پیش کیے جا سکتے ہیں مگر ہم فی الحال ان سے قطع نظر کر رہے ہیں-ان ’’یارانِ نکتہ داں‘‘نے امام اعظم کے خلاف کیا کیا شگوفہ چھوڑے اور کس کس طرح ان کے خلاف فضا ہموار کی یہ ایک الگ داستان ہے ،اس کی اگر ایک جھلک دیکھنا ہو تو خطیب بغدادی کی ’’تاریخ بغداد‘‘کامطالعہ کافی ہے(۱)- اس پروپگنڈہ کے نتیجے میں امام اعظم کے اوپر بے شمار الزامات عائد کر دئے گئے-مثلاً:
(۱) ابو حنیفہ مُرجئی فرقے کے تھے جو ایک گمراہ فرقہ ہے-
(۲) ابو حنیفہ حدیث پاک کا بہت کم علم رکھتے تھے-
(۳) ابو حنیفہ صحیح احادیث کو ترک کر کے ان کے مقابلے میں اپنی رائے اور قیاس کو ترجیح دیا کرتے تھے-اسی لیے فقہ حنفی کی بنیادیں کتاب وسنت پر نہیں بلکہ یہ ابوحنیفہ کے قیاسوں کا مجموعہ ہے جس کے اکثر مسائل سنت صحیحہ ثابتہ کے خلاف ہیں-
(۴) فقہ حنفی کا ایک بڑا حصہ ضعیف اور منکر احادیث پر مبنی ہے -
پہلے دونوں الزامات سے قطع نظر سر دست ہم ان آخری دو الزامات کا جائزہ لیں گے -
تیسرے الزام کے سلسلہ میں ایک بنیادی بات یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ کوئی بھی وہ شخص جس کے رتبۂ اجتہاد مطلق پر فائزہونے کے سلسلہ میںاس امت کے اصحاب علم وفضل کا اتفاق ہو اس کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ جان بوجھ کر محض اپنی ہواء نفس کی وجہ سے حدیث کو ترک کریگا ،اوررسول اکرم ﷺ کا فرمان مبارک پس پشت ڈال کر اپنے قیاس اور رائے کی بنیادپر فتویٰ دیگا -ہمارے اکابر اہل سنت نے اس سلسلہ میں بے شمار دلائل پیش کیے ہیں بلکہ خود جماعت اہل حدیث کے امام وپیشوا شیخ ابن تیمیہ نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا ہے ’’رفع الملام عن ائمۃ الاعلام‘‘اس میں انہوں نے ائمہ متبوعین اور مجتہدین امت کی جانب سے اس الزام کا دفاع کیا ہے -(تفصیل کے لیے راقم سطور کا مضمون’’ائمہ مجتہدین پر ترک حدیث کا الزام‘‘مطبوعہ جام نور ،اپریل ۲۰۰۶ئ)
جہاں تک صحیح احادیث کے ترک کرنے کا الزام ہے تو اس سلسلہ میں پہلے چند بنیادی مقدمات ذہن نشین کر لینا ضروری ہے -
(۱) جس طرح بعد کے محدثین نے حدیث کی صحت وضعف اور ردوقبول کے لیے کچھ شرائط وضع کیے ہیں جب کوئی حدیث ان کی وضع کردہ شرائط پر پوری اترتی ہے اسی وقت وہ اس پر عمل کرتے ہیں،اور اگر وہ حدیث ان کی وضع کردہ شرائط کے مطابق نہ ہو تو وہ اس کو قبول نہیں کرتے خواہ وہ کسی اور محدث کے نزدیک صحیح ہی کیوں نہ ہو ،اسی طرح ائمہ متقدمین اور اصحاب اجتہاد نے بھی احادیث کے ردوقبول کے کچھ اصول بنائے ہیں ،جب کوئی حدیث ان کے ان اصولوں پر پوری اترتی ہے اسی وقت وہ اس پر عمل کرتے ہیں،اور اگر ان کے وضع کردہ اصولوں پر پوری نہ اترے تو وہ اس پر عمل نہیں کرتے ،یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ جب مطلوبہ شرائط نہ پائے جانے کی وجہ سے بعد کے محدثین ’’ترک حدیث‘‘کرتے ہیںتو ان کے بارے میں’’ حسن ظن‘‘ سے کام لیا جاتا ہے،مگر جب امام ابو حنیفہ شرائط کے فقدان کی وجہ سے کوئی حدیث ترک کریں تو آخر ان کو اس حسن ظن کی ’’رعایت‘‘سے کیوں محروم رکھاجاتا ہے ؟
(۲) دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ متقدمین کا کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف قرار دینا متاخرین کے لیے تو حجت ہوسکتا ہے مگر متاخر ین کی تصحیح وتضعیف متقدمین پر حجت نہیںہو سکتی ہے،اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ائمہ متقدمین کی اسنادعالی ہوا کرتی تھی اور وہی حدیث بعد کے محدثین کے پاس نازل سند کے ساتھ پہنچا کرتی تھی ،مثلاً اگر کسی متقدم امام ومجتہد کے پاس کوئی حدیث دو یا تین واسطوں سے پہنچی تھی اب وہی حدیث آگے جاکرسو سال بعد سات آٹھ واسطوں سے کسی اورمحدث کے پاس پہنچی ،جس کے پاس حدیث میں صرف دو یا تین واسطے تھے اس کے نزدیک وہ حدیث صحیح اور قابل اخذ تھی ،مگر پانچویں یا چھٹے واسطے کا راوی ضعیف تھا اب ظاہر ہے کہ جس کے پاس وہ حدیث آٹھ واسطوں سے پہونچی ہے اس کے نزدیک وہ حدیث ضعیف اور ناقابل عمل ہوگی ،اب آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں مجتہد نے اس ضعیف حدیث پر عمل کیا ہے ،اس لیے کہ یہ حدیث ضعیف تو اس مجتہد کے سو سال بعد ہوئی ہے-
(۳) یہ بات بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ کسی مجتہد کا کسی حدیث پر عمل کرنا اس مجتہد کے نزدیک اس حدیث کے صحیح ہونے کی دلیل ہے ،ظاہر ہے کہ اگر ان کے نزدیک وہ حدیث صحیح اور قابل حجت نہ ہوتی تو وہ اس پر ہرگز عمل نہ کرتے -
ان بنیادی مقدمات کو ذہن نشین کرنے کے بعد اب آپ دیکھیں کہ جس طرح بعد کے محدثین نے احادیث کے ردوقبول کے لیے اپنے اصول بنائے ہیں،اسی طرح امام اعظم بھی اپنے بعض اصول وقواعد کی بنیاد پر حدیث کے ردو قبول کا فیصلہکیا کرتے تھے ،حدیث اور فقہ دونوں پر گہری نگاہ رکھنے والے جلیل القدر علما نے امام اعظم کے استخراج کردہ جزئیات فقہیہ اور احادیث احکام کے گہرے تقابلی مطالعہ کے نتیجہ میں ان اصول وقواعدکو اخذ فرمایا ہے-علامہ محمد بن یوسف الصالحی(صاحب سیرت شامیہ )نے اپنی کتاب ’’عقود الجمان فی مناقب ابی حنیفۃ النعمان‘‘میں ان میں سے بعض اصول وقواعد کا ذکر فرمایا ہے ،علامہ زاہد الکوثری نے بھی اپنی معرکہ آرا تصنیف ’’تأنیب الخطیب فیما ساقہ فی ترجمۃ ابی حنیفۃ من الاکاذیب ‘‘میں ان قواعد کو نقل کیا ہے ،اسی سے استفادہ کرتے ہوئے ہم یہاںتلخیص واختصار کے ساتھ ان اصول وقواعد میں سے بعض کا تذکرہ کریں گے -
(۱) اخبار احاد کو کتاب اللہ کے عمومات پر پیش کیا جائے گا ،اگر وہ خبر واحد کتاب اللہ کے عموم یا ظاہر کے مخالف ہے تو اس کو ترک کر کے کتاب اللہ کے عموم وظاہر پر عمل کیا جائے -کیوں کہ یہ قاعدہ ہے کہ جب دو دلیلیں ہوں تو ان میں سے قوی دلیل کو لیا جاتا ہے ،کتاب اللہ قطعی الثبوت ہے اور اس کا عموم وظاہرقطعی الدلالہ ہے -تو ظاہر ہے کہ یہ خبر واحد کے مقابلہ میں زیادہ قوی دلیل ہے -
(۲) ان اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ خبر واحد کسی سنت مشہورہ کے معارض نہ ہو، یہ سنت مشہورہ خواہ قولی ہو یا فعلی ،یہاں بھی مخالفت وتعارض کے وقت اقویٰ دلیل کو اختیار کیا جائے گا ،اور ظاہر ہے کہ خبر واحد کے مقابلہ میں سنت مشہورہ ثبوت کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے -
(۳) خبر واحد اپنی ہی طرح کی کسی دوسری خبر واحد کے معارض نہ ہو ،اگر دو اخبار احاد میں تعارض ہو تو ان میں سے کسی ایک کوراجح قرار دے کر اخذ کیا جائے گا اوردوسری کو مرجوح قرار دے کر ترک کیا جائے گا ،دو متعارض حدیثوں کے درمیان ترجیح دینے کے سلسلہ میں ائمہ مجتہدین کے الگ الگ نظریات اور الگ الگ وجوہ ترجیح ہیں،مثلاً دونوں روایتوں میں سے جس روایت کا راوی فقیہ ہو اس کی روایت کو ترجیح دی جائے گی،اور اگر دونوں راوی فقیہ ہوںتوان میں سے افقہ(زیادہ تفقہ والے)کی روایت کو ترجیح ہوگی ،یہ احناف کی وجوہ ترجیح ہیں ،جبکہ بعض مجتہدین ومحدثین کے نزدیک اس خبر کو ترجیح ہوگی جس کی سند دوسری کے مقابلہ میں زیادہ عالی ہوگی -
(۴) امام اعظم کا خبر واحد کے سلسلہ میں ایک اصول یہ ہے کہ اس خبر واحد کا راوی خود اپنی ہی روایت کے خلاف فتویٰ نہ دے،اگر ایسا ہوگا تو اس کی روایت کو ترک کرکے اس کے فتویٰ کو لیا جائے گا،جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ سے مروی حدیث کہ’’ اگر کتا برتن میںمنھ ڈال دے تو اس کو سات بار دھویا جائے گا‘‘ ،مگر خود حضرت ابو ہریرہ کا فتویٰ اس کے بر خلاف تھا ،لہٰذا ان کے فتویٰ کو ترجیح دی جائے گی-
(۵) حدود وعقوبات کے سلسلہ میں اگر اخبار احاد آپس میں متعارض ہوںتو ان میں سے ’’اخف‘‘کو اختیار کیا جائے گا-
(۶) اس خبر کواخذ کیا جائے گاجس کی جانب آثار زیادہ ہونگے -
(۷) خبر واحد پر عمل کی ایک شرط یہ ہے کہ وہ صحابہ اور تابعین کے عمل متوارث کے خلاف نہ ہو -
(۸) خبر واحد کے سلسلہ میں ایک اصول یہ ہے کہ سلف میں سے اس پر کسی کا طعن منقول نہ ہو-
ان اصولوں کو نقل کرنے کے بعد امام صالحی تحریر فرماتے ہیں:
فبمقتضی ہذہ القواعد ،ترک الامام ابو حنیفۃ رحمہ اللہ العمل بأحادیث کثیرۃ من الآحاد(۲)
ترجمہ: انہیں قواعد کی بنیاد پر امام ابو حنیفہ نے بہت سی اخبار احاد پر عمل نہیں کیا ہے-
آگے چل کر فرماتے ہیں:
والحق انہ لم یخالف الأحادیث عناداً،بل خالفہا اجتہاداً لحجج واضحۃ ودلائل صالحۃ،ولہ بتقدیر الخطأ اجر وبتقدیر الاصابۃ اجران ،والطاعنون علیہ اما حساد،او جہال بمواقع الاجتہاد-(۳)
ترجمہ: اور حق یہ ہے کہ انہوں نے از روئے عناد احادیث کی مخالفت یا ان کا ترک نہیں کیا ہے بلکہ ان کا ترک حدیث اجتہاد کی بنیاد پر تھا جس کے لیے ان کے پاس واضح دلائل وبراہین موجود ہیں،اگر ان سے سہو ہوا ہے تو ان کے لیے ایک اجر ہے اور اگر و ہ صواب کو پہونچے ہیں تو ان کے لیے دو اجر ہیں،ان پر طعن کر نے والے یا تو حاسد ہیں یا پھر مراتب اجتہادسے نا آشنا ہیں -
جہاں تک اس الزام(نمبر۴)کا سوال ہے کہ فقہ حنفی کی بنیاد ضعیف اور منکر احادیث پر ہے تو اس کے لیے آپ ہمارے بیان کردہ تین بنیادی مقدمات میں سے نمبر ۲ ؍اور نمبر ۳؍ کو بغور ملاحظہ فرمائیں -مزید یہ کہ امام عبدالوہاب شعرانی نے اپنی کتاب ’’میزان شریعۃ الکبری‘‘ میں ایک مستقل فصل اس الزام کے جواب کے لیے وضع فرمائی ہے ،اس فصل کا عنوان ہے ’’فصل فی تضعیف قول من قال:ان ادلۃ مذہب الامام ابی حنیفۃ ضعیفۃ غالباً‘‘ (فصل اس شخص کے قول کی تضعیف میں جو یہ کہتا ہے کہ مذہب امام ابو حنیفہ کی مستدل احادیث اکثر ضعیف ہیں) اس فصل میں آپ ارشاد فرماتے ہیں:
فان قیل :اذا قلتم بان ادلۃ مذہب الامام ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ عنہ لیس فیہا شیٔ ضعیف لسلامۃ الرواۃ بینہ وبین رسول اللّٰہ ﷺ من الصحابۃ والتابعین من الجرح فما جوابکم عن قول بعض الحفاظ عن شیٔ من اد لۃ الامام ابی حنیفۃبانہ ضعیف؟(۴)
ترجمہ: اگر کہا جائے کہ آپ نے کہا امام ابو حنیفہ کے مذہب کے دلائل میں کوئی ضعیف حدیث نہیں ہے ،اس لیے کہ ان کے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان کے راوی صحابہ وتابعین ہیں ،اور صحابہ وتابعین جرح سے محفوظ ہیں،مگر بعض حفاظ حدیث نے امام ابو حنیفہ کی مستدل بعض احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے اس کا کیا جواب دیا جائے گا ؟
اس سوال کے جواب میں امام شعرانی فرماتے ہیں:
فالجواب یجب علینا حمل ذلک جزماً علی الرواۃ النالین عن الامام فی السند بعد موتہ رضی اللہ تعالی عنہ اذا روا ذلک الحدیث من طریق غیر طریق الامام اذ کل حدیث وجدناہ فی مسانید الامام الثلاثۃ،فہو صحیح لانہ لو لا صح عندہ م استدل بہ ولا یقدح فی وجود کذاب او متہم بالکذب مثلاً فی سندہ النازل عن الامام وکفانا صحۃ لحدیث استدلال مجتہد بہ ثم یجب علینا اعمل بہ ولو لم یروہ غیر فتأمل ہذہ الدقیقۃ التی نبہتک علیہا فلعلک لک تجدہا فی کلام احد من المحدثین،وایاک ان تبادر الی تضعیف شیٔ من ادلۃ مذہب الامام ابی حنیفۃ الا بعد ان تطالع مسانیدہ الثلاثۃ ولم تجد ذلک الحدیث فیہا -(۵)
ترجمہ: ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو اس بات پر محمول کریں کہ یقینی طور پریہ ضعف امام ابو حنیفہ کی وفات کے بعد ان کے نیچے کے راویوں میں پیدا ہوا ہے ،اور انہوں نے یہ حدیث امام اعظم کے علاوہ کسی اور سند سے روایت کی ہے ،اس لیے کہ امام اعظم کی تینوں مسانید میں ہم نے جتنی حدیثیں دیکھیں وہ سب صحیح ہیں،اور پھر یہ بات بھی ہے کہ اگر وہ احادیث امام اعظم کے نزدیک صحیح نہ ہوتیں تو آپ ہر گز ان سے استدلال نہ کرتے ،اور اگر ایسی کسی حدیث کی سند میں امام اعظم کے بعد کوئی راوی کذاب یا متہم بالکذب ہو تب بھی کوئی حرج نہیں کیوں کہ اس حدیث کی صحت کے لیے اتنا ہی کا فی ہے کہ ایک مجتہد نے اس سے استدلال کیا ہے ،لہٰذا ہمارے اوپر اس حدیث کے مطابق عمل کرنا واجب ہے ،خواہ اس حدیث کو کسی اور نے روایت کیا ہو یا نہ کیا ہو-اس نکتہ پر اچھی طرح غور وفکر کرو،شاید یہ نکتہ جس کی طرف ہم نے توجہ دلائی ہے تمہیں کسی اور محدث کے کلام میںنہ ملے ،اور امام ابو حنیفہ کی مستدل احادیث کوہر گز ضعیف قرار دینے میں سبقت نہ کروجب تک کہ تم ان کی مسانید ثلاثہ کا مطالعہ نہ کر لو اور تمہیں اس میں وہ حدیث نہ ملے ‘‘-
امام زاہد الکوثری فرماتے ہیں:
واما تضعیف بعض احادیثہ من جھۃ بعض شیوخہ ،او شیوخ شیوخہ بناء علیٰ قول بعض المتأخرین فیہم ،فلیس بمستساغ،لظہور انہ ادریٰ بأحوال شیوخہ وشیوخ شیوخہ،ولیں بینہ وبین الصحابی الا راویان اثنان فی الغالب-(۶)
ترجمہ: رہا یہ کہ بعض متاخرین کے اقوال جو امام ابو حنیفہ کے شیوخ یا شیوخ کے شیوخ کے بارے میںہیں ان کی بنیاد پر امام ابو حنیفہ کی احادیث کو ضعیف قرار دیا جائے ،تو یہ درست نہیں ہے ،کیوں کہ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ امام ابو حنیفہ اپنے شیوخ اور ان کے شیوخ کے شیوخ کے بارے میں (متاخرین کے مقابلے میں )زیادہ بہتر جانتے تھے ،امام ابو حنیفہ اور صحابی کے درمیان عام طور پر دو راوی ہیں‘‘-
فقہ حنفی کے ضعیف روایت پر مبنی ہونے کے الزام کا ہم جائزہ لے رہے ہیں تو اس اہم بات کو بھی پیش نظر رکھیں کہ محدثین اور اصولیین کے درمیان حدیث مرسل کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے سلسلہ میں ایک اصولی اختلاف ہے -ہم یہاںاس ختلاف پر ایک سرسری نظر ڈالیں گے-محدثین کے نزدیک مرسل وہ روایت ہے جس کی سند کے آخر سے تابعی کے بعد راوی مذکور نہ ہو،بالفاظ دگر مرسل وہ روایت ہے جس کو کوئی تابعی بغیر صحابی کا ذکر کیے براہ راست حضور اکرم ﷺ سے روایت کرے -مگر اصولیین اور فقہا کے نزدیک مرسل اس روایت کو کہتے ہیںجس کی سند متصل نہ ہو ،یعنی کوئی ایک راوی یا چند راوی سند سے ساقط ہوں-جمہور محدثین کے نزدیک مرسل کا حکم یہ ہے کہ یہ ضعیف ومردود ہے،اور قابل احتجاج نہیں-جب کہ امام شافعی اور بعض دیگر علما کے نزدیک مرسل چند شرائط اور قیود کے ساتھ معتبر ہے-ائمہ احناف کے نزدیک تابعی اور تبع تابعی کی مرسلات مطلقاً مقبول ہیں،ان کے بعد اگر ارسال کرنے والا ثقہ ہو تو معتبر ہے ورنہ پھر تحقیق کی جائیگی-اب اگر امام اعظمکے استنباط کردہ کسی مسئلہ کی بنیاد مرسل حدیث پرہو تو بعد کا کوئی شخص یہ کہنے کا حق نہیں رکھتا کہ فقہ حنفی کے فلاں مسئلہ کی بنیادمرسل حدیث پر ہے ،اور مرسل حدیث ضعیف ونامقبول ہوتی -کیونکہ اگر بعد کے محدثین کے نزدیک مرسل سے احتجاج جائز نہ ہو نہ سہی مگر امام اعظم کے نزدیک وہ قابل احتجاج ہے - امام اعظم کے پاس جو احادیث پہونچیں ان میں ایک بڑا حصہ ان احادیث کا تھا جوانہوں نے براہ راست تابعین کی مقدس جماعت سے سنی تھیں،اور بے شمار احادیث آپ نے تبع تابعین سے سماعت کیں،آپ نے ان تابعین یا تبع تابعین کے ارسال کو قبول فرمایا ،کیونکہ ثقہ تابعی جب تک کوئی بات اپنے ہی جیسے ثقہ شخص سے نہ سن لے اور اس پر اعتماد نہ کرے اس وقت تک کوئی بات اللہ کے رسول ﷺکی طرف منسوب کر کے نہیں کہے گا -اسی اعتماد کی بنیاد پر قرون فاضلہ میں مراسیل کو عام طور سے قبول کرنے کا مزاج تھا ،اور ا ن کو قابلِ احتجاج سمجھا جاتا تھا -ابن جریر کے حوالے سے امام سیوطی فرماتے ہیں:’’قال ابن جریر اجمع التابعون بأسرہم علی قبول المرسل ولم یأت عنہم انکارہ ولا عن احد من الأئمۃ بعد ہم الیٰ رأس المأتین‘‘(۷)(ترجمہ)’’ابن جریر نے کہا کہ تمام تابعین مرسل کو قبول کرنے پر متفق ہیں،نہ تابعین میںسے اور نہ ہی ان کے بعد ائمہ میں سے کسی نے تیسری صدی کے آغاز تک مرسل کی قبولیت کا انکار کیا ‘‘-
علامہ زاہد کوثری فرماتے ہیں:
والاحتجاج بالمرسل کان سنۃ متوارثۃ،جرت علیہ الامۃ فی القرون الفاضلۃ،حتیٰ قال ابن جریر رد المرسل مطلقاً بدعۃ حدیث فی رأس المأتین‘‘-(۸)
ترجمہ: ’’مرسل حدیث سے احتجاج کرنا سنت متوارثہ تھی ،قرون فاضلہ میں امت کا یہی طریقہ تھا ،بلکہ ابن جریر نے تو یہاں تک کہا ہے کہ مرسل کو مطلقاً رد کردینا یہ بدعت ہے ،جو تیسری صدی کی ابتدا میں پیدا ہوئی ہے-
جس طرح مرسل حدیث کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے سلسلہ میں محدثین اور فقہا کے اصول وقواعد مختلف ہیں اسی طرح مجہول راوی کی روایت قبول کرنے یا نہ کرنے میںبھی علما کے اپنے اپنے اصول ہیں ،کسی کے اصول کے مطابق مجہول کی روایت مقبول نہیں،جب کہ کسی کے اصول کے مطابق کچھ شرائط کے ساتھ ایسے راوی کی روایت مقبول اور قابل احتجاج ہے -اب اگر کوئی مجتہد یا فقیہ اپنے اصول کے مطابق کسی مجہول کی روایت قبول کرتا ہے تو اب یہ کہنا بڑی ناانصافی اور خلاف دیانت ہے کہ فلاں مجتہد نے اس مسئلہ میں مجہول کی روایت سے احتجاج کیا ہے جب کہ مجہول کی روایت فلاں فلاں محدثین کے نزدیک غیر مقبول اور ضعیف ہے -یہ بات اس لیے درست نہیں کہ ایک مجتہد کے اصول وقواعد دوسرے پر حجت نہیں ہیں-یہاں ہم مجہول راوی کے سلسلہ میںبھی ایک سرسری اشارہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ بات اور واضح ہوسکے -
کسی راوی کے اوپر طعن یا جرح دو طرح ہوتی ہے،کبھی راوی کی عدالت پر جرح کی وجہ سے اس کو ضعیف قرار دیا جاتا ہے ،اور کبھی اس کے ضبط پر جرح کے سبب اس کی روایت غیر مقبول ہوتی ہے -راوی کی عدالت پر طعن کی کئی وجوہ ہیں،مثلاًکذب ،اتہام کذب ،فسق،بدعت وغیرہ ،عدالت میں طعن کی ایک وجہ ’’جہالت راوی ‘‘بھی ہے- جہالت راوی کی بھی چند قسمیں ہیںمثلاًکبھی راوی مجہول العین ہوتا ہے اور کبھی مجہول الحال ہوتا ہے ،مجہول العین کا مطلب یہ ہے کہ اس سے صرف ایک ہی راوی نے روایت کی ہو، مجہول الحال کا مطلب یہ ہے کہ اس کی عدالت ظاہری اور باطنی دونوں معلوم نہ ہوں،ایسے راوی کی روایت کو’’ مبہم ‘‘کہا جاتا ہے ،مجہول کی ایک قسم مستور ہے اس سے وہ راوی مراد ہوتا ہے جس کی عدالت ظاہری تو معلوم ہو مگر عدالت باطنی کی تحقیق نہ ہو-مجہول الحال کی روایت جمہور محدثین کے نزدیک مقبول نہیں ہے ،اور آخرالذکر دونوں قسم کے مجہولوں کی روایت محققین کے نزدیک صالح اور قابل احتجاج ہے -امام اعظم کے نزدیک مجہول الحال کی روایت مقبول ہے -
امام ابن صلاح نے مقدمہ میں فرمایا ہے :
احدہما فی العدالۃ من حیث الظاہر والباطن جمیعاً وروایتہ غیر مقبولۃ عند الجماہیر‘‘(۹)
ترجمہ: ان میں سے ایک مجہول العدالت ہے ظاہری اور باطنی دونوں طرح،ایسے راوی کی روایت جمہور کے نزدیک غیر مقبول ہے -
اس قول کی شرح میں علامہ بدرالدین ابو عبداللہ محمد لکھتے ہیں:
وانما قبل ابو حنیفۃ ذلک فی عصرالتابعین لغلبۃ العدالۃ علیہم (۱۰)
ترجمہ: ابو حنیفہ نے تابعین کے دور میںایسے راوی کی روایت کو قبول کیا ہے، کیونکہ اس دور میں عدالت کا غلبہ تھا ‘‘-
اسی طرح مجہول العین راوی کو بھی امام اعظم نے قبول کیا ہے بشرطیکہ سلف میں سے کسی نے اس کی روایت کو مردود قرار نہ دیا ہو- مجہول کی روایت قبول کرنے کا یہ اصول دراصل اس نظریہ پر مبنی ہے کہ جب کسی کے عادل یا غیر عادل ہونے کے بارے میں کوئی علم نہ ہوتو چونکہ مسلمان کے حق میں اصل عادل ہونا ہے،لہٰذا اس کی اصل کو دیکھتے ہوئے ایسے مجہول شخص کے عادل ہونے کو ترجیح دی جائے گی،اور اس کی روایت کو قبول کیا جائے گا -اس اصول کی بنیاد پر امام اعظم اور بعد کے فقہاے احناف نے مجہول کی روایت قبول کی ہے ،اب اگر کسی مجہول کی روایت پر امام اعظم نے کسی مسئلہ کی بنیاد رکھی ہو تویہ نہیں کہا جاسکتا کہ امام ابو حنیفہ نے ضعیف حدیث پر اس مسئلہ کی بنیاد رکھی ہے ،کیونکہ یہ حدیث ضعیف تو ان مجتہدین یا محدثین کے نزدیک ہے جو جہالت راوی کی بنیاد پر حدیث پر ضعف کا حکم لگاتے ہیں،لیکن چونکہ امام اعظم اپنے مذکورہ اصول کی وجہ سے ایسے راوی کی حدیث قبول کرتے ہیں لہٰذا ان کے نزدیک یہ حدیث ضعیف نہیں ہے -
مذکورہ بالا بحث سے آپ نے اندازہ کیا ہوگا کہ یہ محض پروپگنڈہ ہے کہ فقہ حنفی عمل بالحدیث سے بہت دور ہے یا فقہ حنفی کی بنیادیں ضعیف اور منکر روایتوں پر قائم ہیں اور آج بھی یہ پروپگنڈہ کیا جارہا ہے ،اس کے اور بھی اسباب ہو سکتے ہیں مگر شاید اس کا ایک بڑا سبب سطحی مطالعہ اور علم کی کمی ہے ،امام ابو حنیفہ نے فلاں مسئلہ میں خطا کی ہے ،فلاں فلاںمسائل میں حدیث کو ترک کیا ہے ،فلاں فلاں مسائل میں احناف کی پیش کردہ حدیث ضعیف ہے،یہ باتیں آپ کو وہ لوگ کرتے ہوئے نظر آئیں گے جو حدیث اور علوم حدیث میں مہارت تو دور کی بات شاید علم حدیث کی ابتدائی اصطلاحات سے بھی کما حقہ واقف نہیں ہیں،ان کا مبلغ علم چودہویں صدی کے بعض متعصب علما کی غیر علمی اور غیر سنجیدہ اردو کتابیںیا شیخ ناصرالدین البانی اور شیخ ابن باز کی کتابوں کے اردو ترجمے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں کہ ائمہ مجتہدین کی تقلید کو حرام وشرک سمجھتے ہیںمگرامام اعظم پر ترک حدیث کا الزام لگانے میں ان مذکورہ علما کی اندھی تقلید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں-
بات ختم کرنے سے پہلے اس روایت کا تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا جس کو خطیب بغدادی نے ابن کرامۃ سے روایت کیا ہے :
ابن کرامۃ قال کنا عند وکیع یوماً،فقال رجل:اخطأ ابو حنیفۃ،فقال وکیع:کیف یقدر ابو حنیفۃ یخطیٔ؟ومعہ مثل ابی یوسف ،وزفرفی قیاسہما ومثل یحییٰ بن ابی زائدۃ،وحفص بن غیاث،وحبان،ومندل فی حفظہم الحدیث،والقاسم بن معین فی معرفۃ باللغۃ العربیۃ،وداؤد الطائی،وفضیل بن عیاض فی زہدہما وورعہما،ومن کان ھؤلاء جلساء ہ،لم یکد یخطیٔ،لانہ ان اخطأ ردوہ(۱۱)
ترجمہ: ابن کرامہ کہتے ہیں کے ایک مرتبہ ہم حضرت وکیع کی بارگاہ میں حاضر تھے کہ ایک شخص نے کہا ’’ابو حنیفہ نے غلطی کی ہے ‘‘اس پر حضرت وکیع نے فرمایا ’’ابو حنیفہ غلطی کیسے کر سکتے ہیں؟حالانکہ ان کے ساتھ ابو یوسف اور زفر جیسے ماہرین قیاس ہیں،اور یحییٰ بن ابی زائدہ ،حفص بن غیاث،حبان،اور مندل جیسے حفاظ حدیث ہیں،ان کے پاس قاسم بن معین جیسے لغت عرب کے جاننے والے ہیں، داؤد طائی اور فضیل بن عیاض جیسے اصحاب زہدوتقویٰ ہیں،جس شخص کی مجلس میں بیٹھنے والے یہ حضرات ہوں وہ کیسے غلطی کرسکتا ہے ،اس لیے کہ اگر وہ غلطی کریگا بھی تو یہ حضرات انھیں صحت کی طرف لوٹا دیں گے- مضمون کاا ختتام ہم مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے اس ایمان افروز ارشاد پر کرنا چاہتے ہیںجو آپ نے اپنی کتاب ’’فیوض الحرمین‘‘ میں فرمایا ہے-
شاہ صاحب ارشاد فرماتے ہیں:
عرفنی رسول اللہ ﷺان فی المذہب الحنفی طریقۃ انیقۃ ہی ادق الطرق بالسنۃ المعروفۃ التی جمعت ونقحت فی زمان البخاری واصحابی وذلک ان یوخذ من اقوال الثلاثۃ قول اقربہم بہافی المسئلۃ ثم بعدذلک یتبع اختیارات الفقہاء الحنفیین الذین کانوا من علماء الحدیث فرب شئی سکت عنہ الثلثۃ فی الاصول وما یعرضوا نفیہ ودلت الاحادیث علیہ فلیس بد من اثباتہ والکل مذہب حنفی-(۱۲)
ترجمہ: اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے بتایا کہ مذہب حنفی میں ایک ایسا بہترین طریق ہے جوسنت معروفہ ومشہورہ کے طریقوں میں سب سے زیادہ دقیق ہے ،وہ سنت معروفہ جس کی جمع وتدوین اور تنقیح امام بخاری اور ان کے اصحاب کے زمانے میں ہوئی ہے ،اور وہ طریق یہ ہے کہ تینوں اماموں (یعنی امام ابوحنیفہ،امام ابو یوسف اور امام محمد)میں سے مسئلہ میں جس کا قول سنت سے زیادہ قریب ہو اختیار کر لیا جائے،اس کے بعد حنفی فقہامیں سے جو اصحاب حدیث ہیں ان کے اختیار کردہ موقف کی اتباع کی جائے،کچھ ایسے مسائل ہیں جن کے بارے میں مذکورہ تینوں اماموں نے اصول میں کچھ نہیں فرمایا ،اور نہ ہی ان کی نفی کی ہے ،لیکن احادیث ان پر دلالت کر رہی ہیں،تو ان کو تسلیم کرنا ضروری ہے ،اور یہ سب مذہب حنفی ہی ہے -
(جامِ نور اپریل ۲۰۰۷ئ)
qqq

حواشی
(۱) دیکھیے:تاریخ بغداد :ج۱۳،ازصفحہ۳۲۳تاص۴۵۳،دارالکتب العلمیہ،بیروت
(۲) عقود الجمان:بحوالہ تانیب الخطیب الکوثری:ص:۲۴۲،المکتبہ الازہریہ للتراث،القاہرہ۱۹۹۸ء
(۳) مرجع سابق
(۴) میزان شریعۃالکبریٰ،ج:۱؍ص:۸۴،دار الکتب العلمیہ ،بیروت
(۵) مرجع سابق ص:۸۴،۸۵
(۶) تانیب الخطیب:الکوثری:ص۲۴۲،المکتبۃ الازہریۃ للتراث،قاہرہ
(۷) تدریب الراوی:امام سیوطی، ج۱؍ص۱۹۸،مکتبۃ الریاض الحدیثہ،الریاض
(۸) تانیب الخطیب،ص:۲۳۹،المکتبہ ازہریہ للتراث،القاہرہ۱۹۹۸ء
(۹) مقدمہ ابن صلاح:ص۱۱۰،دارالفکر المعاصر،بیروت،۱۳۹۷ھ
(۱۰) النکت علی مقدمۃ ابن صلاح:ج۳؍ص۳۷۴،مکتبہ اضواء السلف،الریاض،۱۹۹۸ء
(۱۱) تاریخ بغداد:خطیب بغدادی:ج۱۴؍ص۲۴۷،دارالکتب العلمیہ،بیروت
(۱۲) فیوض الحرمین:شاہ ولی اللہ محدث دہلوی،ص۴۸،مطبع احمدی دہلوی ،۱۳۰۸ھ
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 406995 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.