ماہ رمضان اور قرآن کریم کی تلا وت : ایک جا ئزہ

قارئین کر ام !رمضان المبا رک اور قرآن کریم کا تعلق آپس میں بہت گہرا اور مضبو ط ہے جس کی صراحت خود ﷲ رب العزت نے قرآن کریم کے اندر بیان فر ما دی ہے ارشاد با ری ہے ’’ما ہ رمضان ہی وہ مہینہ جس میں قرآن کا نزول ہوا ‘‘)سورہ بقر ہ آیت (185اس گہر ے تعلق کی بنا پر نبیﷺرمضان کے مبا رک مہینے میں رو زہ رکھتے اور قرآن کر یم کی تلا وت کا خاص اہتمام فر ما تے اور دوسروں کو بھی تر غیب دیتے تھے ما ہ رمضان اور قرا ٓن کر یم کے ما بین جو با ہمی ربط و تعلق ہے اس کے کئی و جو ہا ت ہیں (۱)قرآن کریم کے نزو ل کی ابتدا ء اسی مہینے میں ہو ئی جیسا کہ تمام مفسرین کا اس با ت پر اتفا ق ہے کہ سورہ العلق کی ابتدا ئی پا نچ آیتیں اسی مہینے میں نا زل کی گئیں (۲)ما ہ رمضان میں نبیﷺ کے پا س ہر سا ل جبرئیل امین تشریف لا تے اور آپ ﷺ کے سا تھ قرآن کر یم کا دور فر ما تے جیسا کہ امام بخا ری ؒ نے حضرت ابن عباس کی حدیث حوا لہ دیا ہے فرما تے ہیں کہ ’’نبی ﷺ لو گو ں کے سا تھ بھلا ئی کر نے میں بہت سخی تھے مگر اس ما ہ میں اور زیا دہ سخی ہو جا تے تھے رمضان المبا رک میں جبرئیل ؑہر رات تشریف لا تے اور آپﷺ ان کو قرآن کریم سنا تے تواسی منا سبت سے آپ ؐ کی جو د وسخا تیزہواؤں سے بھی زیا دہ عا م ہو جا تی مذکور حدیث کی روشنی میں مفتیا ن کر ام نے اس ما ہ میں ختم قرآن کو مستحب قرار دیا ہے اور سلف صا لحین اکثر اوقا ت تلا وت ذکر و اذکا ر اور قرآن کریم کے اندر غور و فکر میں لگا یا کر تے تھے امام زہریؒ سے کسی نے رمضان کی اہمیت و افا دیت کے بارے میں دریا فت کیا آپ نے فر مایا ’’رمضا ن کا مہینہ قرآن کر یم کی تلا وت اور دوسروں کو کھانا کھلا نے کا ہے ‘‘(۳)اسی مبا رک مہنے میں ایک ایسی را ت ہے جسے شب قدر کہا جا تا ہے قرآن کریم لوح محفوظ سے آسمانی دنیا کے بیت عزت پر اتا را گیا پھر حسب ضرور ت تھوڑا تھوڑا کر کے 23برس کی مدت میں آپؐ پر نا زل ہو تا رہا امام ابن کثیر ؒ اپنی لا زوال تفسیر میں رقمطراز ہیں کہ ’’یکم رمضان کو صحیفہ ابراہیمؑ،سا ت رمضان کو تو ریت ،تیرہ رمضان کو زبور،انیس رمضان کو انجیل ،اور پچیس رمضا ن کو قر آن شر یف کا نزول ہوا (۴)قرآن کریم کا نزول اسی مہینے میں ہو ا اور ۲؁ھمیں روزہ کی فر ضیت بھی ہو ئی نیز امت محمدیہ ایک طرف تیس روزے عطا کئے گئے تو دوسری طرف 30پا رے بھی عنایت کئے گئے تاکہ مسلمان قرآن جیسی لا زوال نعمت کا شکریہ روزے کی صورت میں اداکریں اس لئے اس ماہ کو روزہ کی شکل میں مخصوص کیا گیا ۔

رمضان المبا رک اور قرآن کریم کا تعلق اس طرح گہرا ہے کہ آپ ؐ نے دونو ں کا ذکر ایک سا تھ فر ما یا ہے حضرت عبد ﷲ بن عمر بیا ن فر ما تے ہیں کہ ’’بروز قیا مت اور قرآن مجید ہر ایک بندے کے حق میں سفا رش کر ے گا روزہ کہے گا اے پروردگا ر! میں نے تیرے بند ے کو دن میں کھانے پینے اور شہوت کی چیزوں سے روکے رکھا تھا لہذا میری سفا رش اس کے حق میں قبو ل فر ما اور قرآن کہے گا کہ میں نے اسے رات میں چین کی نیند سے روک رکھا تھا لہذا میری سفا رش اس کے حق میں قبو ل فر ماچنا نچہ بندہ کے حق دونو ں کی سفا رش قبو ل کی جا ئے گی ۔سا تھ سا تھ یہ با ت بھی ذہن نشیں رہنے چا ہئے کہ عا م دنو ں میں قر آن کر یم کی تلا و ت نیک اور پسندیدہ عمل تو ہے ہی مگر رمضا ن المبا رک میں اس کا ثو اب دیگر اعما ل کی طر ح کئی گنا بڑھ جا تا ہے قرآن کریم تلا وت کر نے اور اسے بغور پڑہنے کی کتا ب وسنت میں بڑی فضیلت آئی ہے ﷲ رب العز ت نے قرآن کر یم تلا وت کو غیر فا نی تجا رت سے تعبیر کیا ہے اور پھر اجر وثوا ب عنا یت کر نے سا تھ سا تھ مزید فضل و کر م کر نے کا وعدہ کیا ہے جیسا کہ سو ر فا طر آیت ۲۹؍۳۰ میں ﷲ کا فر ما ن ہے ’’بلا شبہ جو لو گ ﷲ کی کتا ب قرآن کریم کی تلا وت کر تے ہیں صحیح طر یقے سے نماز ادا کر تے ہیں اور جو مال ہم انہیں عطا کیا اس میں سے ظاہر اور پو شیدہ طو ر پر خرچ کر تے ہیں وہ لوگ ایسی تجا رت کی امید کر تے ہیں جس میں قطعاً کوئی گھا ٹا نہیں ہو گا اور یہ سب عمل اس لئے کر تے ہیں تا کہ ﷲ انہیں پو را پورا ثوا ب عطا کر ے اور مزید اپنے فضل سے نوازے بیشک ﷲ بخشنے و الا اور قدر داں ہے ۔اسی ضمن میں حضرت عبدﷲ ابن مسعود ؓ کی ایک حدیث ہے جس میں آپ ؐنے ارشا د فر ما یا ’’جس شخص نے قرآن کر یم کا ایک حر ف پڑھا اس اسکے بد لے ایک نیکی ملے گی اور ایک نیکی دس نیکیوں کے مسا وی ہو گی میں نہیں کہتا الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حر ف ہے لا م ایک حر ف ہے میم ایک حرف ہے مطلب یہ کہ صرف الم پڑھنے سے تیس نیکیا ں حا صل ہو ں گی جب کہ امام مسلم ؒ نے حضر ت ابو امامہ سے ایک حدیث روا یت کی کہ آپؐ نے فر ما یا ’’ قرآن کریم کی تلا وت کیا کر وکیوں کی بروز قیا مت قرآن اپنے تلا وت کر نے وا لوں کے حق میں سفا رشی بن کر آئے گا ۔

لہذا اس با ت کو ذہن میں جگہ دینی چا ہئے کہ قرآن کر یم کی فضیلت اور اس کا اعجا ز اپنی جگہ مسلم ہے قرآن کر یم کی تلا وت کے کچھ آداب و طر یقے ہیں جن کا ملحوظ رکھنا قا ری کے لئے ضرور ی ہے(۱لف)قرآن شریف پڑھنے سے پہلے با وضو ہو نا ضرور ی ہے (۲)قرآن شریف کی تلا وفت ایسی جگہ ہو نی چا ہئے جو نہا یت صا ف ستھری اور پر سکون ہو تا کہ قرا ن کو سمجھنے اس کے معا نی و مطا لب پر غور کر نے میں مدد گا ر و معا ون ثا بت ہو (۳)حضرت علیؓ فر ما تے ہیں کہ آپ ؐ نے فر ما یا تمہا رے منھ قرا ٓن شریف کی ادا ئیگی کا ذریعہ ہے لہذا اس کو مسوا ک یا برش سے صاف کر تے رہنا چا ہئے (۴)تلا وت سے قبل تعوذ اور بسملہ کا پڑھنا ضروری قرار دیا گیا (۵)اور بہتر طر یقہ یہ کہ قرآن شریف کو میٹھی اور بلند آواز سے پڑھا جا ئے تا کہ سننے وا لو ں کو بھی فا ئد ہ پہو نچے مزید یہ کہ تدبر، خشوع و خضوع ،انا بت الی ﷲ،رجو ع الی القلب ،ترتیل اور الفا ظ کی حسن ادا ئیگی پر دھیا ن دیا جا ئے تا کہ زیا دہ سے زیا دہ ثوا ب حا صل کیا جا سکے ﷲ رب العزت سے دعا ہے با ر الہ ہم تمام مسلما نو ں کو رمضان لمبا رک میں قرآن کر یم سے کما حقہ فا ئدہ اٹھا نے کی تو فیق عطا فر ما ئے (آمین )
ASADULLAH NADWI
About the Author: ASADULLAH NADWI Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.