اللہ کی اپنی ہی کسی آیت کی منسوخی کا عمل

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو رب العالمین ہے اور اللہ کی رحمت و سلام نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ان کی آل پر ان کے ساتھیوں پر اور ان کی امت پر

اللہ عزوجل کا حق ہے کہ وہ جو چاہے کرے سو جو چاہے کہے

(الانبیا آیت نمبر ٢٣) “وہ اپنے کاموں کے لیے جواب دہ نہیں ہے اور سب جوابدہ ہیں۔“

اللہ عزوجل قرآن میں ارشاد فرماتے ہیں کہ (ایک آیت کا حصہ ) “ وہ جسے چاہتا ہے معاف کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے سزا دیتا ہے“

عمل تنسیخ کے عربی میں دو معنی ہیں

١۔ صورت میں تبدیلی لانا یا یا ایک جگہ سے دوسرے منتقل کردینا

٢۔ منسوخ کردینا عام فہم میں

عربی میں فنی اعتبار سے تنسیخ کا مطلب منسوخ یا تبدیل کردینا ہی ہے یعنی جیسے اللہ عزوجل قرآن کرمی میں ارشاد فرماتے ہیں کہ

سورہ البقرہ ١٠٦
ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں، اس کی جگہ اس سے بہتر لاتے ہیں یا کم از کم ویسی ہی۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

اور اللہ عزوجل مزید ارشاد فرماتے ہیں قرآن مجید فرقان حمید میں کہ

١٦ النحل سورہ ٩٨ تا ١٠٢
پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان رجیم سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔ اسے ان لوگوں پر تسلط حاصل نہیں ہوتا جو ایمان لاتے اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں اس کا اثر تو انہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس کو اپنا سرپرست بناتے اور اس کے بہکانے سے شرک کرتے ہیں۔

جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرتے ہیں۔ اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازل کرے۔ تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم یہ قرآن خود گھڑتے ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ حقیقت سے نا واقف ہیں۔ ان سے کہو کہ اسے تو روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے بتدریج نازل کیا ہے تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پختہ کرے اور فرماں بردراوں کو زندگی کے معاملات میں سیدھی راہ بتائے اور انہیں فلاح و سعاد ت کی خوشخبری دے۔

١٦ النحل سورہ ١٠٦ تا ١٠٧
جو شخص ایمان لانے کےبعد کفر کرے مجبور کیا گیا ہو اور دل اس کا ایمان پر مطمئن ہو مگر جس نے دل کی رضامندی سے کفر کو قبول کرلیا اس پر اللہ کا غضب ہے اور ایسے سب لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا اور اللہ قائدہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو راہ نجات نہیں دکھاتا جو اس کی نعمت کا کفران کریں۔

٨ ال انفال ٦٥ تا ٦٦
اے نبی، مومنوں کو جنگ پر ابھارو اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔ اچھا، اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کیا اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے، پس اگر تم میں سے سو آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر اور ہزار آدمی ایسے ہوں تو دوہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے، اور اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔

(مندرجہ بالا سورت میں اللہ عزوجل نے بوجھ ہلکا کیا اور فرمایا “ اور اسے (اللہ کو ) معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزری ہے ۔ معاز اللہ کیا اللہ کو پہلے معلوم نا تھا جو اس نے سو آدمیوں کو ہزار آدمیوں پر غالب رہنے کے وعدے کو بدل کر فرمایا کہ اگر تم میں سے سو آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے۔ پس ثابت ہوا کہ اللہ جو چاہے کرے جو چاہے کہے)

اللہ اعلم بالصواب

مزید اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں
“جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں، اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کی خطاؤں سے درگزر کیا جائے گا اور انہیں بڑا اجر ملے گا۔ رہے وہ لوگ جو کفر کریں اور اللہ کی آیات کو جھٹلائیں، تو وہ دوزخ میں جانے والے ہیں۔ سورہ المائدہ ٩ اور ١٠ آیات ربانی)

اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں سورہ النسا آیت نمبر ١٣٦ میں
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کی کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے۔ جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روز آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا

(اللہ مجھے اور ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے اللہ کا حکم قرآن میں ہے کہ “ہر اس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کرچکا ہے کیا ، معاز اللہ ، رب العزت کے علم سے یہ بات پوشیدہ ہے یا تھی کہ قرآن سے پہلی کتابوں میں تحریف ہوچکی ہوگی یا ہوسکتی ہے۔ اللہ مجھے اور سب کو علم و عمل کا شیدائی بنائے حریص بنائے آمین یا رب العالمین)
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 493145 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.