حضرت خوا جہ خواجگان علامہ حافظ عبد الرحمن نقشبندی مجددیؒ

حضرت خواجہ خواجگان علامہ حافظ عبد الرحمن نقشبندی مجددی ؒ آپ کی ولا دت باسعادت قیام پاکستان سے قبل وادی درویشاں ڈھنگروٹ شر یف میر پور آزادکشمیر میں ہوئی ۔ آپ کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا ۔ آپ کی بلوغت سے قبل ہی والدین کا سائیہ سر سے اٹھ گیا والد گرامی غلام مرتضیٰ اور والدہ دونوں کا انتقال ہوگیا آپ کا گھرانہ دین دار تھا ابتداء سے ہی اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے احکامات سے محبت و انس کا ایک سچا اور پکا رشتہ استوار رہا ۔ اپنے آبائی گا ؤں میں حفظ قرآن کا سلسلہ شروع کیا جس کی تکمیل تحصیل پھالیہ منڈی بہا والدین کے استاذالحفاظ حضرت علامہ محمد ادریس ؒ کے پاس ہوئی آپ نے تقریبا 13 برس کی عمر میں حفظ قرآن کی سعادت ایک سال کے دورانیہ میں حاصل کی اس کے بعد آپ نے علمی پیاس بجھا نے کے لیے داتا کی نگری لاہو ر کا انتخاب کیا وہاں معروف مذہبی و دینی درسگاہ جامعہ نعمیہ سے تعلیم کا سلسلہ شروع کیا اور ساتھ ساتھ مسلح افواج پا کستان میں بھی ملا زمت اختیار کرلی دوران سروس آپ نے درس نظامی مکمل کیا ۔ آپ نے حضرت خواجہ حافظ محمد علی فیض پو ری ؒ سے بیعت کی جو رشتہ میں آپ کے سسر اور سجادہ نشین تھے آستانہ عالیہ فیض پو ر شریف میرپور آزادکشمیر

حضرت خوا جہ خواجگان علامہ حافظ عبد الرحمن نقشبندی مجددیؒ

میں مر کے بھی بزم وفا میں زندہ ہوں
تلاش کر میری محفل مرا مزار نہ پوچھ

حضرت واصف علی واصف ؒ فرما تے ہیں ،،ہر وہ چیز جس کے جدا ہو نے کا افسوس ہو نعمت کہلا تی ہے ،،ایسا انسان جو سلیم و عقل ، حلیم الطبع خلوت پسند ہو نے کے ساتھ ساتھ حد درجے کا متقی و پارسا عبادت گزار ، شریعت کا پہرے دار طریقت کا ترجمان جس کے دل میں غلبہ اسلام کا سحر اور دین سے رغبت ہمہ وقت بیدار ہو جس کے قلوب و اذہان میں مسلک حقا اہل سنت و جما عت کی لگن ہو جس کے سینے میں خدمت خلق کا جذبہ ہو نہا یت سادہ صاف ستھرا اور سفید لباس زیب تن ہو ماحول پر سکوت ہو اور محفل میں رنگ چمن ہو جس کے شب و روز خالق سے گفتگو میں محو گزریں اور جس کی تنہا ئی بھی اسکی پارسائی کی گواہی دے نایاب پھولوں کے ایک ایسے ہی گلدستے کا نام ہے حضرت خواجہ خواجگان علامہ حافظ عبد الرحمن نقشبندی مجددی ؒ آپ کی ولا دت باسعادت قیام پاکستان سے قبل وادی درویشاں ڈھنگروٹ شر یف میر پور آزادکشمیر میں ہوئی ۔ آپ کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا ۔ آپ کی بلوغت سے قبل ہی والدین کا سائیہ سر سے اٹھ گیا والد گرامی غلام مرتضیٰ اور والدہ دونوں کا انتقال ہوگیا آپ کا گھرانہ دین دار تھا ابتداء سے ہی اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے احکامات سے محبت و انس کا ایک سچا اور پکا رشتہ استوار رہا ۔ اپنے آبائی گا ؤں میں حفظ قرآن کا سلسلہ شروع کیا جس کی تکمیل تحصیل پھالیہ منڈی بہا والدین کے استاذالحفاظ حضرت علامہ محمد ادریس ؒ کے پاس ہوئی آپ نے تقریبا 13 برس کی عمر میں حفظ قرآن کی سعادت ایک سال کے دورانیہ میں حاصل کی اس کے بعد آپ نے علمی پیاس بجھا نے کے لیے داتا کی نگری لاہو ر کا انتخاب کیا وہاں معروف مذہبی و دینی درسگاہ جامعہ نعمیہ سے تعلیم کا سلسلہ شروع کیا اور ساتھ ساتھ مسلح افواج پا کستان میں بھی ملا زمت اختیار کرلی دوران سروس آپ نے درس نظامی مکمل کیا ۔ آپ نے حضرت خواجہ حافظ محمد علی فیض پو ری ؒ سے بیعت کی جو رشتہ میں آپ کے سسر اور سجادہ نشین تھے آستانہ عالیہ فیض پو ر شریف میرپور آزادکشمیر۔ حضرت خواجہ حافظ محمد علی فیض پو ری ؒ ولی کامل غوث زماں قطب دوراں حضور قبلہ خواجہ حافظ محمد حیات ؒ آستانہ عالیہ ڈھنگروٹ شریف کے بڑے صاحبزادے تھے۔ حضرت خواجہ حافظ محمد علی ؒ کے ۴ صاحبزادے حضرت خواجہ پیرمحمد فاضل ؒ سب سے بڑے صاحبزادے اور موجودہ سجادہ نشین فیض پو ر شریف و ممبر آزادکشمیر اسمبلی صاحبزادہ پیر محمد عتیق الرحمن فیض پو ری کے والد گرامی تھے ،دوسرے صاحبزادے حضرت خواجہ حافظ محمد صادق فیض پو ری ،تیسرے صاحبزادے حضرت خواجہ حافظ محمد صدیق فیض پو ری اورچو تھے حضرت خواجہ محمد شریف فیض پو ری اور ایک ہی صاحبزادی تھیں ۔یا د رہے کہ حضرت خواجہ حافظ محمد علی ؒ کا جست خاکی 3 سال بعد منگلا ڈیم ڈھنگروٹ شریف سے نکال کر دوبارہ فیض پور شریف میں مدفن کیا گیا ہے جوکہ قبلہ حافظ صاحب ؒ سے نہا یت محبت اور شفقت فرماتے تھے ۔حافظ صاحب نے 11FFR رجمنٹ میں رہتے ہو ئے 1965 کی پاک بھا رت جنگ کے دوران جب کوئی بھی دین متین کا خدمت گزار بارڈرز پر میسر نہ آیا تو حافظ عبد الرحمن نقشبندی مجددی ؒ نے جواں مردی کا مظاہرہ کرتے ہو ئے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر بارڈ ر پر جوانوں کا حوصلہ بلند کرنے اور انکو حقیقی جہاد اور اسلامی روایات سے روشناس کروانے اور ملی و دینی جذبہ بیدار کرنے کے لیے اپنی خدمات بطور امام پیش کیں ۔ جب فوجی ملا زمت کی ریٹا ئرمنٹ کے بعد واپس آئے تو جامعہ مسجد اڈہ دینہ میں مدرس کی ذمہ داری نبھا نے کا شرف حاصل ہوابطور خطیب اور مدرس دین متین کی تبلیغ و ترویج اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے مصروف عمل رہے ۔ مسلسل 35 برس تک برل گا ؤ ں کی جامع مسجد میں حفظ قرآن کی کلاسز پڑھائیں اور دین متین کی خدمت گزاری کا حق ادا کیا ۔آپ کے چھوٹے بھائی حافظ عبد العزیز جن کی آپ نے والد کی طرح پرورش کی انہوں نے 35 برس تک مسلسل قلعہ روہتاس کی مسجد میں قرآن پاک پڑھانے کی سعادت حاصل کی جن کا نماز جنازہ خود حافظ صاحبؒ نے پڑھایا۔ 1985 میں جبکہ آپ کی آل اولاد اکثریتی برطانیہ میں مقیم تھے کہ اصرار پر برطانیہ تشریف لا ئے اور یہا ں اپنے ۵بیٹو ں اور ۴ بیٹیوں کی اولادوں پو توں پوتیوں اور نواسے نواسیوں سے ملاقات کی اپنے برادر نسبتی الحاج پیرمحمد صادق فیض پو ری جو اس وقت سمر ویل جا معہ دار العلوم کے بطور مہتمم ذمہ داری نبھا رہے تھے کے کہنے پر وہاں رمضان المبارک کی پر کیف اور با برکت گھڑیوں میں نما ز تراویح کے اندر قرآن پاک سنایا اور اسکے بعد حج بیت اللہ کی سعادت کے لیے سعودی عرب روانہ ہو گئے وہا ں قبلہ حافظ صاحب ؒ کے ساتھ عجب روحانی معاملہ پیش آیا جب قرآن پاک کی تلاوت میں محو ذکر الہیٰ سے مخمور بیت اللہ میں تشریف فرما تھے تو ایک شخص غائبانہ طور پر آیا اور آپ کے ہا تھ میں پیسوں سے بھرا ایک تھیلا چھوڑ کر چلا گیا دوست احباب کو جب یہ ماجرا معلوم ہو ا تو کہنے لگے کہ سعودی حکومت کے قوانین میں بغیر کسی ثبوت کے اتنی بڑی رقم رکھنا بہت بڑا جرم ہے آپؒ نے فرمایا کہ میں اسے اپنے ساتھ لیکر جاؤں گا یہ مجھے اللہ رب العزت کی مخلوق میں تقسیم کرنے کے لیے دیا گیا ہے وہاں آپؒ نے سکونت کے دوران وہ پیسے اپنے ساتھ رکھے اور حج بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی ﷺ پر حاضری کے بعد وطن واپس پہنچے تو وہاں جا کر پیسوں والا وہ تھیلہ غریب غرباء میں تقسیم کردیا ۔ پاکستان میں ان کے صاحبزادے پیرمحمد جمیل الرحمن جمالی نے زیادہ وقت آپ کے ساتھ گزارا جن سے اولاد میں سب سے زیادہ رغبت اور محبت و شفقت رہی ۔ 1991 صاحبزادہ پیرمحمدجمیل الرحمن جمالی بھی برطانیہ تشریف لے آئے حافظ صاحب کے پاس اسوقت بڑے صاحبزادے چو ہدری محمد خلیل الرحمن چلے گئے لیکن ناسازی طبعیت کی وجہ سے انہیں بھی واپس برطانیہ آنا پڑا یہا ں انکا وصال ہو گیا 1994 میں حافظ صاحب ؒ کے چھوٹے بیٹے صاحبزادہ پیر محمدنجیب الرحمن فیض پو ری والد گرامی کے ویزا سے متعلقہ تمام کاغذات لیکر وطن واپس روانہ ہو ئے اور اسوقت جب برطانوی سفارتخا نے نے سفر کی اجازت دی تو دوبارہ برطانیہ تشریف لے آئے یہا ں پر زیادہ وقت اپنے چھوٹے صاحبزادے کے گھر قیام میں ہی گزارانتہائی سادہ لوح کم گوہ اور درویش صفت انسان تھے ہمہ وقت قرآن پاک پڑھنے پڑھانے میں مصروف رہتے فضول باتوں اور وقت گزاری سے اجتناب کرتے تھے پھر وہ حقیقت جس کا وعدہ خالق نے اپنی مخلوق سے کیا ہے اس کاسامنا کرنا پڑا 2000 کے ۹ ویں مہینہ میں بروز اتوار صبح ساڑھے 9 بجے کے قریب آپ دنیا فانی کو خیر آبا د کہتے ہو ئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ ؒ نے تقریبا 110 برس کی عمر میں وفات پائی آپؒ کو غسل صاحبزادہ پیرمحمد حبیب الرحمن محبوبی آپ کے صاحبزادگان صاحبزادہ پیرمحمد طا ہر آزاد اور صاحبزادہ پیرمحمد جمیل الرحمن جمالی نے دیا جبکہ آپ کا نماز جنا زہ آپؒ کے چھوٹے صاحبزادے جن کے پاس آپ نے طویل وقت گزارا صاحبزادہ پیر محمد نجیب الرحمن فیض پو ری نے پڑھایا اور پھر آپ ؒ کی وصیت کے مطابق آپ کو وطن واپس لیجایا گیا کیو نکہ آپ ؒ کا کہنا تھا کہ مجھے برطانیہ میں اسلیے دفن نہ کیا جا ئے کیونکہ یہا ں پر کلام الہیٰ اور اذان کی آواز سپیکر پرسنائی نہیں دیتی ہے ۔برطانیہ سے وطن واپسی پر آپؒ کا دوبارہ نماز جنا زہ آپ ؒ کے قریبی عزیز صاحبزادہ پیرمحمد ذکریا نعمانی نے پیر کے روز پڑھایا اور آپ ؒ کوفیض پو ر شریف دینہ میں دفن کیا گیا ۔حافظ محمد قدیر آپؒ کے آخری شاگرد تھے جن کو آپؒ نے چارپائی پر بیٹھ کر حفظ قرآن پڑھایااور جو موجودہ دارلعلوم رحمانیہ نقشبندیہ مجددیہ قادریہ کے مہتمم بھی ہیں ان کے والد محترم مرحوم حاجی محمد ولایت نے حافظ صاحب ؒ کے مزار شریف مدرسہ اور مسجد کی تعمیر میں پر خلوص طریقہ سے بھرپور حصہ لیتے ہو ئے اسکو پائیہ تکمیل تک پہنچایا انکا انتقال گذشتہ سال 2014 میں ہوا۔ان کے علاوہ علامہ قاری محمد یوسف سیالوی سربراہ ادارہ احسن القرآن دینہ شہر اور علامہ محمد بشیر مرحوم جن کو جامعہ نعمیہ لاہورکے باہر جائیداد کے تنازعہ پر شہید کیا گیا حافظ صاحب ؒ کی ان دونوں بھائیوں سے بہت زیادہ محبت اور قرابت رہی۔ آپ کے شاگرد خاص حاجی محمد ثالث اور چو ہدری محمد خالق کراچی کی ایک مسجد میں اکھٹے ہو ئے تو استاد محترم کی قرات کے منفرد انداز سے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ حافظ عبد الرحمن نقشبندی مجددی ؒ کی وفات کے ایک سال بعد ہی فروری 2001 میں آپ کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا جن کا نماز جنازہ انکی وصیت کے مطابق صاحبزادہ پیرمحمد حبیب الرحمن محبوبی آف بریڈ فورڈنے پڑھایا اور آپ کو بھی حافظ صاحب ؒ کے پہلو میں دفن کیا گیا حافظ صاحب ؒ اور انکی اہلیہ دونوں نے سرزمین برطانیہ کے دوسرے بڑے شہر برمنگھم میں وفات پائی اور پھر عظیم دینی درسگاہ جامع مسجد گھمکول شریف میں نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد آبائی گا ؤں میں رقت سفر ہوئے آپ ؒ اور آپؒ کی اہلیہ کے عرس مبارک کے بعد مزار شریف کی تعمیرات کا کا م مکمل کرلیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کے صاحبزادگان نے مزار شریف سے ملحقہ 3 کنال جگہ مدرسہ کے لیے خرید لی جہا ں پر بچے اور بچیوں کے درس و تدریس کا سلسلہ جا ری ہے اور قرب و جوار کے رہنے والے اپنی دینی پیاس کے مطابق استفادہ حاصل کررہے ہیں ۔ دارلعلوم رحمانیہ نقشبندیہ مجددیہ قا دریہ نیو کشمیر کالونی نزد ریلوے پل دینہ میں حضرت خواجہ خواجگان علامہ حافظ عبد الرحمن نقشبندی ؒ کی یا دگار کے طور پر موجود ہے جس کے سامنے اللہ کا گھر بھی آباد کردیا گیا ہے جہا ں پر 5 وقت ذکر الہیٰ کا اہتمام بخوبی ہو تا ہے اور انکی دین سے محبت و الفت اور وابستگی کا نتیجہ کے انکی اولاد بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہو ئے اپنے والد گرامی کی روح کو ایصال ثواب پہنچانے کے اسباب مہیا کر رہے ہیں بلاشبہ کسی انسان کے دنیا سے جا نے کے بعد اسکی تربیت یافتہ اولاد اسکے لیے قیمتی ترین سرمائیہ ہے جس کا کوئی نعمل البدل نہیں ہے ۔ آپ کا عرس مبارک ہر سال ستمبر کے آخری ہفتہ میں انعقاد پذیر ہوتا ہے اس مرتبہ تا خیر کے باعث حضرت علامہ حافظ عبدالرحمن نقشبندی مجددی ؒ کے 15 ویں سالانہ عرس پاک کی تقریبات دربار شریف پر 10 اکتوبر بروز ہفتہ کو انعقاد پذیر ہو نگی جس کی میزبانی کے فرائض صاحبزادہ پیر محمد نجیب الرحمن فیض پو ری سرانجام دیں گے جبکہ ملک بھر سے جید علماء و مشائخ حفاظ اورثناء خوان مصطفیﷺ بھر پور شرکت کریں گے ۔

S M IRFAN TAHIR
About the Author: S M IRFAN TAHIR Read More Articles by S M IRFAN TAHIR: 120 Articles with 105657 views Columnist / Journalist
Bureau Chief Monthly Sahara Times
Copenhagen
In charge Special Assignments
Daily Naya Bol Lahore Gujranwala
.. View More