ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
پاک و ہند کے صفِ اول کے ادیب، علامتی اور استعاراتی اسلوب کے افسانہ نگار ، شاعر، کالم نگار، تنقید نگار ، کہا نی نویس، ڈرامہ نگار انتظار حسین لاہور میں 2فروری 2016کو 93برس کی عمر میں انتقال کر گئے انا اﷲ و انا علیہ راجیعون۔ اﷲ تعالیٰ انتظار حسین کی مغفرت فرمائے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے آمین۔
مرنے والے مرتے ہیں فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

انتظار حسین 7دسمبر 1923ء کو ہندوستان کے ضلع میرٹھ، بلند شہر میں پیدا ہوئے ۔ قیام پاکستان کے وقت جب کہ ان کی عمر 22 سال تھی پاکستان ہجرت کی اور لاہور کو اپنا مسکن بنا یا۔ میرٹھ کالج سے بی اے جب کہ پنجاب یونیورسٹی سے اردو اور انگریزی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ادبی ذوق ان کی شخصیت کا لازمی حصہ تھا۔انتظار حسین نے اپنی سوانح حیات بعنوان ’چراغوں کا دھواں‘ میں لکھا ہے کہ وہ ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جہاں روایات کی پابندی کی جاتی تھی، ان کے والدین کی خواہش تھی کہ وہ مذہبی اسکالر بنیں لیکن انہوں نے ادب کے میدان کا انتخاب کیا اور کامیاب بھی رہے۔ افسانہ ان کی پہچان تھی، لیکن وہ محقق بھی پائے کے تھے، تنقید بھی بہت اچھی لکھتے تھے، کالم نگار بھی خوب تھے، انہوں نے سیاست کے علاوہ تمام موضوعات پر کالم لکھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایوب خان کے دور میں کالم نگاری شروع کی ، اسی وقت طے کرلیا تھا کہ سماجی ، ادبی اور تہذیبی موضوعات پر کالم لکھیں گے انہوں ایسا ہی کیا، روزنامہ مشرق میں ان کی کالم بہت مشہور ہوئے۔ سیاست پر نہ لکھنے کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی تھی کہ ہر اخبار کی ایک خاص پالیسی ہوتی ہے اوروہ پابندیوں کی چھتری تلے تخلیقی کام نہیں کرسکتے۔ اخبار کی انتظامیہ کی پابندی کو وہ اپنی ذہنی آزادی پر قدغن تصور کرتے تھے۔دیگر موضات پر ان کے کالم پڑھنے والوں میں بہت مقبول تھے۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پرگندہ طبع لوگ
افسوس، تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی

انتظار حسین دسمبر 2015میں کراچی تشریف لائے تھے۔ کراچی میں یہ ان کی زندگی کا آخری قیام تھا۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام آٹھویں عالمی اردو کانفرنس 2015ء کا افتتاحی اجلاس 8دسمبر منگل منعقد ہوا۔ آڈیٹوریم مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ان مہمانوں میں مَیں بھی ایک نشست پر بیٹھا تمام مہمانوں کو آتا دیکھ رہا تھا۔ وقت ہوچکا تھا منتظمین پریشانی کے عالم میں نظر آرہے تھے۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت انتظار حسین صاحب کو کرنا تھی جنہیں لاہور سے تشریف لانا تھا۔ ان کی فلائٹ لیٹ ہوگئی تھی۔ افتتاحی اجلاس انتظار حسین اوردیگر مہمانوں کے بغیر ہی شروع کردیا گیا ۔ میزبان ہما میر نے آگاہ کیا کہ انتظار حسین صاحب کی فلائٹ آچکی ہے وہ اس وقت راستہ میں ہیں جلد پہنچ جائیں گے۔ اجلاس شروع ہوا اسٹج پر ڈاکٹر قاسم پیر زادہ، سندھ کے وزیر تعلیم نثار کھوڑو، فرہا ذیدی، طلعت حسین، زہر نگاہ، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، حسینہ معین،کشور ناہید، ڈاکٹر ابو اکلام قاسمی،ڈاکٹر قاسم بگھیو،ڈاکٹر عالیہ امام، امداد حسینی،عبد المالک غوری، محمود الاسلام، ہندوستان سے آئے ہوئے شمیم حنفی، پروفیسر سحر انصاری اور احمد شاہ تشریف فرما تھے۔ اجلاس شروع ہوئے ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ محترم انتظار حسین صاحب اپنے مخصوص انداز، مسکراتے ہوئے تشریف لے آئے۔ انتظار حسین صاحب کو دیکھ کر ہال میں موجود لوگوں میں خوش گوار احساس نمایاں تھا۔ افتتاحی اجلاس کا موضوع ’نفاذِ اُردو ، مسائل اور امکانات‘ تجویز کیا گیا تھا۔ دیگر کے علاوہ انتظار حسین صاحب نے بھی اپنے مخصوص اندازمیں تفصیلی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تہذیبی انحطاط کے اس دور میں زبان و ادب کی ترقی ایک معجزہ ہے۔ انہوں نے ملک میں اردو کے نفاذ کے حوالے سے مدلل گفتگو کی۔ انتظار حسین کو قریب سے دیکھنے کے یہ میرے یہ آخری لمحات تھے۔ ان سے سرسری ملاقات ، سلام دعا تک محدود رہی۔ ان کی شخصیت کو اگر میں الفاظ میں بیان کروں تو ان کی شخصیت کا ظاہری خاکہ کچھ اس طرح سے بنتا ہے۔وہ نستعلیقی قسم کے انسان تھے۔ چھوٹا قد، صاف ستھرا گول چہرہ، سفیدکھلتا ہوا رنگ، چہرہ پر خوش نما مسکراہٹ، دھیمی اور مدھر آواز، اونچی ناک، باریک ہونٹ،آنکھوں میں سوجھ بو جھ کی چمک، کشادہ پیشانی ، صاف ستھری شخصیت اور صاف ستھرا لباس ، داڑھی مونچھ سے آزاد کلین شیو۔ سر پر مختصر بال جن میں چاندی نمایاں، سنجیدہ طرز گفتگو، معلومات کا خزانہ،ہر موضوع پر تفصیلی اور حوالائی گفتگو، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، المختصر صورت شکل، وضع قطع،چہرے مہرے سب سے شرافت، تحمل ، وضع داری اور معصومیت کا خوشگوار اظہار۔یہ تھے انتظار حسین جنہیں اب مرحوم لکھتے ہوئے انگلیاں ساتھ دے رہیں۔قلم اس لیے نہیں کہا کہ اب قلم کے بجائے کمپیوٹر کی بورڈ پر انگلیاں چلتی ہیں۔ کمپیوٹر کی بورڈ ہی اب ہمارا قلم ہے۔

انتظار حسین منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوئے، ایک متوسط پڑھے لکھے گھرانے میں آنکھ کھولی، جہاں کا ماحول ادبی تھا۔انہوں نے شاعر کی حیثیت سے ادبی سفر کا آغاز کیا۔افسانہ نگاری کا آغاز پاکستان ہجرت کے بعد کیا۔ وہ ن۔م ۔ راشد سے متاثر تھے۔ انہوں نے افسانہ کو حقیقت نگاری سے ہٹ کر علامتی اور داستانی اسلوب میں افسانہ نگاری کی روایت ڈالی۔ انہیں علامتی افسانہ نگاری کا بابائے آدم گردانہ جاتا ہے۔ انتظار حسین کے متعدد افسانے اور ناول اردو ادب میں یاد گار ہیں۔ ان کا اولین افسانوں کا مجموعہ ’گلی کوچے ‘ 1953ء میں منظر عام پر آیا۔ان کی معروف تصانیف میں ’آگے سمند ر ہے(ناول)، بستی(ناول)، تذکرہ (ناول)، چاند گرہن (ناول)، دن (ناول)،معروف افسانوں میں شہر آشوب، آخری آدمی، خالی پنجرہ، خیمے سے دور، شہر افسوس، کچھوے، کنکرے، گلی کوچے، چراغوں کا دھواں، ولی تھا جس کا نام، جل گرجے (داستان)، نثریے سے آگے، قیوما کی دکان (آپ کی پہلی کہانی تھی)، کہانیوں کا مجموعہ جنم کہانیاں ہے، خود نوشت دو جلدوں میں چراغوں کا دھواں اور وہ جو کھو گئے دو جلدوں میں شائع ہوئی ؂
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسما ں کیسے کیسے

حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں 1987 ء میں پرائڈ آف پرفارمینس دیا گیا بعد ازاں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا، حکومت فرانس نے ستمبر 2014ء میں آفیسر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز عطا کیا،ان کے افسانوں کے انگریزی، فرانسیسی، ہندی، بنگلہ اور دیگر زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔انہیں خود بھی کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انتظار حسین مجلسی آدمی تھے، لوگوں میں رہنا پسند کیا کرے تھے،حلقہ ارباب ذوق کی سرگرمیوں میں ، ادبی نشستوں اور کانفرنسوں میں شرکت تو ان محبوب ترین مشغلہ تھا۔ وہ زندگی کے آخری ایام تک علمی و ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے انتقال سے کوئی دو ماہ قبل دسمبر میں کراچی میں ہونے والے آٹھویں عالمی اردو کانفرنو میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ کراچی میں اپنے قیام کے دوران وہ انجمن ترقی اردو پاکستان بھی تشریف لے گئے۔ کراچی کے بعد لاہور میں ہونے والی عالمی اردو کانفرنس میں بھر پور شرکتب کی۔ وہ علیل رہنے لگے تھے لیکن ادب سے ان کی دلچسپی والہانہ تھی، کمزور اور علالت کے باوجود وہ لاہور سے کراچی تشریف لائے اور عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کی۔ انتظار حسین کی کمی شاید ہی پوری ہوسکے، ان کے چلے جانے سے اردو ادب کو جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی ممکن نہیں۔ پاکستان ایک بڑی علمی و ادبی شخصیت سے محروم ہوگیا۔ وہ مختصر علالت کے بعد 2فروری 2016کو وفات پاگئے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لاہور کی مٹی کے ہوکر رہ گئے۔ ہندوستان کی سرزمین میرٹھ کے شہر بلندشہر میں طلوع ہونے والا ادب کا یہ مہتاب لاہور کی سرزمین میں پیوند خاک ہوگیا۔ ان کی علمی و ادبی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔غالبؔ ؂
وُہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کانام سُنا ہے کل رات مرگیا وہ
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437632 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More