ڈاکٹر اسلم فرخی کا سفرِ آخر

اردو کے معروف استاد ، ادیب ، دانشور،صاحب طرز نثر نگار، خاکہ نگار، شاعر، محقق اور براڈکاسٹر پروفیسر ڈاکٹر اسلم فرخی 15جون 2016ء،9رمضان المبارک 1437ھ بروز بدھ کو انتقال کر گے، تدفین 16جون 2016ء، 10رمضان المبارک بروز جمعرات جامعہ کراچی کے قبرستان میں عمل میں آئی۔ ڈاکٹڑ صاحب کی شخصیت ، علمی و ادبی خدمات اور ان کے سفر آخر کی کی تفصیل پر مبنی

ڈاکٹر اسلم فرخی کے سفر آخر کی تصا ویر

 معروف استاد ، ادیب ، دانشور،صاحب طرز نثر نگار، خاکہ نگار، شاعر، محقق اور براڈکاسٹر پروفیسر ڈاکٹر اسلم فرخی جنہوں نے ہندوستان کے شہر لکھنؤ میں 23 اکتوبر 1923ء میں آنکھ کھولی تھی کی زندگی کا سورج اردو زبان کو علمی وادبی سرمائے سے مالا مال کرنے کے بعد 93 سال کی عمر میں 15جون 2016ء،9رمضان المبارک 1437ھ بروز بدھ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ڈاکٹر صاحب کی تدفین انتقال کے اگلے روز 16جون 2016ء، 10رمضان المبارک بروز جمعرات ان کی وصیت کے مطابق جامعہ کراچی کے قبرستان میں عمل میں آئی۔ڈاکٹر اسلم فرخی کا وطن ضلع فرخ آباد کا صدر مقام فتح گڑھ تھا جہاں انہوں نے لڑکپن اورجوانی بسر کی۔قیام پاکستان کے بعد ستمبر 1947ء میں انہوں نے پاکستان ہجرت کی اس وقت ان کی عمر 24سال تھی۔انہوں نے جامعہ کراچی سے ماسٹر اورگورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد میں لیکچرر کی حیثیت خدمات انجام دینے کے دوران ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی ۔1956ء میں ڈاکٹر صاحب کا تقرر اس کالج میں ہوا جو اس وقت سینٹرل گونمنٹ کالج ہوا کرتا تھا۔کالج کی نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں ڈاکٹر اسلم فرخی پیش پیش ہوا کرتے تھے۔ اردو کے دیگر اساتذہ میں ڈاکٹر عبد السلام اور پروفیسر انجم اعظمی شامل تھے۔ ڈاکٹریٹ کر لینے کے بعد ڈاکٹر صاحب کا تقرر جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں ہوگیا اوروہ گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد سے جامعہ کراچی منتقل ہوگئے۔ جامعہ میں درس و تدریس کے ساتھ انہوں نے رجسٹرار، شعبہ تصنیف و تالیف کے سربراہ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں، ساتھ ہی علمی و ادبی سرگرمیوں میں اپنے آپ کو مصروف رکھا۔ ان کے رشحاتِ قلم سے جو علمی و ادبی سرمایہ منظر عام پر آیا وہ ہر دو اعتبار سے یعنی تعداد اومعیار کی انتہائی منزل پر ہے۔

ڈاکٹر اسلم فرخی کے سانحۂ ارتحال سے ہم اردو اد ب کی ممتاز شخصیت سے محروم ہوگئے۔ڈاکٹر صاحب کا شمار ملک کے ممتاز دانشوروں میں ہوتا تھا۔ وہ استاد، شاعر، صاحب طرز نثر نگار، خاکہ نگار، محقق،نقاد، بچوں کے ادیب اور براڈ کاسٹر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ وہ ریڈیو پاکستان سے بہ طور مسودہ نگار چھ سال منسلک رہے ، ریڈیو کے لیے فیچر ، ڈرامے اور تقریریں لکھیں، ریڈیو سے پروگرام ’روشنی‘ میں ان کی گفتگو ہر ہفتہ نشر ہوا کرتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا لیکن شاعری ان کی پہچان نہیں تھی بلکہ وہ خاکہ نگار کی حیثیت سے زیادہ معروف ہوئے۔ ان کے لکھے ہوئے خاکے اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ میں نے خاکہ نگاری میں ڈاکٹر اسلم فرخی سے بہت کچھ سیکھا، اس فن میں مَیں انہیں اپنا روحانی استاد تصور کرتا ہوں۔ ڈاکٹر اسلم فرخی کا کہنا تھا کہ ان کا اصل حوالہ حضرت نظام الدین اولیا محبوب الٰہی ہیں جن کے بارے میں وہ چھ کتابیں لکھ چکے ہیں۔ بزرگار دین سے غیر معمولی عقیدت ڈاکٹر صاحب کے مزاج کی خاص بات تھی ۔انہوں نے بچوں کے لیے بھی لکھا لیکن ان کا زیادہ کام خاکہ نگاری کے حوالے سے ہے۔ ان کی تصانیف میں دبستان ِ نظام(نظام الدین اولیا)،محمد حسین آزادؔ۔حیات و تصانیف، تذکرہ گلشن ہمیشہ بہار (تدوین)،چاند بی بی سلطانہ زوجہ وزیر حسن،قتیل ؔو غالبؔ (اسد علی انوری)،اردو کی پہلی کتاب (محمد حسین آزادؔ)،نیرنگ خیال (محمد حسین آزادؔ) ، قصص ہند (محمد حسین آزادؔ)، عدائیتہ القرآن ( ڈپٹی نذیر احمد )،نظام رنگ (حضرت سلطان جی کا خاکہ)،گل دستہ احباب (شخصی خاکے) ، لال سبز کبوتروں کی چھتری (خاکے)،(آنگن میں ستارے (خاکے)، فرید و فرید فرید (بابا فرید) ، بچوں کے سلطان جی،فرمایا سلطان جی نے،بچوں کے رنگ رنگ امیر خسرو،بزم شاہد (شاہد احمد دہلوی کی تحریریں)،رونقِ بزم ِجہاں، سات آسمان (سات کلا سکی شاعروں کے ادبی خاکے)، موسم بہار جیسے لوگ (خاکے)، بزم صبوحی شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب ’دبستانِ نظام ‘ کو اپنی زندگی کا حاصل قرار دیا ۔ ڈاکٹر اسلم فرخی کی خاکہ نگاری کو بلاشبہ انفرادیت حاصل ہے۔ ان کے لکھے ہوئے خاکے ہر اعتبار سے زندہ، جاندار اور دل کش ہوتے ہیں، ان میں گہری انسان شناسی ، خلوص ، محبت ، وسعت ِ معلومات اور اسلوب کی تازگی نے ان کے خاکوں میں ایک ایسی جان ڈال دی ہے کہ پڑھنے والے پر خوش گوار اثر ہوتا ہے وہ محسوس کرتا ہے کہ اس شخصیت سے وہ از خود ملا اور اس سے اچھی طرح واقف ہے۔

ڈاکٹرڈاکٹر اسلم فرخی جامعہ کراچی سے منسلک ہونے سے قبل گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد جو کبھی سینٹرل گورنمنٹ کالج ہوا کرتا تھا میں طویل عرصہ درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ مجھے بھی یہ شرف حاصل ہے کہ میں نے اس کالج میں12سال (1997-2009)ریٹائرمنٹ تک خدمات انجام دیں۔ اس سے قبل میں حاجی عبد اﷲ ہارون گورنمنٹ کالج میں 23برس خدمات انجام دے چکا تھا۔ مجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ میں نے کالج میں رہتے ہوئے بے شمارکام کیے، تقریبات کے انعقاد میں بھر پور شرکت کی، ہم نصابی سرگرمیوں کا نگراں رہا، کالج میگزین کا چیف ایڈیٹر رہا ، کالج کے انتظامی امور میں معاونت کرتا رہا۔ 2008میں کالج کے قیام کو پچاس سال مکمل ہوئے تو کالج میگزین ’روایت‘ کا گولڈن جوبلی نمبر شائع کرنے کا فیصلہ ہوا، کالج پرنسپل پروفیسر سید خورشید حیدر زیدی نے میگزین کے چیف ایڈیٹر کی ذمہ داری مجھے سونپ دیں، اس سے قبل 2004میں بھی میری ادارارت میں ’روایت ‘ کا ایک شمارہ شائع ہوچکا تھا۔ گولڈن جوبلی نمبرمیں کالج سے وابستہ سینئر اساتذہ و طلبہ سے مضامین یا ان کے تاثرات حاصل کرنے کا پروگرام بھی تشکیل پایا، ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب کالج کے ابتدائی فیکلٹی کا ایک اہم حصہ رہ چکے تھے۔ معروف شاعر و ادیب پروفیسر سحرؔ انصاری اس کالج کے اولین سیشن کے طالب علموں سے تھے ، دونوں سے رابطہ کرنا میرے حصے میں آیا ، دونوں احباب سے میں کالج میگزین کے لیے تاثرات لکھو انے میں کامیاب ہوا۔ ڈاکٹراسلم فرخی کے گھر کا پتہ معلوم کر کے ایک دن میں ان کے گھر پہنچ گیا،ڈاکٹر فرخی سے قربت کی یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ ا س سے قبل سرسری ملاقاتیں کئی بار ہوچکی تھیں۔ نام بتا یا، مدعا بیان کیا، شفقت سے پیش آئے، طے ہوا کہ میں آیندہ اتوار کو حاضر ہوجاؤں ڈاکٹر صاحب بولتے رہیں گے اور مجھے لکھنا ہوگا۔ ایسا ہی ہوا ، اتوار کی صبح میں ڈاکٹر صاحب کے گھر پہنچ گیا، ان کے ڈرائینگ روم میں ہم دونوں ہی تھے، اب انہوں نے بولنا شروع کیا اور میں تیزی سے لکھ رہا تھا، طے پایا کہ جو کچھ لکھا ہے اسے ٹائپ کر کے انہیں دکھا دیا جائے، ایسا ہی ہوا ، ڈاکٹر صاحب نے ا س مضمون کو پڑھا اور مجلہ میں شامل کرنے کی اجاذت دی، ڈاکٹر صاحب کے یہ تاثرات کالج میگزین ’روایت‘ گولڈن جوبلی نمبر 2008کے صفحہ 21تا24پر موجود ہیں۔اسی طرح سحرؔ انصاری صاحب نے بھی اس دور کے اپنے تاثرات تحریر کیے جو کالج میگزین میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر اسلم فرخی نے اپنے تاثرات میں فرمایا ـ’’میں دسمبر1956 ء میں اس کالج میں داخل ہوا تھا ۔میں نے کالج میں رہ کر محمد حسین آزادؔ حیات و تصانیف مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ کالج کی کوئی سرگرمی ایسی نہیں ہے جس میں شریک نہ رہا ہوں۔ لائبریری کا انچارچ رہا، کھیلوں کا انچارج رہا، طلبہ یونین کا انچارج رہا غرض یہ ہے کہ بے شمار ذمہ داریاں قبول کیں اور اپنے نذدیک انہیں بڑی کامیابی سے پورا کیا۔ پہلے کالج میگزین کی ترتیب و تدوین بھی میرے ہی ذمہ رکھی تھی اور یہ میگزین ’المنورہ‘ کے نام سے شائع ہوا تھا‘‘۔ گورنمنٹ کالج ناظم آباد سے قبل ڈاکٹر صاحب نے ریڈیو پاکستان، ایس ایم کالج میں بھی خدمات انجام دیں۔ گورنمنٹ کالج سے ڈاکٹر صاحب جامعہ کراچی تشریف لے گئے اور وہاں رہتے ہوئے شعبہ اردو میں درس و تدریس کے علاوہ صدر شعبہ، رجسٹرار ، شعبہ تصنیف و تالیف کے سربراہ کے فرائض بھی انجام دیے،ان کی نگرانی میں متعددایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔وفاقی اردو یونیورسٹی سے بھی وابستہ رہے،انجمن ترقی اردو پاکستان سے نو سال سے زائد عرصے تک بحیثیت مشیر علمی و ادبی وابستہ رہے۔ ان کی علمی و ادبی خدمات قابل قدر ہیں۔حکومت پاکستان کی جانب سے ڈاکٹر صاحب کو’ صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی ‘سے نوازا گیا۔

ڈاکٹر صاحب کافی عرصہ سے بیماری کی کیفیت میں تھے۔ان کے رحلت کرجانے کی اطلاع انٹر نیٹ پر دیکھی، افسوس ہوا، تدفین اگلے روز طے پائی۔ڈاکٹر صاحب کا گھر گلشن اقبال کے بلاک 5میں ہے۔ نماز جنازہ ظہر کی نماز کے بعد ’مدینہ مسجد‘ میں ہونا تھی۔ ڈاکٹر صاحب کا گھر دیکھا ہوا تھا ،میں وقت مقررہ پر ان کے گھر پہنچ گیا۔ بے شمار علمی ادبی ، سیاسی، سماجی شخصیات کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کے خاندان کے احباب موجود تھے۔ ظہر کی نماز کے بعد نمازِ جنازہ اداکی گئی اور ڈاکٹر صاحب اپنے عزیز رشتہ داروں، خاندان کے احباب، علمی و ادبی شخصیات کے قافلے کے ہمراہ سفرِ آخر پر روانہ ہوئے۔ ان کی آخری منزل جامعہ کراچی کا قبرستان تھی۔جنازہ بس کے علاوہ بے شمار کاروں کا یہ قافلہ صمدانی اسپتال کے سامنے والی شاہراہ سے گلشن چورنگی ، ڈسکو بیکری کے سامنے سے ہوتا ہوا ابوالحسن اصفہانی روڈ پر واقع جامعہ کے آئی بی اے گیٹ سے جامعہ کی حدود میں داخل ہوا اور جامعہ کی خاموش فضاؤں میں منزل مقصود پر پہنچاجہاں پر جامعہ کراچی کے قبرستان میں لحدِ فرمان اپنے ساکِن کے انتظار میں اپنا دامن واہ کیے ہوئے تھی۔

رمضان اور گرمی کے باعث جامعہ میں طلبہ کی تعداد کم تھی،سٹرکیں ویران فضاء غَمگِین اور سوگوار تھی۔سڑکوں کے دونوں جانب کھڑے گُم صُم اور ششدر درختوں نے ڈاکٹر صاحب کو خوش آمدید تو کہا مگر حزیں اور دل گرفتگی کے ساتھ،ٹہنیاں جُھک جُھک گئیں ، غنچے سہم کر پتوں کی اوٹ میں چھپ گئے ،جامعہ کی عمارتیں بھی ملول تھیں ان پرسیاہ بادلوں نے اداسی کی چادر بچھائی ہوئی تھی۔شعبہ اردو، شعبہ تصنیف و تالیف، ایڈمن بلاک نے اپنے محبوب کو کفن میں ملبوس قافلے کے ہمراہ آخری منزل کی جانب رواں دواں دیکھا تو وہ بھی اپنے باغ باں کا سامنا نہ کرسکے رنج و الم میں ڈوب گئے۔کچھ ہی دیر میں قافلہ آئی بی اے، اے ای آر سی، شعبہ فارمیسی ، ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کے برابر سے ہوتا ہوا جامعہ کے قبرستان پہنچ گیا۔ڈاکٹر صاحب سے عقیدت رکھنے والے کچھ احباب پہلے ہی سے قبرستان میں موجود تھے اور قافلے کی آمد کے منتظر تھے۔ یہ ایک ایسا دارالمقابر ہے جہاں ایک خاص نظم و ضبط ہے، کوئی مکین اپنی حد سے تجاوذ نہیں کرتایعنی انکروچمنٹ نہیں ہوتی، یہ تو ہم انسانوں کی بستیاں ہیں جہاں کا ہر رہائشی اس کوشش میں رہتا ہے کہ اس کا بس چلے تو اپنے گھر کے سامنے کی گلی یا سڑک کو بھی اپنے گھر میں شامل کرلے۔کاش ہم شہر خاموشاں کے مکینوں سے ہی کچھ سبق سیکھیں۔ اب وقت ِآخر تھا۔ سب لوگ سر جھکائے لحدِ اسلم فرخی کے گرد جمع تھے۔ نم آنکھوں،افسردہ اور بوجھل دل کے ساتھ اپنے ہر دلعزیز استاد، ادب کے قیمتی سرمایے اور ایک شفیق و مہر بان بزرگ کے جسد خاکی کو اپنے ہاتھوں آغوش لحد کے سپرد کر رہے تھے ،ڈاکٹر اسلم فرخی کے صاحبزادے ڈاکٹر آصف فرخی جو کٹ کاٹ اورجسامت میں اپنے والد کے مُشابِہہ ہیں استقامت اور حوصلے کے ساتھ اپنے والد کے جسمِ خاکی کو لحد کے سپرد کیے جانے کے عمل میں شریک رہے۔ وہ اس موقع پر صابر و شاکر نظر آئے جیسا کے حکم خدا وندی ہے کہ’ ہر ایک کو لوٹ کر واپس جانا ہے‘۔ اﷲ تعالیٰ نے ہر ایک کی موت کا وقت بھی مقرر کر رکھا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ڈاکٹر اسلم فرخی کی لحد گلاب کے پھولوں اور پتیوں سے سجادی گئی۔اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر اسلم فرخی کی 93 سالہ طویل زندگی اختتام کو پہنچی۔ ڈاکٹر صاحب کی لحد کے انتہائی دائیں جانب ذاکرہ مقبول زوجہ مقبول بٹ شہید کی قبر ہے ، دوسری جانب برا بر کی جگہ ابھی خالی ہے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی ہی میں وصیت کی تھی کہ ان کی آخری آرام گاہ جامعہ کراچی کے قبرستان میں ہو، اس کے لیے کئی سال قبل ڈاکٹر صاحب نے متعلقہ وائس چانسلر سے باقاعدہ اجازت حاصل کر لی تھی، ساتھ ہی اپنے برابر والی جگہ اپنی شریک حیات کے لیے مختص کرالی تھی۔ ڈاکٹر اسلم فرخی نے یہ شعر ا انہی لمحات کی کیفیت کے اظہار کے لیے کہا ہوگا ؂
آج اپنے ہی ہاتھوں تجھے مٹی میں دباآئے
کل تک تیرے جینے کی دعا مانگ رہے تھے

جامعہ کا یہ قبرستان اس اعتبار سے منفرد اورفضیلت لیے ہوئے ہے کہ اس میں علم و ادب سے تعلق رکھنے والی نامی گرامی شخصیات ابدی نیند سو رہی ہیں۔ ایک جانب ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب کے جسد خاکی کو ان کی لحدکے سپرد کرنے کا عمل جاری تھا، لوگ ٹولیوں کی صورت میں مختلف موضوعات پر گفتگو کر رہے تھے۔ میں اپنی سو چوں میں گم تھا ، مجھے وہ تمام اساتذہ یاد آرہے تھے جو میرے زمانے میں جامعہ میں تھے۔ متعدد اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب یاد آگئے جو چند قبروں کے فاصلے پر ہی ابدی نیند سورہے ہیں۔ان کے سفر آخر کے قافلے کے ہمراہ میں تین برس قبل ہی میں یہاں آیاتھا۔ ان کے سفر کی داستان بھی قلم بند کی تھی۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا انتقال 3اگست2013ء اور25 رمضان المبارک کو ہی ہوا تھا۔یہاں جو اہل علم موجود ہیں میں ان کی قبور مبارک پر حاضری دے چکا ہوں ان میں شعبہ سیاسیات کے استاد پروفیسر ڈاکٹر رضوان احمد،پروفیسر ڈاکٹر ابواللیث صدیقی ، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ،پروفیسر ڈاکٹرابو الخیر کشفی، طاہرہ کشفی،پروفیسر ڈاکٹر عبد المعید ،ڈاکٹر سید شاہد علی رضوی، پروفیسر ڈاکٹر افضال حسین قادری، پروفیسر ڈاکٹر نسیمہ ترمذی، پروفیسر مولانا منتخب الحق قادری، پروفیسر ڈاکٹر سیدحامد محمود، پروفیسر ڈاکٹر ریاض السلام شامل ہیں۔یقینا اور بھی ہوں گے ، میں نے جن کی قبروں پر حاضری دی ان کے نام تحریر کردیے ہیں۔ غم و حُزن کی اس کیفیت میں سوچ کا مہور وہ قدآور علمی وادبی شخصیات تھیں جو اس قبرستان میں ابدی نیند سو رہی ہیں ۔ ایک ایک کر کے سب نظروں کے سامنے تھیں۔ ان سب کے لیے دعائے مغفرت کی ۔ میں1984 میں بھی اس قبرستان میں اپنے محترم استاد پروفیسر ڈاکٹر عبد المعید صاحب کی تدفین کے موقع پر آیا تھا،ان کا انتقال13 جنوری 1984 کو ہوا تھا۔ آج ان کی یاد بھی اود کرآئی، ان کی قبر پر بھی دعا کی ۔ جامعہ کراچی میں زمین کایہ چھوٹا سا قطعہ زمین کس قدر مردم خیزہے کہ جس میں بے شمار اہل دانش ،علماء،شعرا، ادبا، صوفیہ، حکماء آسودہ ٔ خاک ہیں۔مجھے تو زمین کے اس مختصر سے ٹکڑے پررشک آرہا تھا کہ اس زمین نے کیسی کیسی علمی و ادبی شخصیتیں پیدا کیں اور وہ اس کی آغوش میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آسودۂ خاک ہیں ۔ کلام مجید کی سورۃ ’طٰہٰ ‘ کی آیت55 میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’اسی زمیں میں سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی زمین میں پھر واپس لوٹائیں گئے اور اسی سے پھر دوبارہ تمہیں نکال کھڑا کریں گئے‘‘۔اسی حوالے سے کہاوت مشہور ہے کہ ـپہنچی وہی پے خاک جہاں کا خمیر تھا‘۔ بیشک ہمیں واپس لوٹ کر جانا ہے۔یہ شعر اس وقت کی صورت حال کی خوبصورت عکاسی کرتا ہے ؂
ہجوم سلسلۂ رفتگان دکھائی دیا
زمین پر ہی مجھے آسماں دکھائی دیا

قبر کی تاریکی ، خوف اور دیگر باتیں اپنی جگہ لیکن ڈاکٹر صاحب کی لحد ان کے مزاج کے عین مطابق صاف ستھری، کشادہ، روشن اور سادہ سی لگی لیکن کچھ دیر بعد جب اس لحد کے اندرونی منظر کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کردیا جائے گا اور دنیاوی روشنی سے تعلق نہ رہے گا یقینا خدا کی رحمت کی روشنی اُسے منور رکھے گی۔کچھ ہی دیر میں لحد کو اوپر سے ٹاپ دیا گیا ، احباب نے لحد پر مٹی ڈال کر اہل قبر سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا ، انجمن ترقی اردو پاکستان جس کی ترقی میں ڈاکٹر صاحب کی خدمات شامل رہی تھیں کی جانب سے پھولوں کی چادر چڑھائی گئی دیگر ادبی اداروں کی نمایندگی بھی تھی، آرٹس کونسل آف پاکستان کے احمد شاہ صاحب بھی موجود تھے، ،ہماری ویب ’رائیٹرز کلب‘ کی نمایندگی ،مَیں اس کے صدر کی حیثیت سے کررہا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے ڈاکٹر صاحب کا جسد خاکی منوں مٹی تلے چلا گیا۔یوں ہندوستان کے شہر ’’ لکھنؤ ‘‘ سے 23 جنوری1923ء میں شروع ہونے والی زندگی کا دنیاوی اختتام پاکستان کے ایک بڑے شہر کراچی میں16جون2016 ء مطابق 10رمضان المبارک بروز جمعرات کو ہوا۔

قبر کے گرد کھڑے احباب نے فاتح پڑھی اور ڈاکٹر صاحب کے لیے مغفرت کی دعا کی ،واپسی شروع ہوئی ،میَں اپنی کار میں بیٹھا تو ڈاکٹر صاحب کی قبر نظر آرہی تھی دل ہی دل میں اُن کے لیے ایک بار پھر دعا کی اور خدا حافظ کہا۔ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے وہ استاد قمر جلالوی کے اس شعر کے ذریعہ کہہ رہے ہوں ؂
شکریہ اے قبر تک پہچانے والو شکریہ
اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم

اسی خیال کو مَیں نے اپنی ایک نظم ’شکریہ ‘ میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے اس کے دو شعر ؂
مرَقدَتک میرے ساتھ آنے والو تمہارا شکریہ
میری خاطر زحمت اٹھانے والو تمہارا شکریہ
ہے اب جوسفر باقی کرلیں گے وہ تنہا ہی ہم
حوصلہ بڑھا کرلحد تک پہنچانے والو تمہارا شکریہ

کہتے ہیں کہ موت العالِم موت العالَم کے مصداق ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا اس دنیا سے چلے جانا، دنیا سے ایک عالِم کا چلے جانا ہے ۔ عالِم مشکل سے پیدا ہوا کرتے ہیں۔ یہ یقینا نقصانِ عظیم ہے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب بات کہی ہے ؂
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا

موت بر حق ہے ڈاکٹر صاحب اس دنیا سے رخصت ضرور ہوگئے لیکن وہ ہمیشہ ہماری یادوں میں رہیں گے۔ ان کے علمی و ادبی کارنامے اس دنیا میں رہتی دنیا تک لوگوں کو فیض پہنچاتے رہیں گے۔اﷲ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔ثمہ آمین۔
مرنے والے مرتے ہیں فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
(19جون2016ء مطابق 13رمضان المبارک 1437ھ)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437622 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More