جنید جمشید: موسیقی سے پرہیزگاری اور شہادت

7دسمبر 2016بدھ کی شام افسوس ناک ، تکلیف دہ ، دل ہلاک و جگر خراش، ذہن باردہ، سینہ نگارخبر تمام ہی ٹی وی چینل سے سننے کو ملی، ہر چینل پاکستان کے معروف نعت خواہ، مبلغ اور ٹی وی شو کرنے والے جنید جمشید کے لیے یہ خبر سنا رہے تھے کہ وہ ایک فضائی حادثے میں چل بسے ۔ عجیب دل خراش کیفیت تھی ، بار بار چینل تبدیل کیے کہ شاید کوئی غلط فہمی ہو، سہو ہوگیا ہو لیکن جو چینل لگایا اس نے بریکنگ نیوز کے طور پر یہی بتا یا کہ جنید جمشید اپنی شریک حیات ’نیہا ‘کے ہمراہ تبلیغ پر چترال گئے ہوئے تھے واپس بذریعہ ہوائی جہاز چترال سے اسلام آباد آرہے تھے ۔ ابھی دس منٹ کا سفر باقی تھا اسلام آباد کے ائر پورٹ پر اترنا نصیب نہ ہوا ،پی آئی اے کا جہاز PK661حویلیاں کے قریب گاؤ پیپلیاں کے پہاڑوں پر گر کر تباہ ہوگیا اور اس میں سوار مسافر اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ یقین نہیں آرہا تھا ، عجب بیقراری اور تاسف کی کیفیت تاری تھی، جنید جمشید کی زندگی کی کہانی جو ایک گلوکار کی حیثیت سے شروع ہوئی تھی ، اسی حیثیت سے اس نے شہرت حاصل کی پھر اﷲ نے ہدایت دی اور وہ موسیقی سے تبلیغ کی جانب آگیا اور اس کی زندگی بالکل ہی بدل گئی۔ پرہیز گاری کے ساتھ ساتھ اس نے نعتیں پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا اور اس میں وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ ایک فلم تھی جو مسلسل چلے جارہی تھی، ٹی چینل پر اس کے
بارے میں جو کچھ دکھایا جارہا تھا وہ ایک ایک کر کے سامنے آتا گیا۔ یہ ہے انسان کی زندگی کی اصل حقیقت۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
اے فرشتہ اجل ! کیا خوب تیری پسند ہے
پھول تو نے وہ چنا جو گلشن کو ویران کر گیا

ہر آنکھ آبدیدہ ،ہر دل غمگین، ہر جی مبتلائے غم اور خس بدنداں تھا۔ کسی کے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہوا، کیسے ہوا۔ حادثات کا ہونا کوئی نئی بات نہیں ، پاکستان میں فضائی، بحری اور زمینی حادثات ہوتے رہے ہیں ۔ فضائی حادثہ اس اعتبار سے زیادہ تکلیف دے اوراَذِیَت ناک تصور ہوتا ہے کہ باوجود تمام سفروں کے زیادہ محفوظ تصور کیا جاتا ہے لیکن جب حادثہ ہوتا ہے ، یعنی جہاز کسی بھی وجہ سے کریش ہوتا ہے تو پھر یہ بات یقینی ہوتی ہے کہ اس میں موجود کسی انسانی جان کے بچ جانے کی امید صفر ہوتی ہے اور یہی حویلیاں کے پہاڑوں سے ٹکرانے والے پی آئی اے کے اس ATR قسم کے طیارے کے ساتھ بھی ہوا ۔ اس میں سوار تمام مسافر جن کی تعدادف 42تھی ، عملہ کی تعداد بشمول پائیلٹ کے 5تھی ،اس طرح یہ بدقسمت طیارہ47افراد کی زندگی کے چراغ گل کرنے کا موجب ہوا اور خود بھی نیست و نابود ہوگیا۔اے ٹی آر طیارہ اپنی ساخت ، کارکردگی اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے دیگر اقسام کے طیاروں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ اور قابل تعریف تصور کیا جاتا ہے۔ حویلیاں کی پہاڑوں پر گر کر تباہ ہونے والا اے ٹی آر طیارہ 9سال قبل پی آئی اے کے بیڑے میں شامل ہوا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ حادثے کے دن صبح سے یہ تیسرا اور آخری چکر لگا کر واپس آرہا تھا۔ اس کے بارے میں یہ بھی ماہرین نے کہا ہے کہ اگر اس کا ایک انجن بند یا خراب بھی ہوجائے پھر بھی یہ ایک انجمن سے اپنا بقیہ سفر مکمل کر کے بہ حفاظت لینڈ کر سکتا ہے لیکن زندگی کا معاملا تو اس نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے جس نے زندگی دی ہے۔انسانی، عقل، سمجھ، ہوشیاری، مہارت اس وقت بے بس ہوجاتی ہیں جب حکم خدا وندی ہوتا ہے کہ بس اب دنیا میں اس کے سانسوں کا سلسلہ پورا ہوا، لمحہ بھر میں اﷲ کا فرشتہ آن موجود ہوتا ہے اور سانسوں کی آمد اور جامد کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے۔ چنانچہ پی کے 661جس نے بدھ 7دسمبر کو 3بجکر 50منٹ پر چترال ائر پورٹ سے پرواز بھری تھی جس میں جنید جمشید ، اس کی اہلیہ نیہا، ڈی سی چترال اس کی اہلیہ اور بیٹی سمیت دیگر مسافر اور عملے کے لوگ شامل تھے کے سانسوں کاوقت 4بجکر40منٹ پر مکمل ہوچکا تھا، انہیں اﷲ کے حضور پیش ہونا تھا، ان سب کی روحوں کو اﷲ کے فرشتے حضرت عزرائیل علیہ السلام نے حویلیاں کے پہاڑوں پر قبض کرنا تھا اور اس نے ایسا ہی کیا، شہادت کے درجے پر فائز یہ تمام لوگ اﷲ کے دربار میں حاضر ہوگئے۔ جنید جمشید اس اعتبار سے بازی لے گیا کہ وہ تبلیغ کے لیے چترال گیا تھا، اﷲ کا پیغام اہل چترال کو پہنچا کر واپسی کے سفر پر تھا ، منزل دس منٹ کی مسافت پر تھی، جہاز نے دس منٹ بعد ہی اسلام آباد ائر پورٹ پر لینڈ کر نا تھا لیکن موت کے فرشتے نے اسلام آباد کے بجائے حویلیا ں کی جانب ہوائی جہاز کا رخ موڑ دیا اس لیے کہ وہی جگہ تو تھی جہاں سے اُن نیک روحوں کو اپنے خالق کے حضور پیش ہونا تھا ؂
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا کل کی خبر نہیں

جنید جمشید کراچی کا باسی تھا ، وہ 3 ستمبر1964کوکراچی میں پیدا ہوا، ابتدائی تعلیم کے بعد لاہور یونیورسٹی آف انجینئرنگ سے انجینئر نگ کی ڈگری حاصل کی ۔ جنید ایک ذہین اور صلاحیتوں کا مالک تھا۔ اسے موسیقی کا شوق تھا ،شکل و صورت کی طرح قدرت نے آواز بھی مدھر مدھرعطا کی تھی۔ یہی شوق اسے موسیقی کی جانب لے گیا ، اس نے پاپ میوزک گروپ ’وائیٹل سائنز ‘ کے نام سے تشکیل دیا جس میں اس کے علاوہ بھی کچھ دوست شامل تھے۔ اب اس کا شوق اس کاپیشہ بن چکا تھا، وہ موسیقی کی دنیا میں ناموری کے ساتھ ساتھ مقبولیت کے درجہ پر پہنچ چکا تھا۔ 1987میں اس نے ایک نغمہ گایا ’دل دل پاکستان، جاں جاں پاکستان‘، اس نغمے نے جنید کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا،ہر جانب اس نغمے کی دھوم تھی،اس قومی نغمے کو بی بی سی نے دنیا کے پر اثر ترین نغموں میں سے ایک قرار دیا تھا۔ جنید کا وائیٹل سائنز گروپ اختلافات کے باعث ٹوٹ گیا ، جنید دھن کا پکا تھا ، اب وہ اکیلاہی گانے لگا ، ایک کے بعد ایک نغمہ اور گانے مقبول ہوتے رہے۔ اسی دوران اس کا ایک اور گانا’ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتیں گے‘ آیا جس نے جنید کو مقبولیت کے اعلیٰ درجہ پر پہنچا دیا۔ اس کا پہلا ایلبم ’’اس راہ پر‘‘ جاری ہوا، سولو ایلبم ’’تنہائی‘‘ 1995میں جاری ہوا۔ 2000نے جنید جمشید کے دل میں مختلف انداز سے دستک دی،اس کا دل مغربی موسیقی سے اچاٹ ہو گیا تھا ، وہ مختلف راہ کی تلاش میں تھا، وقت گزرتا رہا حتیٰ کہ 2004 نے دستک دی ، وہ مغربی موسیقی کو اس وقت جب کے وہ عروج پر تھا چھوڑ کر مذہب کی جانب راغب ہوا۔ بقول مولانا طارق جمیل ’جمشید ان سے ملا تو اس نے کہا کہ میرے پاس سب کچھ ہے، جو میں حاصل کرنا چاہتا تھا ، جو حاصل کرنا چاہوں مجھے حاصل ہوجائے گا ، ہر آسائش مجھے میسر ہے اان تمام کے باوجود میرے اندر سکون نہیں‘، مولانا طارق جمیل نے جنید کی شہادت پر اپنے دکھ بھرے پیغام میں جنید کی عبادت ، ریاضت، اﷲ کی راہ میں کام کرنے کے علاوہ اسے اعلیٰ اور بلند اخلاق کا انسان قرار دیا ۔ان کا کہا تھا کہ جنید جب مجھے سے ملا تو وہ ایک معروف پاپ سنگر تھا، دنیا میں اپنے گانوں کے حوالے سے جانا چاہتا تھا ، اسے قرار نہیں تھا ، وہ اپنے اس عمل سے مطمئن نہیں تھا، میری باتوں کے جواب میں اس نے کہا کہ مولانا میرے دل میں اندھیرا ہے،میں ایک ایسی کشتی ہوں جس کا کوئی ساحل نہیں ،مولانا کی باتین سن کر اس نے کہا کہ ’آپ کی باتیں سن کر ایسا لگ رہا ہے جیسے کوئی میرے زخموں پر مرہم رکھ رہا ہو ‘۔ اس میں اَضطراب کاہونا ، بیقراری کا پایا جانا، بے چینی کی کیفیت اور پریشانی اس کے اندر ایک ایسی تبدیلی کے جانب اسے لے جارہی تھی کہ جس سے اسے سکون ملا، راحت ملی، شہرت ملی، اس کا یہ عمل اوروں کے لیے لائق تقلید مثال بنا اور وہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔ وہ موسیقی سے تائب ہوگیا، اس نے تبلیغ کا راہ اپنا لی، مَحض ظاہری طور پر نہیں بلکہ وہ اپنے ظاہری حلیے اور باطنی نظریے سے تائب ہوچکا تھا، اس نے اپنا حلیہ بھی مجسم تبدیل کر لیا تھا ، موسیقی اس کے اندر ضرور موجود رہی لیکن اس نے اپنے اس شوق کی تکمیل کے لیے نعت گوئی کا سہارا لیا اور وہ نعتیں پڑھنے لگا، جیسے اس کے گانے اور نغمے مقبول ہوئے تھے اس طرح اس کی نعتیں بھی مقبول ہوئیں۔ اس کی پہلی نعت ’محمد ﷺ کا روضہ قریب آرہا ہے ‘ تھی جسے اس نے عشقِ نبوی ﷺ میں ڈوب کر پڑھا، اس کے ساتھ ہی اس کی نعت ’جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے‘، ’اے رسول ؑ امین خاتم المرسلینؑ‘،’ قصیدہ بردہ شریف ‘ اور دیگر نعتیں بے حد مقبول ہوئیں۔کسی نے خوب کہا ؂
محفل میلاد سجائی گئی ہے عرش پر
ثناخواں زمیں سے بلا گیا ہے

اسی دوران اس نے بوتیک کا کاروبار شروع کیا اور ’’جے ڈاٹ ‘‘ کے نام سے بوتیک متعارف کرایا، اس کی بوتیک کے کپڑے بہت معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ مہنگے بھی ہوتے ہیں۔ یہ اس کا کاروبار تھا، نعتوں کے ساتھ ساتھ ٹی وی چینلز پر مختلف مذہبی پروگرام بھی کرنے لگا، وہاں بھی اسے پذیرائی ملی اور وہ ایک مقبول ٹی وی پروگرامر کے طور پر جانا جانے لگا، خاص طور پر رمضان المبارک میں سحری اور افطار کی نشریات، اسی طرح مختلف مذہبی تہواروں پر خاص پروگرام کیا کرتا تھا۔اے آر وائی پر وسیم بادامی کے ساتھ اس کی جوڑی مشہور ہوگئی تھی۔ جنید ہر اعتبار سے اپنی ظاہری قد و قامت، وضع قطع، حسن و مرتبہ اور علمیت و قابلیت میں یقینا بادامی سے آگے ہی تھا لیکن بقول وسیم بادامی جنید نے کبھی اس بات کا احساس نہ ہونے دیا وہ ہمیشہ اُسے سبقت دے کر، بڑھا کر ، پیار و محبت سے پروگرام کیا کرتا۔ محنت ، خلوص، شفقت، پیار و محبت سے پیش آنا اس کا معمول تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے زندگی میں کبھی کسی کو غلط مشورہ نہیں دیا۔ اس کی خدمات پر حکومت پاکستان نے اسے تمغہ امتیاز سے بھی نوازا تھا۔

جنید جمشید بہ صلاحیت اور خدا داد صلاحتوں کا مالک تھا ۔ موسیقی سے پرہیز گاری کی جانب اس کا سفر آسان نہیں تھا۔ ایسی مثالیں مسلم دنیا میں ملتی ہیں کے آزاد خیال ، بے پروا، کسی بھی شعبہ میں بے حد مقبول و معروف شخصیات کو ہدایت ملی اوروہ جنید کی طرح مذہب کی جانب راغب ہوگئے۔ جنید چترال جس تبلیغی جماعت میں شامل ہونے گئے تھے وہ تبلیغی جماعت معروف کرکٹر سعید انور کی جماعت تھی، سعید انور اس جہاز میں واپس نہ آئے اس لیے کہ ان کے لیے اﷲ کاحکم کچھ اور ہوگا، ان سے ابھی اﷲنے تبلیغ کے کچھ اور کام لینا ہوں گے۔سعید انور1980 میں تبلیغی جماعت میں شامل ہوگئے تھے۔ان کے علاوہ دیگر کھلاڑی مشتاق محمد، انضمام الحق بھی تبلیغی جماعت میں شامل ہوچکے ہیں۔ اسی طرح مذہب اور موسیقی سے وابستگی کی مثالیں بھی موجود ہیں جیسے امیر خسرو دہلوی بیک وقت قرآن ، حدیث ، فقہ اور منطق کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فقید المثال موسیقار بھی تھے۔جنید ایک متحرک قسم کا انسان تھا، زندگی میں کچھ کرجانے کی دھن اس پر سوار تھی، اپنے اسی ارادہ پر اس نے عمل بھی کیا،اپنے ایک ٹی وی انٹر ویو میں اینکر نے پوچھا کہ کوئی ایسا کام جس کے کرنے کے لیے آپ سوچتے ہوں کہ کروں یا نہ کروں؟ ا س سوال کے جواب میں جنید نے برجستہ جواب دیا کہ ’سیاست‘ میں سوچتا رہتا ہوں کہ سیاست میں آؤں یا نہیں۔اس کی اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر سیاست سے قربت پائی جاتی تھی، سماجی کاموں کی جانب وہ آچکا تھا، کراچی شہر کی صفائی ستھری کے لیے اس نے مہم شروع کی تھی جس میں اس نے عملی حصہ بھی لیا تھا۔ بہت ممکن ہے کہ وہ مستقبل میں سیاست میں بھی قدم رکھ لیتا۔ سیاست کے حوالے سے جنید نے اپنے اس انٹر ویو میں ایک اچھی بات یہ بھی کہی کہ ’حکومت اس کو ملنی چاہیے جو حکومت نہ لینا چاہتا ہوں، جو حکومت حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہوں اور اسے حکومت مل بھی جائے تو وہ عوام کو کچھ نہیں دے گا ، اس لیے حکومت اسے دو جو اس سے دور بھاگتا ہو تاکہ وہ عوام کی فلاح کے لیے کام کر سکے‘۔ اپنے اسی انٹر ویو میں اس نے اس بات کا بھی اعتراط کیا کہ دین اور تبلیغ کی جانب اُسے مائل کرنے میں مولانا طارق جمیل کا اہم کردار ہے۔ جمشید کے ساتھ کچھ زیادتیاں بھی ہوئیں، بعض لوگ ائر پورٹ پر اس کے ساتھ کشاکش بھی ہوئے ، تلخ کلامی یہاں تک کے دست بدستی بھی کی لیکن اس نے ان تمام کو در گزر کردیا اس کا کہنا تھا کہ میں ان کی ہدایت کے لیے دعا ہی کرسکتا ہوں، جس قسم کا الزام اس پر لگایا جا رہا تھا ، عشق مصطفیٰ سے سرشار کوئی بھی مسلمان ایسا کرنے یا کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، یقینا کسی غلط فہمی کی بنا پر ایسا ہوا ہوگا۔ وہ اﷲ کے دین کی تبلیغ کے لیے سفر پر تھا اسی کے راستے میں منصب شہادت سے سرفراز ہوا۔مولانا طارق جمیل نے اس حوالے سے کہا کہ ’صفائیاں دیتے دیتے تھک سے گئے تھے اب آرام سے سو جانا اب کوئی تھپڑ نہیں مارسکے گا اب کوئی بندہ آپ سے لاتعلقی کا اعلان بھی نہیں کر سکے گا‘۔ جمشید کی زندگی پر حکیم محمد طارق محمود نے ایک کتاب بھی بعنوان ’’جنید جمشید: گلوکاری سے پرہیز گاری تک‘‘ مرتب کی ہے۔ کوشش کے باوجود میں اس کتاب کو دیکھنے میں کامیاب نہ ہوسکا ۔ نیٹ پر اس کے بارے میں دیکھا ہے۔ اس کتاب میں یقینا جنید کی زندگی کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہوگا۔

حادثے کی تفصیلات کہ حادثہ کیوں، کیسے اور کس کی غلطی سے ہوا میں جانا مناسب نہیں لگ رہا، اس قبل بھی متعدد حادثات پاکستان میں ہوچکے ہیں، ہر حادثے کے حکام متعلقہ کی جانب سے ہمدری، دکھ اور تحقیقات کی باتیں ہوتی چلی آئی ہیں، کچھ ہی عرصے بعد سب پسِ پردہ چلا جاتا ہے، تحقیق ہوتی بھی ہے، رپورٹ آتی بھی ہے اور فائلوں کی نظر ہوجایا کرتی ہیں۔ اب بھی ایسا ہی ہوگا، ائیر لائن کا کیا حال ہے، اس پر بھی بات کرنا بے سود ہے، بے شمار ہوگ اس سفید ہاتھی کے بارے میں لکھ چکے ہیں۔مَیں نے بھی ایک کالم ’پی آئے اے: چلے تو نقصان نہ چلے تو اُس سے زیادہ نقصان ‘ تحریر کیا تھاجو انٹر نیٹ پر آن لائن موجودہے۔ ہماری حکومتوں نے اگر پی آئی اے اور دیگر اس نوعیت کے بڑے صنعتی اداروں کی جانب سنجیدگی سے توجہ دی ہوتی تو آج یہ ادارے سسکتی زندگی نہ گزار رہے ہوتے۔ جس جہاز کو حادثہ پیش آیا یہ ہر اعتبار سے اچھی ساکھ کا حامل ہے، اس نے فوکر تیاروں کی جگہ لی تھی، چھوٹے شہروں کے مابین، کم مسافروں کے لیے یہی طیارے خدمات انجام دے رہے ہیں، نہ ہی پائیلٹ کوئی غلطی کرے گا، اسے مسافروں کے ساتھ ساتھ اپنی جان بھی تو عزیز ہوتی ہے۔ ایسی صورت حال میں کپتان اور عملہ ایمرجنسی گیٹ سے پیراشوٹ کے توسط سے چھلانگ لگا سکتا ہے لیکن فرض شناس پائیلٹ اور دیگر عملے نے ایسا نہیں کیا ، پائیلٹ نے جہاز کو آبادی پر گرنے بھی نہیں دیا بلکہ وہ جہاز کو پہاڑ کی جانب لے گیا۔ ایک عینی شاہد کا کہنا تھا کہ وہ حادثہ کے مقام پر پہنچنے والوں میں پہلا شخص تھا ، آگ پر قابو پالیا گیا تو اس نے دیکھا کہ کہ پائیلٹ اپنی ہی سیٹ پر جلا ہوا موجود تھا، گو یا پائیلٹ کو جب یہ یقین ہوگیا کہ اب جہاز کو کریش ہونا ہی ہے تب بھی اس نے جہاز سے چھلانگ لگاکر اپنی جان بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کا یہ عمل اسے کسی بھی طور موردِ الزام نہیں ٹہراتا، فنی خرابی کی کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے، جب اﷲ کی بنائی ہوئی مشین ’انسان‘ میں فنی خرابی کسی بھی وقت ہوجاتی اس کے نتیجے میں وہ دنیا کو خیر باد کہہ
دیتا ہے تو یہ جہاز تو انسانی فعل کا نتیجہ ہے۔ اس پر تو کسی طور اعتبار اور بھروسہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔

کہا جارہا ہے کہ جنید کچھ عرصہ سے اپنی گفتگو، وعظ،، تبلیغ اور نماز میں جوباتیں کررہا تھا اس میں’ موت‘کا ، آخرت کا، اﷲ کے پاس جانے کا ذکر زیادہ تھا۔ جنید کے دوست ، ساتھی شعیب اور وسیم بادامی نے اس جانب توجہ دلائی،سہیل صاحب کا کہنا تھا کہ جنید کی باتوں میں مرنے کا ، آخرت کا ذکر زیادہ تھا ،انہوں نے یہ راز بھی افشا کیا کہ جنید قرآن مجید حفظ کر رہے تھے، ابتدائی چند پارے حفظ بھی کر چکے تھے، وہ تہجد میں حفظ کیا کرتے تھے، اس بات کا ذکر انہوں آج تک کسی سے نہیں کیا تھا۔ وسیم بادامی نے اپنے ایک پروگرام میں جنید جمشید کی ایک ویڈیو دکھائی جس میں وہ اپنی شہادت سے پانچ روز قبل یعنی جمعہ 2دسمبر کے دن جمعۃ المبارک کی نماز کی امامت کراتے ہوئے پہلی رکعت میں قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ کی آیات(153۔155)تلاوت کررہے تھے ۔ ان آیات کا ترجمہ یہ ہے۔’’اے لوگو! جو ایما ن لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو۔ اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور جولوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں اُنھیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمہیں اُن کی زِندگی کا شعُور نہیں ہوتا۔ اور ہم ضرور تمہیں خوف وخطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔ اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اورجب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ’’ہم اﷲ ہی کے ہیں اور اﷲ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ انہیں خوشخبری دے دو۔ اُن پر ان کے رَبّ کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اُ س کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں ‘‘۔ایسا اکثر دیکھا گیا ہے کہ دنیا سے جانا والا کچھ نشانیاں ظاہر کرتا ہے لیکن ان کا خیال ہمیں اس کے رخصت ہوجانے کے بعد ہی آتا ہے، یہ نشانیاں ہیں نیک و صالح انسان کی۔ جنید اور ا س ساتھ تمام ساتھیوں کو شہادت کا درجہ نصیب ہوا۔ ایک حدیث مبارکہ ہے کہ’ پانی میں ڈوب کر ، آگ سے جل کر، پیٹ کی بیماری میں مبتلا ہوکر اور طاؤن کی بیماری سے مرنے والے شہادت کا رتبہ پاتے ہیں‘۔ یہ حدیث مولانا طارق جمیل نے بیان کی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ ایک شخص جو شہرت کی بلندیوں پر تھا اپنا سب کچھ چھوڑ کر اﷲ کی راہ میں نکل کھڑا ہوا۔ ایک وقت ایسا تھا کہ بچوں کی فیس کے پیسے بھی نہیں تھے ۔ پھر اﷲ نے ہاتھ پکڑ ا اور دوبارہ سب کچھ دے دیا۔ اُن کی وجہ سے کتنے ہی نوجوان اسلام کی طرف راغب ہوئے ۔ انہوں نے کبھی کسی کے خلاف کچھ لفظ نہ بولا حالانکہ مخالفین بہت کچھ بول جاتے تھے۔ آج ہر مکتبہ فکر کے لوگ ان کی شہادت پر غمزدہ ہیں لیکن وہ اﷲ کی راہ میں شہید ہوگئے اور آجکل کی نئےء جنریشن کے لیے مثال قائم کر گئے۔الوداع جنید بھائی اﷲ آپ کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنائے اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے تمام لوگوں کی مغفرت کرے آمین‘۔پرودگار جنید جمشید کو جس نے موسیقی سے پرہیز گاری اور پھر شہادت کا درجہ پایا اور دیگر شہدا کے درجات بلند کرے، ان کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ور جملہ لواحقین کو اس صدمے کو برداشت کرنے کی ہمت و طاقت عطافرمائے آمین۔(12دسمبر2016)
 
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437627 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More