غیروں سے کیا گلہ

امریکی اشرافیہ اوریورپی ممالک کی سول سوسا ئٹی اس حقیقت کواچھی طرح جا نتی ہیں کہ امریکی حکومت کی مسلط کردہ جنگ''وارآن ٹیرر''دراصل امریکاکاتراشاہواوہ مصنوعی غبارہ ہے جسے بے پناہ وسائل اورگوئبلزآف جر منی کی روح سے کشیدکئے ہوئے مسلسل پروپیگنڈے کی غلیظ ہوازندگی عطا کر رہی ہے۔یورپی حکومتوں کیلئے اپنے مفادکیلئے یہ اصطلا ح استعما ل کرناتوبعیدازقیاس نہیں ہے ،بد قسمتی سے بہت سے محکوم ذہنیت کے اسلا می ممالک بھی اپنی بے کرداربداعما لیوں کے نتیجے میں ا پنے خلاف ابھر نے والی احتجاجی تحا ریک کوکچلنے کیلئے بے دریغ مسلح طاقت کے استعمال کو دہشتگردی کے خلاف جنگ یاامریکی پیروی میں''وارآن ٹیرر'' قراردیتے ہو ئے کوئی ندامت محسوس نہیں کرتے۔یہا ں تک کہ کشمیر،فلسطین افغانستان اورعراق میں بھی غیر ملکی تسلط اورقتل وغارت کے خلاف برسرپیکارحریت کی تحاریک اوراپنے وطن کی آزادی کیلئے جاری مسلح جدوجہدکو بھی دہشتگردی اوراسے کچلنے کیلئے ہر اقدام کوبھی''وارآن ٹیرر''کانام دیاجاتاہے۔

١٥جولائی٢٠٠٨ء کو اسپین کے دارلحکومت میڈرڈ میں منعقدہ بین الاقوامی بین المذاہب کانفرنس میں سعودی عرب کے فرمانرواخادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعز یزنے خطاب کرتے ہوئے نہائت درست طورپرنشاندہی فرمائی تھی کہ انتہاپسندی اوردہشتگردی امریکی اورمغربی ممالک کی وضع کردہ تراکیب ہیں جن کااسلام سے ہرگزکوئی تعلق نہیں ہے۔اگرچند گمراہ لوگ خودکش حملوں سمیت اسلام اور مسلما نوں کے خلاف نفرت پیدا کر نے کیلئے ایسے افعال کے مر تکب ہوئے ہیں تو یہ ان کی ا نفرادی سوچ اورذاتی فعل ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں اورایسے افرادکوبالفعل مسلمان یااسلامی فدائین وغیرہ متعین کر لینانہائت غلط فیصلہ ہے۔میڈرڈمیں ہو نے والی یہ سہ روزہ کا نفرنس میں د نیا بھر سے مسلمانوں،یہو دیوں،عیسائیوں اوردیگرمذاہب کے ممتازدانشوروں اورمذہبی قائدین نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی۔اس کا نفرنس کاانعقادرابطہ عالم اسلا می کے زیراہتمام کیاگیاتھاجس کامقصداسلام اورمسلما نوں کے خلاف اسلام دشمن قوتوں،امریکااورمغربی حلقوں کی طرف سے پھیلا ئی جانے والی شرانگیزغلط فہمیوں کاازالہ کرناتھا۔ اس کانفرنس کی اہمیت کااندازہ اس سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ دنیابھرکے مذاہب سے تعلق رکھنے والے نمائندہ افرادکے علاوہ ایک سوپچاس کے قریب صحا فی بھی مختلف ذرائع ابلاغ کی نما ئندگی کرنے کیلئے اس کانفرنس میں موجودتھے۔اس امرکا واضح تجزیہ کیا گیا کہ بعض طاقتورممالک کی طرف سے کمزوراورنا قابل مزاحمت ملکوں پربلااشتعال وجوازجارحانہ قبضے،بعض ملکوں کے عوام کے آئینی اورقانونی حقوق پرڈاکہ ڈالنے،انہیں آزادی سے محروم کرنے اور ان کے وسائل پرقبضہ کرنے کے نتیجے میں مزاحمت کاجوعمل شروع ہوتاہے،اسے انتہاپسندی اوردہشتگردی میں ہرگزشامل نہیں کیاجا سکتا۔یہ ان اقوام کی طرف سے اپنے آئینی اورقانونی حقوق کے حصول کی جدوجہدہے۔اس حوالے سے دنیاکی سپرطا قتوں اورخاص طورپرمغربی ملکوں کواپنی سوچ،روش اورپالیسی میں منا سب تبدیلی لاناہوگی۔ حقائق پرمبنی اس خطاب کے اختتام پرسب مذاہب کے قا ئدین،دانشوروں،تمام شرکاءاورمبصرین نے اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر دادو تحسین پیش کی تھی، جس کا بدیہی مطلب ان حقائق کا اعتراف تھاکہ بیان کردہ وضاحت احوال ان تمام گمراہ کن،اسلام مخالف موادات کی تشہیر محض معاندانہ رویوں کی اشاعت و تبلیغ کے سوا کچھ نہیں۔

غالباًامریکااورکچھ مغربی ممالک کوکیمونزم کی پسپا ئی کے بعداپنی سرمایہ دار پالیسیوں اوراستعماری قوتوں کومتحرک رکھنے کیلئے کسی ایک خود ساختہ ''دشمن'' کی موجودگی وقت کی ضرورت لگتی ہے لہندا مشترکہ حریف کے طور پرمسلم ممالک اوراحیائے اسلام کی تحریکوں کومٹانے کیلئے خوف ودہشت اور حقارت کی فضاپیداکرناحصول مقاصدکانامعقول ذریعہ بن گیاہے۔دہشتگردی،انتہا پسندی اورجارحیت اسلام کے ہم معنی قرارپارہے ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ اس کی سیاسی اورمعا شی وجوہات اظہرمن الشمس ہیں۔یہ رائے اوریقین بھی کسی حد تک موجود ہے کہ دہشتگردی، انتہاپسندی اوربنیادپرستی
وغیرہ کاواویلامچا نے والے امیرممالک غربت اورناداری،افلاس اورکسمپرسی کے با عث پھیلنے والی بھوک کے ہا تھوں ہونے والی ہلا کتوں کی آہ وبکااور احتجاج کاگلاگھونٹنے کی سازش کے طورپرکرارہے ہیں۔بنیادپرستی سے دہشت گردی تک کے تمام رحجانات وہی استعماری قوتیں پھیلارہی اوراستعمال کررہی ہیں جودنیابھرکے وسائل پرغاصبانہ قبضے کے ذریعے پوری انسانی آبادی میں غربت اورناداری پھیلانے کی مجرم ہیں۔اس کے خلاف کسی قسم کے صدائے احتجاج بلندہونے سے روکنے کیلئے مغربی طا قتوں کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی،مکروہ سیاسی چال اوران کے بہترین مفاد میں ہے کہ اقوام عالم کی توجہ مذہبی بنیاد پرستی اورنام نہاد دہشتگردی پر مرکوزرکھی جائے اوریہی وہ لائحہ عمل اورطریقہ کارہے جس کے ذریعے مغربی طاقتیں اوراستعماری قوتیں دنیا بھرکے معدنی اورمالی،اقتصادی اورمعاشی وسائل پراپناجارحانہ قبضہ جاری رکھنے میں کامیاب نظر آتی ہیں۔

ان حقائق کوتسلیم نہ کرناپرلے درجے کی خودفریبی ہو گی کہ امریکی استعمار کیلئے اپنی عسکری قوت اوربرتری کومتحرک رکھنااوربیرونی دنیاکے موہوم خطرات یعنی خودساختہ''دشمن''کی موجودگی حصول مقاصدکاایک ذریعہ ہے۔ مسلم ممالک پربراہ راست قبضہ اوران سے ملحق مزید مسلم ممالک کے وسائل کا اپنی جارحیت کی ترویج کیلئے استعمال ان ممالک پراپنے تسلط کواپنی عسکری قوت کاخراج ماناجائے گاجواپنے جرم ضعیفی کی سزا،مرگ مفاجات کی صورت میں اداکررہے ہیں ۔اسرائیل کاناجائزوجودعرب اورملحق افریقی مسلم ممالک کے سینے کاخنجرتصورہوتاہے۔اب عراق پرمکمل تسلط، بحرین اورکویت میں امریکی چھا ؤنیوں کاقیام تمام عرب وعجم کی پشت میں مزیدزہرآلودخنجروں کے مترادف ہے۔پچھلی سات دہائیوں سے کشمیری ایک لاکھ سے زائداپنی جانوں کانذرانہ پیش کرنے کے باوجود اپنے بنیادی حقوق کیلئے دہائی دے رہے ہیں جس کاان سے اقوام عالم نے اپنے سب سے بڑے ادارے اقوام متحدہ میں کیاتھااوربدنصیبی تویہ ہے کہ حرمین کے پاسبان کی طرف سے بلائی گئی مسلم سربراہ کانفرنس میں نہ صرف مظلوم کشمیریوں اورفلسطینیوں پرہونے والے مظالم کاکوئی تذکرہ نہ ہوا بلکہ قصرسفیدکے فرعون نے برملاان تمام حکمرانوں کے سامنے ظالموں کو مظلوم قراردے دیا، ٹھیک اسی طورافغانستان میں مستقل امریکی عسکری قوت اورکاسہ لیس حکومت کی موجودگی وسط ایشیائی مسلم ریاستوں اوراس خطے کیلئے ایک زندہ خطرہ رہے گا۔

ہمارے ہاں حصول اقتدارکیلئے محاذ آرائی پچھلی چھ دہائیوں سے جاری رہی کہ طالع آزماؤں نے آمرانہ اور نام نہاد جمہوری نظام حکومت کے تحت برسوں اقتداراورحاکمیت کابلاجوازاوربلا اختیار جابرانہ استعمال اورملکی وسائل کابے دریغ استحصال کیااورہردورکے اختتام پر قوم کوشکست خوردہ صاحبان اقتدار کے ہا تھوں قومی وسائل اور معیشت کی تباہی کا مژدہ سنایا جا تارہا لیکن نئے ادوار کی ابتداوہی پرانے چہرے نئے نقابوں کے ساتھ کرتے چلے آرہے ہیں جن کی ترجیحات کاتعین ہمیشہ غیرملکی سرپرست قوتیں کرتی چلی آئی ہیں اوریہیں سے شکوک شبہات کی ابتدااورانتہاکے باعث وطن عزیزمیں کبھی خالص محب وطن قومی حکومت قائم ہو نے کے امکا نات کی روشن کرنیں تاریکیوں میں ڈوبتی ہوئی محسوس ہو تی ہیں کیونکہ وہ اقتدار کےحصول کیلئے ووٹ توعوام سے مانگتے ہیں لیکن اس کومحفوظ اورقائم ودائم رکھنے کیلئے کسی ایک استعماری قوت کی چوکھٹ پراپنی جبین نیازجھکانے میں اپنی عافیت جانتے ہیں، بلا شبہ ان دنوں صیادوں نے اپنی ترجیحات کے سبب شکاری جال کانام تبدیل کرکے ''وار آن ٹیرر''رکھ دیاہے جس کےنتیجے میں اپنے ہی ہم وطن بے نشان،بے گھراوربے وطن ہورہے ہیں اورنئی نئی خیمہ بستیوں میں زندگی کی ہرآسائش سے محروم سینوں میں اپنے باپوں،بھائیوں اوربیٹوں کی کربناک موت کے زخم چھپائے زندگی گزارنے پرمجبورکردیئے گئے ہیں لیکن جوبھی اس نظام سے بغاوت کرکے اپنی تقدیرخوداپنے ہاتھوں بدلنے کی کوشش کرے گا،اب ان کی قسمت میں جہاں ان کوخوداپنے ہاں مذہب کی بدنامی کاسبب قراردیاجائے گابلکہ دہشتگرد قراردیکر نیست ونابودکردیاجائے گا۔
غیروں سے کیاگلہ ہوکہ اپنوں کے ہاتھ سے
ہے دوسروں کی آگ میرے گھر لگی ہوئی

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 347270 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.