میں ٹیچرز کو پسند نہیں کیونکہ میں گولڈ میڈلسٹ ہوں ۔۔ ایم فِل میں دو بار فیل کی جانے والی طلبہ کی افسوس ناک کہانی

image

پڑھائی زندگی میں سب سے زیادہ ضروری ہے اور ہر موڑ پر اگر انسان کے کام کچھ آتا ہے تو وہ اس کی پڑھائی ہی ہے۔ چاہے وہ مرد ہو یا عورت اور ہمارے مزہب میں تو تعلیم کی اہمیت سب سے بڑھ کر ہے۔ ہمارے ہاں والدین اپنے بچوں کو بچپن سے سکھاتے ہیں کہ بیٹا فرسٹ آنا ہے، فرسٹ آؤ گے تو انعام ملے گا اور اگر فیل ہو جاؤ گے تو تمہیں کچھ بھی نہیں ملے گا۔ یوں فرسٹ آنے کی لگن بچوں میںن شروع ہی سے ہوتی ہے اور ہر موڑ پر بچوں کو یہی خیال آتا ہے کہ صرف فرسٹ آنے کے لئے پڑھنا ہے۔

بالکل اسی طرح ایک قابل اور لائق ، پڑھنے والی ذہین بچی کی کہانی ہم آپ کو ہماری ویب میں بتانے جا رہے ہیں جس نے پڑھائی میں دو بار ناکامی کے بعد ہماری ویب کو بتایا کہ: '' میں شروع سے ہی پڑھائی میں فرسٹ آتی تھی، کبھی بھی فیل نہیں ہوئی، میٹرک میں بھی اے ون گریڈ سے پاس ہوئی اور انٹر میں بھی اے گریڈ حاصل کیا، پھر جامعہ میں داخلہ ہوا اور آنرز میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے گولڈ میڈلسٹ سے نوازا گیا اور بالکل اسی طرح ماسٹرز میں بھی پہلی پوزیشن حاصل کرکے گولڈ میڈل حاصل کیا، اتنی محنت سے پڑھا لکھا، سارا کچھ کیا، مگر جب باری ایم فل میں داخلے کی آئی تو دو مرتبہ قسمت آئی، لیکن قسمت کی ستم ظریفی ایسے اساتذہ کے ہتھے چڑھی جن کو صرف اپنی جان پہچان اور سورس کے لوگوں کو ایم فل میں بھرتی کر نا ہوتا ہے، میرٹ چاہے جائے ​بھاڑ میں ۔۔ ''

طالبہ مذید بتاتی ہے کہ: 'پہلی مرتبہ ٹیسٹ کلیئر کیا اور انٹرویو کا وقت آیا تو ڈپارٹمنٹ کی چیئر پرسن کے سامنے گئی تو رسمی گفتگو جاری تھی، سوال جواب کا سلسلہ جاری تھا، مگر پھر اچانک ڈپارٹمنٹ کی چیئر پرسن کی ساتھی اساتذہ نے ان کا نام پکار کر کہا: '' چھوڑو اس کو! یہ ایوونگ پروگرام کی ہے اور گولڈ میڈلسٹ ہوگی اپنے لئے، ہمارے کس کام کی، چھوڑو دوسرا بندہ بلاؤ۔''

یہ جملے سُن کر میرے اوسان خطا ہوگئے کہ یہ وہی اساتذہ ہیں جن کے ساتھ 4 سال پڑھا، جن کو اس قدر عزت دی کہ اگر کسی نے ان پر کوئی الزام تراشی بھی کی تو انہی اساتذہ کے حق میں آواز اٹھائی اور اپنی دوستیاں ختم کردیں۔ لیکن یہ لوگ اس قدر مطلبی ہیں کہ اب اگر میں ان کے کسی کام نہیں آسکتی، یا میں کوئی اونچے تعلقات نہیں رکھتی تو مجھے میرٹ کی بناء پر داخلہ بھی نہیں دیا گیا۔

چلیں اس مرتبہ یہ سوچ کر صبر کرلیا کہ وہ اساتذہ ہیں، وہ یقیناً معلم ہیں ، انہوں نے اگر مجھے داخلہ نہیں دیا تو یہ سوچ کر نہیں دیا ہوگا کہ شاید میں اہل نہیں ہوں گی، اس کے بعد اگلی مرتبہ پھر سے ایم فل داخلہ کے لئے اپلائی کیا، یہاں بات جب انٹری ٹیسٹ کی آئی تو مکمل تیاری سے گئے، لیکن وہاں جا کر تو حال ہی کچھ اور دیکھا۔

دوسری مرتبہ کا منظر کچھ ایسا تھا کہ: '' امیدوار کی لسٹ اتنی لمبی تھی اور کمرہ امتحان میں موجود صرف 24 طالبِ علم تھے۔ آدھے سے زیادہ لوگ غائب تھے، ٹیسٹ پیپر دو حصوں میں مشتمل تھا ، بہرحال ٹیسٹ دے کر اتنا اطمینان تھا کہ اب کلیئر ہو جائے گا اور پھر اس مرتبہ تو داخلہ ہو جائے گا۔ لیکن جب رزلٹ آیا تو کچھ اس طرح کہ کوئی آفیشل اعلان ہوا نہ کوئی ای میل آئی، البتہ جب دوست کے کہنے پر ایڈمیشن پورٹل آن کیا تو معلوم ہوا کہ جناب رزلٹ آچکا ہے اور میرا سلیکشن نہیں ہوا۔ جبکہ گھر آکر ان سوالات کے جواب دیکھے تو وہ 60 فیصد کے قریب درست تھے، یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ جو طلباء ٹیسٹ میں موجود ہی نہ تھے ان کا کلیئر ہوگیا ہے اور میرا نہیں ہوا۔ ''

ان تمام باتوں سے دل مطمئن نہ ہوا، تو اپنی سہیلی جوکہ میرے ساتھ 2 سال سے اپلائی کر رہی ہیں، ان سے رابطہ کیا اور صورتحال جانی تو ان کے بھی ملے جلے تاثرات تھے۔ جس پر یہ واضح ہوگیا کہ ایم فل کے ایڈمشن میں اساتذہ صرف اور صرف ان لوگوں کو ایم فل میں داخلہ دیتے ہیں جو ان کی جان پہچان کے لوگ ہوتے ہیں۔ اس بات کا پختہ یقین اس وقت ہوا جبکہ ایک قریبی ساتھی جس کو 4 سال تک میں نے پڑھایا یہاں تک کہ اسائنمنٹ تک بھی خود اپنے ہاتھ سے کرکے دیئے، اس کا داخلہ ہوگیا تو معلوم چلا کہ اس نے کسی بڑے چینل کے مشہور صحافی اور بیوروچیف سے بات کی ہوئی تھی کہ میرے داخلے کے لئے اساتذہ سے بات کی جائے اور یوں اس کا داخلہ ہوگیا۔

ان کی یہ باتیں چونکہ خُفیہ تھیں اور معلوم ہونے پر مریا کلیجہ پھٹ گیا، ارے یہ کیا تعلیم کا حال کردیا ہے؟ وہی اساتذہ جو 4 سال تک میری قابلیت کی تعریفیں کرتے ہوئے نہیں تھک رہے تھے، انہوں نے یوں نظریں پھیریں کہ جب جب دوبارہ ڈپارٹمنٹ جانے کا اتفاق ہوتا تو وہ سلام کا جواب بھی اس انداز میں دیتے ہیں کہ صاف پتہ چلتا ہے چور کی داڑھی میں تنکے ہیں۔

اس سب کے بعد میرا بھی دل چاہتا ہے کہ اساتذہ کی کرپشن اور جعلی چہروں کو بے نقاب کروں، یہ واضح کروں کہ کس طرح ڈپارٹمنٹ کی چیئر پرسن اس سیٹ پر براجماں ہوئیں، کس طرح یہ اپنے قابل اساتذہ کا مستقبل برباد کر رہے ہیں اور سفید پوش بنے گھوم رہے ہیں۔


Click here for Online Academic Results

About the Author:

Humaira Aslam is dedicated content writer for news and featured content especially women related topics. She has strong academic background in Mass Communication from University of Karachi. She is imaginative, diligent, and well-versed in social topics and research.

مزید خبریں
تعلیمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.