گزشتہ دنوں پاکستان کے مشہور گلوکار ابرار الحق نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو شئیر کی جس میں ان کی چھوٹی سی بیٹی اپنے ننھے منے ہاتھوں سے روٹی بیل کر توے پر ڈال رہی ہے۔ ساتھ ہی ایک خاتون کی آواز بھی آرہی ہے جو اسے روٹی پکانا سکھا رہی ہیں۔
بظاہر تو اس ویڈیو میں ایسا کچھ نہیں ہے جس پر تنقید کی جائے لیکن پوسٹ کا کیپشن جس میں لکھا ہے “تربیت کی یہی صحیح عمر ہے“ جہاں کچھ لوگوں کو اچھا لگا وہیں کچھ صارفین کو بے حد ناگوار گزرا۔
تنقید کرنے والے صارفین میں سے احمد پاشا کا کہنا ہے کہ “اس عمر میں بچوں کو خوداعتمادی کی ضرورت ہوتی ہے ٹریننگ کی نہیں“
جبکہ ایڈیڈیاس نامی صارف لکھتی ہیں “یہ چائلڈ ابیوز ہے اور اگر آپ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بچیوں کو اتنی چھوٹی عمر سے گھر کے کام کرنے چاہئیں تو یہ صنفی امتیاز ہے“
ثمرینہ ہاشمی ٹوئٹ کرتی ہیں “اپنے بیٹے کو بھی سکھائیے گا“
حیدر لکھتے ہیں “بٹیا کو بٹیا رہنے دو خدارا۔ ذمانہ بدل چکا ہے کیوں ابھی سے معصوم کو روٹی بیلن کے چکر میں لگا رہے ہو۔ دنیا کی بچیاں تعلیم و ترقی میں مگن ہیں اور ہمارے ملک میں روٹی بیلن کی ٹریننگ ہورہی ہے۔ سوچ کو بدلو، دیہات سے آگے نکلو، بیٹی اور بیٹے میں فرق مت رکھو خدارا“
جہاں کئی لوگوں نے ابرار الحق پر تنقید کی وہیں کچھ لوگوں نے انھیں سراہا بھی
ڈاکٹر ندیم اختر، ابرار الحق کے سپورٹ میں لکھتے ہیں “اس ویڈیو میں کچھ غلط نہیں ہے۔ میں بھی اپنی بیٹی کی ایسی ویڈیوز بنا کر خاندان میں شئیر کرتا ہوں۔ مجھے خود بھی کھانا پکانا پسند ہے“
ساجد خان کہتے ہیں “بھائی پیار سے پیاری بچی روٹی بنا رہی ہے باپ نے پیار سے ویڈیو بنا کر ہمارے ساتھ شئیر کی اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ آخر اس کا غلط مطلب کیوں نکالا جارہا ہے؟
جہاں تک بات ٹریننگ کی ہے تو اس کی بنیاد بچپن سے رکھنا صحیح ہے کیونکہ تحقیق کے مطابق3 سے 5 سال تک کی عمر تک بچوں میں سیکھنے کی جستجو زیادہ ہوتی ہے اور یہی وہ وقت ہے جب عادتیں پختہ ہوتی ہیں۔ ان تمام باتوں کے ساتھ ایک حقیقت یہ ہے کہ بچوں کو سب سے زیادہ ضرورت خوداعتمادی اور تعلیم کی ہوتی ہے جو سب سے زیادہ ان کے والدین ہی انھیں دے سکتے ہیں۔ جہاں تک بات کھانا پکانا سکھانے کی ہے تو یہ ایک ہنر ہے جو بچہ اور بچی دونوں کو آنا چاہئیے البتہ سکھاتے ہوئے اس بات کا دھیان رکھا جائے کہ بچوں کے ساتھ کوئی بڑا موجود ہو جو ان کی دیکھ بھال کررہا ہو۔