وفات سے پہلے آخری بیان میں کیا کہا؟ جنات کا جنازہ پڑھانے والے مفتی زر ولی خان حیرت میں مبتلا تھے، دیکھیے

image

سوشل میڈیا پر مشہور شخصیات اکثر و بیشتر ایسی کئی باتیں کر جاتی ہیں جن پر کوئی دھیان نہیں دے پاتا مگر اُس بات کا اندازہ ان کی موت کے بعد ہوتا ہے۔

ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو مفتی زر ولی خان کے آخری بیان سے متعلق بتائیں گے جس میں وہ غیر معمولی نظر آئے۔

مفتی زر ولی خان کا شمار پاکستان کے ممتاز اور اہم علمائے کرام میں ہوتا تھا، کئی مذہبی کتابوں کے مصنف بھی تھے اور اسکالر بھی۔ جبکہ وہ جامعہ احسن العلوم کے بانی بھی تھے۔

سوشل میڈیا پر مفتی زر ولی خان کا ایک بیان اپلوڈ کیا گیا تھا جسے سوشل میڈیا صارفین آخری بیان کے طور پر تصور کرتے ہیں، ان کے چاہنے والے اس بیان کو سن کر نہ صرف جذباتی ہو جاتے ہیں بلکہ مذہبی روحانیت بھی بڑھ جاتی ہے۔

اس بیان میں مفتی زر ولی خان مسلمانوں کو آخرت کی تیاری سے متعلق بتا رہے تھے۔

اس بیان میں مفتی زر ولی انسان کو سچ کوبولنے کی ترغیب اور اس کے ثمرات کے بارے میں بتا رہے تھے، زکٰوۃ دو، رمضان کے روزے رکھو، نماز پڑھو،عہد شکنی نہ کرو، بے وفائی نہ کرو، مفتی زر ولی آخرت کے حوالے سے مسلمانوں میں جذبہ بیدا کر رہے تھے۔

اگلے ہی لمحے مفتی زر ولی کا کہنا تھا کہ میرے دوستوں اور عزیزوں تکالیف تو بہت ہیں، بڑی بڑی شخصیات اسپتالوں میں ہیں، اور جو نہیں ہیں ان کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا، لیکن اللہ سے خیر مانگی جائے۔

جبکہ مفتی زر ولی اس لیے بھی مشہور ہیں کہ انہوں نے ایک بار جنات کا جنازہ پڑھایا تھا، جب وہ اپنے ابتدائی دور میں امام ہوئے تھے اور مسجد کے ساتھ ہی ایک کمرہ تھا جس میں میں رہتا تھا، عشاء کے بعد ایک شخص آیا جو کہ کہہ رہا تھا کہ ہم جنازہ لائیں گے مگر تھوڑی دیر سے لائیں گے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مجھ سے غلطی ہوگئی مگر میں نے کہا کہ چلو ٹھیک ہے۔

لیکن جنازہ آیا ہے رات کو ڈھائی بجے، وہ بتاتے ہیں کہ میں وضو کر کے جیسے ہی کمرے سے باہر نکلا تو گھروں، دیواروں اور گلیوں میں لوگ ہی لوگ تھے۔ جبکہ جنازے سے متعلق مفتی صاحب بتاتے تھے کہ جنازہ کم از کم 20 گز لمبا تھا۔

مفتی صاحب کو اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ انسان کا جنازہ نہیں ہے، کیونکہ اس جنازے پر ایک سفید چادر لپٹی ہوئی تھی اور جنازے کی لمبائی بتا رہی تھی کہ یہ عام جنازہ نہیں، خیر مفتی صاحب نے ہمت کر کے نماز جنازہ پڑھانے کے لیے قدم بڑھایا کیونکہ وہ بتاتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ جیسے ہی میں نے صفیں سیدھی کرنے کو کہا تو وہ ایک دوسرے کے کندھے پر سر رکھ کر آگے کو دیکھ رہے تھے۔ جیسے ہی مفتی صاحب نماز جنازہ پڑھا کر کمرے کے دروازے کی جانب بڑھے تو انہیں دروازہ ہی غائب ملا گویا کسی نے دروازے کو پینٹ کر دیا ہو۔

وہ بتاتے ہیں کہ صبح تک حیرت انگیز نظارہ آنکھوں کے سامنے تھا۔ جنازے کو وہ لوگ اپنی ہتھیلی پر اٹھا کر لے جا رہے تھے، ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ایسے دے رہے تھے جیسے کہ بال بچے ایک دوسرے کے ہاتھ میں لیتے ہیں۔


About the Author:

Khan is a creative content writer who loves writing about Entertainment, culture, and Politics. He holds a degree in Media Science from SMIU and has been writing engaging and informative content for entertainment, art and history blogs for over five years.

مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.