پرانے زمانے میں شادی کے دن دلہن کا گھونگھٹ نکال کر اسٹیج پر بٹھایا جاتا تھا جسے اس کی شرم اور لاج سے تشبیہہ دی جاتی تھی۔ یہ رواج ابھی بھی عام ہے۔ دلہن کا نکاح اور رخصتی کے وقت گھونگھٹ گرا دیا جاتا ہے اور ایسا ہی کچھ بھارت میں بھی ہوتا ہے۔ حتیٰ کے جدید ترین مغربی ممالک میں بھی شادی کے وقت دلہن کا چہرہ چھپانا عام اور لازمی رسم ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ انگریز دلہنیں اپنا چہرہ کیوں چھپاتی ہیں۔
مغرب میں دلہن کا نقاب زیادہ تر سفید ریشمی یا نیٹ کا ہوتا ہے۔ نقاب پھولدار ہوتا ہے اور اکثر اس پر نگینوں اور موتیوں کی سجاوٹ بھی ہوتی ہے اور نقاب کا رنگ زیادہ تر سفید ہوتا ہے کیونکہ مغربی دلہنیں سفید لباس پہنتی ہیں اس لئے نقاب بھی اسی رنگ کا خوبصورت لگتا ہے۔
پاکیزہ
سوسن ویگنر ایک تاریخ دان ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی صدیوں پہلے دلہنوں کو سر سے پاؤں تک کپڑوں میں لپیٹ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ ان کا چہرہ بھی چھپا دیا جاتا تھا جس کا مقصد انھیں پاکیزہ اور خدا کی جانب سے بھیجا ہوا تحفہ ثابت کرنا ہوتا تھا۔
بری نظر سے بچاؤ
دلہن کے چہرے کو نقاب لگانے کا ایک مقصد اسے بری نظر اور شیطانی قوتوں سے بچانا بھی ہوتا ہے تاکہ آنے والی زندگی خوشیوں سے بھرپور ہو۔
دلہا سے چھپانا
دلہن کا چہرہ شادی سے پہلے دلہا سے چھپانے کے لئے بھی دلہن کو نقاب پہنایا جاتا ہے۔
مغربی دلہنیں سفید لباس ہی کیوں پہنتی ہیں؟
بعض افراد اس سفید رنگ کے عروسی لباس کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شاید عیسائی مذہب کا حصہ ہے اور اسے پاکیزگی کی علامت سمجھا جاتا ہے٬ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے-
درحقیقت اٹھارویں اور انیسویں کے درمیان سفید رنگ دولت اور عیش و عشرت کی علامت قرار دیا جاتا تھا کیونکہ اس وقت یہ رنگ صرف امراﺀ ہی استعمال کیا کرتے تھے- اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں کپڑے دھونے کا کوئی مناسب طریقہ موجود نہیں تھا اور ہر کوئی کپڑے دھونے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا-
اس لیے ماضی میں سفید رنگ کے کپڑے صرف امیر ترین افراد یا ان کی دلہنیں اس رنگ کا عروسی لباس ہی استعمال کیا کرتی تھیں جو کہ شاہانہ طرزِ زندگی کی جانب اشارہ ہوتا تھا- وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ روایت عام ہوتی چلی گئی اور معاشرے میں اس حد تک سرایت کر گئی کہ مغربی دلہنوں کا سفید رنگ کا عروسی لباس ان کی ثقافت کا ہی حصہ بن گیا