آج کے تیز رفتار دور میں تعلیم کا حصول کافی حد تک آسان ہوگیا ہے، جدید ٹیکنالوجی کی بدولت آج کے بچے اسمارٹ فون اور دیگر آلات کا بہترین استعمال کرتے ہیں لیکن ماضی میں کہیں تختی دھوکر رکھنا پڑتی تھی تو کبھی دوستوں سے سیاہی مانگا کرتے تھے۔اسکول کے نام سے خوف آتا تھا، بچے ٹیچر کے بیمار ہونے کی دعائیں مانگتے تھے۔
آیئے آج ماضی کے اسکول کی چند یادیں تازہ کرتے ہیں۔
آج بچے خوشی خوشی بن سنور کر اسکول جاتے ہیں، کہیں نیلے کہیں گلابی تو کہیں طرح طرح کے رنگوں کے یونیفارم ننھے منے بچوں کو بہت خوبصورت بناتے ہیں لیکن ماضی میں لڑکوں کیلئے خاکی اور لڑکیوں کیلئے نیلا یونیفارم ہوتا تھا۔
آج کے بچوں کے بستے کتابوں اور کاپیوں سے بھرے ہوتے ہیں اور کئی بچے تو بھاری بیگ اٹھانے میں بھی ناکام ہوجاتے ہیں لیکن ماضی میں ایک تختی طلبہ کا کل سرمایہ ہوتی تھی جس کو دھو کر سکھانا بھی ایک مشکل عمل ہوتا تھا ۔بال بڑھنے پر ٹیچر ایسا کٹ لگاتے تھے کہ سر منڈھوانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا۔
آج کے طلبہ لکھائی کو خوبصورت بنانے کیلئے بہترین اقسام کے پین استعمال کرتے ہیں لیکن ماضی میں طلبہ لکڑی کی قلم استعمال کرتے تھے، خوبصورتی سے بنی ہوئی لکڑی کی قلم سے بہترین لکھائی کرتے تھے، آج کے بچوں کیلئے اسکولوں میں بینچ اور خوبصورت کرسیاں ہوتی ہیں لیکن ماضی میں ٹاٹ یا اکثر پتھریلی زمین پر بیٹھ کر پڑھنا پڑتا تھا۔
آج کئی اسکولز میں بچوں کے ساتھ ایسا رویہ ہوتا ہے کہ لگتا ہی نہیں کہ یہ استاد شاگرد ہیں اور ماضی میں بچے ٹیچر کے بیمار ہونے کی دعائیں مانگا کرتے تھے اور جس دن پہلے پیرڈ میں ٹیسٹ ہوتا تھا وہ تو بچوں کیلئے کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتا تھا اور کلاس تک جانا خطرناک سفر کہلاتا تھا اور جس روز ٹیچر غیر حاضر ہوتا بچوں کیلئے وہ دن عید کی طرح ہوتا تھا۔
پورا ہفتہ غائب رہنے والے طلبہ آدھی چھٹی کے روز حاضر ہوتے اور اسکول کے بعد کھیلنے کیلئے چلے جاتے اور آدھی چھٹی کا پورے ہفتے انتظار کیا جاتا اور دوستوں کے ساتھ ملنا ایک انوکھی خوشی کہلاتا تھا۔