غربت اتنی تھی کہ کئی کئی دنوں تک بھوکے رہتے تھے ۔۔ لوگوں کو خوش کرنے والا گولڈن بوائے خود کتنی تکلیفوں میں مبتلا ہے، جانیئے اس لڑکے کی کہانی

image

میں 3 سال کا تھا جب ابو پر قتل کا جھوٹا الزام لگایا گیا تھا۔ انھوں نے 3 سال جیل میں گزارے اور ہمارا پیٹ پالنے کے لیے امّی نے ایک فیکٹری میں کام شروع کردیا۔ میں اور میرے 5 بہن بھائی کبھی اسکول نہیں گئے، پیٹ کی خاطر میرے بڑے بہن بھائیوں نے بھی چیتھڑے چننے والوں کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ ہم نے ان کی تنخواہ ابو کی ضمانت کے لیے استعمال کی، یہاں تک کہ ہم نے گھر کا سب کچھ بیچ دیا۔ ان حالات میں ہم صرف متبادل دنوں میں ہی کھانا کھاتے کیونکہ روز کھانا کھانے کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔

3 سال بعد، آخرکار ہم ابّو کو جیل سے رہا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ باہر آکر انھوں نے لوگوں کے گھروں میں نلکوں کو پالش کرنا شروع کر دیا۔ یہ محنت مزدوری کافی نہیں تھی کہ انھوں نے ہمیں بہار(انڈیا) میں اپنے گاؤں بھیج دیا۔

وہاں جا کر بھی چیزیں بہتر نہیں ہوئیں بلکہ اور بری ہوگئیں، دادی ہمیں بہت مارتی تھیں وہ کہتی تھیں کہ 'تم لوگوں کی وجہ سے میرا بیٹا جیل گیا'۔ ہمارے رشتہ داروں نے بھی ہمارا ساتھ دینا چھوڑ دیا۔ چنانچہ امّی نے گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔ ہمیں کھانے کو صرف وہی ملتا تھا جو امّی دوسروں کے گھر کا بچا ہوا لاتی تھیں۔

گھریلو حالات دیکھ کر میں بھی روزی کمانا چاہتا تھا۔ چنانچہ، 12 سال کی عمر میں، میں واپس دہلی چلا گیا۔ مجھے زری لگانے کا کام مل گیا۔ میں نے وہاں 4 سال کام کیا، ایک دن میرے کزن نے کہا کہ بمبئی آجاؤ، یہ سن کر میں پرجوش ہو گیا کیونکہ بہت سنا تھا ممبئی کے بارے میں۔

لیکن جس دن میں پہنچا، اس نے مجھے دھوکہ دے دیا، میں 2 دن تک سڑک پر رہا۔ لیکن یہ شہر ایسا تھا یہاں کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے، میں نے ہر طرح کے محنت والے کام کئے۔ کچھ وقت بعد میں نے ایک فون خریدا اور 1 دن، مجھے ایک ایسے شخص کی ویڈیو ملی جو امریکہ کے تمام مشہور مقامات پر مجسمے کی طرح کھڑے ہو کر کام کرتا تھا۔

مجھے وہ اچھا لگا، میں نے بھی یہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ پر میرے پاس پیسے نہیں تھے لہذا، میں نے اپنا فون بیچ دیا اور سنہری رنگ کا پینٹ، شرٹ اور پتلون خریدی۔

میں لگا کہ لوگ میرا مذاق اڑائیں گے لیکن، جب میں گھر سے نکلا تو لوگوں نے کہا "گولڈن مین" آگیا۔ انہوں نے میرے ساتھ تصویریں بھی لیں۔

اپنی زندگی میں پہلی بار، میں خوش تھا، میں نے پہلے کبھی ایسا محسوس نہیں کیا تھا اور اس طرح میں نے یہ کام جاری رکھا۔ لوگ مجھے دیکھتے پسند کرتے اور پیسے بھی دیتے۔

میں نے اس کا آغاز 2019 میں کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب دن میں 12 گھنٹے کھڑے رہنے کی وجہ سے میرا جسم بے حس ہو جاتا تھا، لیکن اب مجھے اس کی عادت ہوگئی ہے۔

جلد ہی، لوگوں نے مجھے اپنی پارٹیوں میں بلانا شروع کر دیا۔ میں ان دنوں 5000 روپے کماتا ہوں اور سارے پیسے ماں کو بھیج دیتا ہو میں نے زندگی میں بہت کچھ دیکھا ہے۔ درحقیقت، میں نے پہلی بار خوشی کا احساس 19 سال کی عمر میں کیا تھا اور اب میں یہیں خوش رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ زندگی آگے آسان ہوگی بھی نہیں، لیکن آج خوش ہو اور ابھی کے لیے یہی کافی ہے۔


About the Author:

Humaira Aslam is dedicated content writer for news and featured content especially women related topics. She has strong academic background in Mass Communication from University of Karachi. She is imaginative, diligent, and well-versed in social topics and research.

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.