پشاور سینٹرل جیل یا ہاسٹل، آپریشن کے دوران قیدیوں سے 600 موبائل فون برآمد 

image
پشاور سینٹرل جیل میں 11 اپریل کو دو گروپوں کی لڑائی میں 11 قیدی اور 4 جیل اہلکار بھی زخمی ہوئے۔

پشاور سینٹرل جیل میں آئے روز ناخوش گوار واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران لڑائی جھگڑے، منشیات اور موبائل فون برآمد ہونے کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے۔ 

جیل میں دو خطرناک قیدی گروپوں کے درمیان دو سے زائد بار تصادم ہو چکا ہے۔ دو روز قبل بھی ان گروپوں کے درمیان خون ریز لڑائی ہوئی۔

 بیچ بچاؤ کے دوران جیل عملے پر بھی حملہ کیا گیا، قیدیوں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس فورس طلب کرکے آنسو گیس کی شیلنگ کرنا پڑی۔

اس لڑائی کے دوران 11 قیدی زخمی ہوئے جبکہ جیل کے چار اہلکار زخمی ہوئے جنہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔

جیل حکام کے مطابق دو گروپوں میں تنازع چل رہا تھا جو اس سے پہلے بھی ہنگامہ آرائی کرچکے ہیں۔ ان قیدیوں پر جیل کے اندر توڑ پھوڑ کا الزام بھی ہے۔

رواں برس 21 مارچ کو پشاور سینٹرل جیل میں سرعام منشیات کی دستیابی کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں قیدی قطار میں کھڑے ہوکر نشہ آور اشیا خرید کر رہے تھے۔ اس ویڈیو کے بعد دو جیل اہلکاروں کے خلاف انکوائری بھی شروع کردی گئی۔

جیل انتظامیہ کا موقف 

پشاور سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ مقصود خان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ’جیل میں لڑنے والے چار قیدیوں کو مردان جیل جبکہ ایک کو نوشہرہ سب جیل منتقل کردیا گیا ہے۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ ’لڑائی جھگڑے کے واقعات کے بعد قیدیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔‘ 

سپرنٹنڈنٹ جیل پشاور نے بتایا کہ ’کوتاہی برتنے پر جیل عملے کے چار اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’اس وقت جیل کے اندر صورت حال معمول کے مطابق ہے، وہاں اہلکاروں کی تعداد بڑھا دی گئی ہے، تاہم کسی بھی قسم کی سکیورٹی کا مسئلہ نہیں ہے۔‘

سپرنٹنڈنٹ جیل مقصود خان کے مطابق ’منشیات کی فراہمی سے متعلق خبروں میں صداقت نہیں ہے۔ جن جیل اہلکاروں کے خلاف شکایت تھی ان کے خلاف کارروائی کی گئی ہے، کسی کو بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہوگی چاہے وہ میرا سٹاف ہی کیوں نہ ہو۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم جیل میں وقتا فوقتاً سرچ آپریشن کرتے رہتے ہیں اور  دوران قیدیوں سے موبائل فونز کے علاوہ مختلف اوزار وغیرہ بھی برآمد ہوئے ہیں۔‘

مقصود خان نے بتایا کہ ’گذشتہ دس ماہ میں سرچ آپریشن کے دوران قیدیوں سے 600 موبائل فون برآمد کیے جا چکے ہیں، تاہم کوتاہی برتنے پر جیل عملے کے چار اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کر لی گئی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جیل میں گنجائش سے زیادہ قیدی موجود ہیں، اس وقت تین ہزار 500 قیدی موجود ہیں جبکہ جیل کی گنجائش تین ہزار ہے۔‘

سپرنٹنڈنٹ کے مطابق ’جیل میں اس وقت تین ہزار 500 قیدی موجود ہیں جبکہ گنجائش تین ہزار قیدیوں کی ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان واقعات پر مشیر برائے جیل خانہ جات ہدایت اللہ آفریدی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ کو سخت اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔ 

انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جیل میں کیمرے نصب کیے جا رہے ہیں جن کی مدد سے قیدیوں پر کڑی نظر رکھی جائے گی۔ ہمیں قیدی کا جیل سے باہر سہولت کاروں سے رابطہ ختم کرنا ہے جس سے ماحول میں بہتری آئے گی۔‘

مشیر برائے جیل خانہ جات ہدایت اللہ آفریدی کے مطابق ’جیل میں قیدیوں کی گنجائش سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی فراہم پر کام جاری ہے، دوسری جانب خواتین قیدیوں کے لیے الگ کمرے اور سولرائزیشن کے منصوبے پر کام ہو رہا ہے۔

پشاور جیل میں بدانتظامی کی خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس مسرت ہلالی نے سینٹرل جیل کا دورہ کرکے انتظامات کا جائزہ لیا۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.