ریاست اور عوام کے درمیان بظاہر تفریق اور تقسیم کو ہوا دینے والے ’سابقہ اثاثے‘ کس قدر بھاری ہتھیاروں سے لیس ہیں اور یہ ہتھیار یوں استعمال ہوں گے یہ خبر نہ تھی۔ کیا کیجیے کہ استعمال کا ہُنر خود ریاست نے اپنے ہاتھوں سے دیا ہے۔
منظر پر نظر آنے والے دھوئیں کے پیچھے آگ کہاں لگی، یہ کسی کو نظر نہیں آ رہا۔ آگ کیسے جلی اس پر غور کرنے کو کسی کے پاس وقت نہیں۔ جو نظر میں ہے وہ منظر نہیں اور جو منظر ہے اُس کا پس منظر کیا ہے، نہیں معلوم! مگر اس کھیل میں نظر بُلند ہوتے شعلوں پر نہیں چنگاریوں پر رکھنا ہو گی۔
بجلی کے بل اور اِن بلوں کے نام پر استحصال تو جانے کب سے ہو رہا ہے مگر تلملائے ہوئے عوام کو مہنگائی اور کچھ نارسائی کا کرنٹ لگا تو وہ احتجاج منظر عام پر آنے لگا جو شاید ابھی نہ آتا۔
یہ جھٹکا بجلی کا نہیں حضور، یہ اظہار اُس استحصال کا ہے جو گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان کے عوام سے روا ہے۔ خدشات کے طوفان سے الامان الحفیظ کی دعا کرتے طوفان کے یہیں تھمنے کی خواہش ہے مگر کواکب کچھ اور پتہ دے رہے ہیں۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
زیر زمین کئی فالٹ لائنز متحرک ہیں اور اگر آپ دیکھیں تو گذشتہ چند دنوں سے یہ تمام فالٹ لائنز متحرک ہو چکی ہیں۔ خاکم بدہن کوئی شعلہ یا کوئی چنگاری آتش فشاں کو چھیڑ سکتی ہے۔ گذشتہ چند دنوں میں پے درپے ایسے واقعات ہوئے ہیں جنھوں نے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ یہ سلسلہ رُکے گا تو رُکے گا کہاں؟
جڑانوالہ میں جس انداز میں مسیحی بستی کو آگ لگائی گئی یوں تو تاحال اُس کی کڑیاں نہیں جوڑی گئیں اور نہ ہی تمام ملزموں کو گرفتار کیا گیا ہے تاہم یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ انتظامیہ کی عین ناک کے نیچے عیسی نگری کا واقعہ ہوا کیسے؟ کیا کس نے؟ اور آئندہ روک تھام کیسے ہو گی؟
مملکت کی اقلیتوں کے عدم تحفظ اور عالمی سطح پر حساس فالٹ لائن پر آئے زلزلے کے بعد الائی چئیر لفٹ اور اُس سے جُڑے پراپیگنڈہ نے ففتھ جنریشن وار فئیر اور تقسیم کی لکیر کو اس طرح واضح کیا کہ ’ہم بمقابلہ وہ‘ جیسی تقسیم نے دماغ بھک سے اُڑا دیا۔
ریاست اور عوام کے درمیان بظاہر تفریق اور تقسیم کو ہوا دینے والے ’سابقہ اثاثے‘ کس قدر بھاری ہتھیاروں سے لیس ہیں اور یہ ہتھیار یوں استعمال ہوں گے یہ خبر نہ تھی۔ کیا کیجیے کہ استعمال کا ہُنر خود ریاست نے اپنے ہاتھوں سے دیا ہے۔
تیسری فالٹ لائن مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کی تھی جس کا اظہار سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم پر اس قدر تیزی سے پھیلا یا پھیلایا گیا کہ حالات کی سنگینی کا اندازہ شاید تاحال نہیں ہو پایا۔ گذشتہ حکومت کی جانب سے کی گئی قانون سازی مزید تفریق کا باعث بنی اور یوں لگا کہ وطن عزیز نوے کی دہائی میں جا کھڑا ہوا۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں مذہبی منافرت کا عفریت کس قدر بے قابو ہو سکتا ہے اس کا اندازہ گذشتہ چند دنوں میں ہو چکا۔ توہین، توہین کی صداؤں میں اب کس کس پر فتوے لگیں گے یوں کہ اب خود مفتی بھی فتووں کی زد میں ہیں۔۔۔ حال ہی میں اس سلسلے کی ایک ایف آئی آر نے آنے والے دنوں کا اشارہ دیا ہے۔
اس فالٹ لائن پر آتے زلزلوں کی ذمہ داری کس کس پر عائد ہو گی؟ ن لیگ، اتحادی اور تحریک انصاف سمیت سب سیاسی جماعتوں کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔ کافر کافر، مرتد مرتد کے فتووں سے کون کون بچ پائے گا اس فالٹ لائن کے زلزلے کی شدت ابھی سے محسوس کی جا سکتی ہے۔
بجائے اس کے کہ ریاست ماضی کی پالیسیوں کی تصیح کرتی ایک اور بارودی سُرنگ کا انتظام کر دیا گیا ہے۔ افسوس کہ ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھااور نہ ہی سیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں۔
زیر زمین بچھائی گئی ان بارودی سرنگوں کو بڑی محنت سے بچھایا گیا ہے اور ماضی میں ریاست نے اس بارے خاصی سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ انتہا پسندی سے لے کر سیاست کے نام پر فسطائیت تک اسٹیبلشمنٹ کا کردار نمایاں بھی ہے اور متنازعہ بھی۔
یہ دیکھنے کی مگر آج بھی ضرورت ہے کہ اب ان فالٹ لائنز کو دھیرے دھیرے دیا سلائی کون دکھا رہا ہے۔ احتساب کے اس دور میں ان سب کرداروں کا احتساب ضروری ہے جنھوں نے اپنے ذاتی مفاد پر ریاست میں عقب سے نقب لگائی ہے۔
عجب صورتحال ہے کہ انتخابات کی جانب بڑھتا پاکستان اس قدر مشکلات کا شکار ہے کہ انتخابات کے مراحل سے گزرنا دشوار ہو چکا ہے۔ آئین پر عملداری کے لیے انتخابات کا جلد از جلد انعقاد ایک ضرورت ہے تو دوسری جانب انتخابی تقاضے خود ایک آزمائش۔ انتخابات کرانا بھی مشکل اور نہ کرانے کی صورت مغربی ممالک کی جانب سے دباؤ، ایک الگ نہ سمجھ میں آنے والی کتھا۔
ان سب مراحل میں بہر حال سیاست کو آگے آنا ہو گا، سیاسی جماعتیں دلہن کی طرح گھونگھٹ نکالے گھر بیٹھی رہ گئیں تو تقسیم اور تفریق کا شگاف مزید گہرا ہو جائے گا اور بغیر قیادت کے ہجوم یوں ہی سڑکوں پر رہا تو افراتفری اور انتشار بڑھ سکتا ہے۔
معاشی، معاشرتی، مذہبی، سیاسی تفریق اور ناہمواری وہ فالٹ لائنز ہیں جو ہمیشہ سے تھیں مگر کبھی اتنی متحرک نہ تھیں جتنی آج ہیں۔ تقسیم کے سب بیانیے مضبوط ہورہے ہیں، اتحاد کا کوئی علم بُلند نہیں ہو رہا۔
نفاق کا بویا جانے والا بیج اب تناور درخت بن چکا ہے، ناانصافی کی فصل پروان چڑھ چُکی ہے، سماجی المیے حادثے بن رہے ہیں مگر ان سب کا حل فقط اظہار اور جمہوریت میں ہے، آئین اور قانون پر عملداری میں ہے، سیاسی جماعتوں کے عوامی رابطوں میں ہے۔ اگر اس پر عمل نہ ہوا تو خاکم بدہن برسوں پرورش پاتے حادثے المیہ بن سکتے ہیں۔ آئین پر عمل میں ہی مملکت کی بقا ہے۔