کراچی میں سنیچر کی صبج ایک کثیر المنزلہ شاپنگ مال میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 11 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ کورنگی کے رہائشی محمد عامر کا بیٹا بھی ان درجنوں افراد میں موجود تھا جو عمارت میں دھواں بھر جانے کے باعث پھنس گئے تھے تاہم انھوں نے فائر فائٹرز کے ساتھ مل کر ناصرف اپنے بیٹے بلکہ 25 دیگر افراد کو بھی متاثرہ عمارت سے نکالا۔
کراچی کے راشد منہاس روڈ پر واقع ایک کثیر المنزلہ کمرشل عمارت میں سنیچر کی صبح لگنے والی آگ میں ایک شخص نے اپنے بیٹے سمیت 25 لوگوں کی زندگیاں بچائی ہے۔ اس رپورٹ میں ہم آپ کو یہ تفصیلات بتا رہے ہیں کہ کیسے وہ اپنے بیٹے کی فون کال سُن کر اس عمارت تک پہنچے اور پھر ریسکیو آپریشن میں حصہ لیا۔
’میرے بیٹے عبدالسبحان نے مجھے فون کیا اور کہا کہ بابا پلازہ میں آگ لگ گئی ہے۔ میں نے پوچھا کہ آگ کتنی شدید ہے اور تم کیا کر رہے ہو؟ اُس نے بتایا کہ وہ 25 لوگوں کے ساتھ اپنے دفتر میں موجود ہے۔یہ کال ریسیو ہونے کے بعد میں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر پلازہ کی طرف دوڑ لگا دی اور تقریباً 25 منٹ میں اس عمارت تک پہنچ گیا جہاں میرا بیٹا موجود تھا۔‘
یہ کہنا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے علاقے کورنگی کے رہائشی محمد عامر کا، جنھوں نےکراچی کے راشد مہناس روڈ میں لگنے والی آگ کے دوران اپنے بیٹے سمیت 25 لوگوں کی زندگیاں بچائی ہیں۔
آتشزدگی کے اس واقعے کی ایف آئی آر سرکار کی مدعیت میں درج کی گئی ہے جس کے مطابق گلشن جوہر میں واقع شاپنگ مال میں آگ لگنے کے واقع میں 11 افراد ہلاک جبکہ پانچ زخمی ہوئے ہیں۔
نذیر خان بھی ان لوگوں میں شامل تھے جن کو محمد عامراور ایک ریسیکو اہلکار نے اس عمارت کی چوتھی منزل پر واقع دفتر سے باہر نکالا تھا۔
نذیر بتاتے ہیں کہ ’ہم 25 لوگ ایک دوسرے کو بظاہر حوصلہ دے رہے تھے، مگر دل میں ڈر موجود تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ پہلے دھواں بھرنے اور دم گھٹنے سے ہماری موت ہو گئی اور اس کے بعد آگ کے شعلے ہماری لاشوں کو بھی جلا کر راکھ کر دیں گے۔‘
’میں اسی سوچ میں غلطاں تھا کہ باہر سے کسی نے چیخ کر پکارا ’سبحان، سبحان‘۔ باہر سے آنے والی یہ آواز سُن کر جان میں کچھ جان آئی۔‘
’لفٹ بند جبکہ سیڑھیوں پر آگ لگی ہوئی تھی‘
عبدالسبحان اور ان کے تین دیگر دوست پلازہ کی چوتھی منزل پر موجود ایک کال سینٹر میں کام کرتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہماری روٹین یہ ہے کہ رات بھر کال سینٹر میں کام کرتے ہیں۔ پانچ بجے فجر کی نماز پڑھتے ہیں اور ساڑھے پانچ بجے تک کام کو مکمل کرنے کے بعد تقریباً چھ بجے دفتر سے نکل جاتے ہیں۔ اس روز بھی یہی ہوا، ہم چاروں نے نماز پڑھی جس کے بعد ہمارا ایک دوست وہیں سو گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے کہا کہ کہا کہ چلو اس کو تھوڑا آرام کرنے دیتے ہیں۔ ابھی ہم یہ بات کر ہی رہے تھے کہ اچانک باہر سے شور کی آواز آئی تو ایک دوست باہر نکلا اور فوراً ہی واپس آ گیا اور بتایا کہ باہر آگ لگی ہے۔ یہ سُن کر ہمارا سویا ہوا دوست بھی جاگ اٹھا اور ہم لوگ تیزی سے لفٹ کی طرف بھاگے مگر لفٹ بند تھی، جس کے بعد ہم سیڑھیوں کی طرف بھاگے مگر فوراً ہی پتا چلا کہ آگ سیڑھیوں کی طرف لگی ہوئی ہے۔‘
عبدالسبحان کے مطابق اس افراتفری کے عالم میں وہ ایک راہداری میں پھنس کر رہ گئے۔ ’کچھ اور لوگ بھی دوڑ رہے تھے۔ ہم نے بھی ان کے پیچھے دوڑنا شروع کر دیا۔ مگر یہ دوڈر لا حاصل تھی کیونکہ باہر نکلنے کا تو کوئی راستہ موجود ہی نہیں تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے ایک دوست نے ریسیکو کا نمبر ملا لیا تھا۔ وہ ان کو چیخ چیخ کر بتا رہا تھا کہ ہم پھنسے ہوئے ہیں اور ہماری زندگیوں کو خطرہ ہے۔ وہ ہم سے پلازہ کا مقام اور جگہ پوچھ رہے تھے۔ اتنے میں ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ پہنچ گئے ہیں مگر بعد میں پتہ چلا کہ وہاں ایک فائر بریگیڈ کی گاڑی پہنچی تھی۔‘
’دھواں پھیلتا جا رہا تھا اور ہمارے لیے سانس لینا بھی دشوار ہو رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی دم گھٹ جائے گا اور اسی دوران ہمیں اسی منزل پر ایک بڑا دفتر کھلا ملا۔‘
’کپڑے کی چادریں بنا کر دھویں کا راستہ روکا‘
عبدالسبحان بتاتے ہیں کہ اُس دفتر میں پہلے ہی کچھ لوگ موجود تھے جن میں سے ایک شخص دھویں کے باعث بیہوش ہو چکا تھا۔ ’دھواں تھا کہ پھیلتا ہی جا رہا تھا۔ کچھ لوگوں نے اپنے منھ پر اپنی شرٹس اور قمیضیں پھاڑ کر باندھ لیں۔‘
’میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا، میں نے ابو کو فون کیا اور بتایا کہ ہمارے پاس وقت کم ہے کیونکہ جلد ہی دھواں ہمیں مار ڈالے گا۔‘
’ایسے میں کسی نے تجویز دی کہ ہم دھویں کا راستہ روکتے ہیں۔ جس کے بعد کپڑوں سے پردہ بنا کر ہم دروازوں اور کھڑکیوں کے سامنے کھڑے ہوئے تاکہ دھویں کو اندر آنے سے روکا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم جتنے طریقے آزما سکتے تھے، آزما لیے تھے۔ اب ہمارے پاس کوئی اور طریقہ نہیں بچا تھا ماسوائے اس کے کہ کوئی مدد مل جاتی۔ سب لوگ مدد کے لیے سب دعا کر رہے تھے۔‘
’ہاں میں لفٹ کا دروازہ کھول سکتا ہوں‘
عبدالسبحان کے والد محمد عامر کہتے ہیں ’میرا خیال ہے کہ میں چھ بجے کے لگ بھگ پلازہ کے پاس پہنچ چکا تھا۔ وہاں پر فائر بریگیڈ کی ایک گاڑی موجود تھی جس میں آگ بجھانے والے عملے کے چار کارکن موجود تھے۔‘
ان کے مطابق ’مجھے بیٹے نے چوتھی منزل پر اپنے مقام کے بارے میں بتایا تھا کہ وہاں پر شیشے کی لفٹ موجود ہے، میں نے فائر فائٹرز سے کہا کہ مجھے سیڑھی لگا کر دو میں اوپر جاؤں گا۔‘
’فائر فائٹر نے مجھے حیرانگی سے دیکھا اور کہا کیا کرو گے۔ وہ خود لفٹ توڑنے کے لیے یا اس کا شیشہ توڑنے کے لیے اپنے پاس ہتھوڑا ساتھ لے کر جا رہا تھا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اس سے کہا کہ میں لفٹ کو کھول سکتا ہوں۔ اس کو بتایا کہ میں ایئرکنڈیشن کا کاریگر ہوں اور نیٹ ورکنگ کرتا ہوں۔ میرے لیے لفٹ کو کھولنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘
محمد عامر کہتے ہیں کہ فائر فائٹرز کے پاس موجود سیڑھی تیسری منزل ہی تک جا سکتی ہے۔ میں وہاں پہنچا اور لمحوں میں لفٹ کا دورازہ کھولا اور پھر شیشہ توڑا تو سامنےلوہے کی گرل تھی۔ ہتھوڑے کی مدد سے گرل کو توڑا اور جالی کو کٹر کی مدد سے کاٹا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اب میں تیسری منزل پر تھا اور میرے ساتھ ایک فائر فائٹر بھی تھا۔ تیسری منزل پر دو گیٹ لگے ہوئے تھے جو کہ بند تھے۔‘
ان کے مطابق ’میں ساتھ میں بچوں کی چوتھی منزل پر لوکیشن بھی سمجھتا جا رہا تھا۔ میں دائیں طرف والے گیٹ کو توڑا اور تیز آگ کا شعلہ لپکا، جسے بجھا کر میں نے بائیں طرف والا گیٹ توڑا اور وہاں پر کوئی لوہے کی سڑھیاں تھیں وہاں سے اوپر چوتھی منزل کی طرف چل پڑا۔‘
’آگ کی تپش شدید تر ہو رہی تھی‘
محمد عامر کا کہنا تھا کہ دھواں بڑھتا جا رہا تھا اور قدم اٹھانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا تھا۔ ان کے مطابق ’جب میں چوتھی منزل کے قریب پہنچا تو ایسے لگا کہ جیسا دھویں کے بادل ہوں اور مکمل اندھیرا تھا۔‘
محمد عامر کے مطابق ’میرے ساتھ موجود گرین یونیفارم میں فائر فائٹر نے فوراً گاڑی میں سے ماسک اور ایمرجنسی لائٹ منگوائی۔ گاڑی میں یہ دو ماسک تھے، جو انھوں نے اور میں نے استعمال کیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چوتھی منزل کا یہ راستہ ایک اور شیٹ لگا کر بند کیا گیا تھا۔ اس کو بھی توڑا اور اب ہم چوتھی منزل پر تھے جہاں پر اتنا دھواں تھا کہ ماسک میں بھی ہمارا سانس بند ہو رہا تھا۔‘
محمد عامر کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک بڑے دفتر کے سامنے پہنچے تو مجھے آوازیں آئیں۔ ہم فوراً اس دفتر میں گھس گئے جہاں میرے بیٹے سمیت لگ بھگ 25 لوگ موجود تھے، جس میں آدھے سے زیادہ نیم جان ہو چکے تھے۔‘
محمد عامر کا کہنا تھا کہ آگ تقریباً اس مقام تک پہنچ رہی تھی، جہاں پر یہ سب لوگ موجود تھے۔
ان کے مطابق اس کے بعد وہ جس راستے سے آئے تھے اسی راستے سے ان تمام افراد کو دو، دو کی ٹولیوں کی صورت میں نکالا۔
’شکر ہے بابا پہنچ گئے‘
نذیر خان کہتے ہیں کہ ’اچانک جب باہر سے آوازیں آئیں تو مجھے لگا کہ کوئی سبحان سبحان کہہ رہا ہے تو میں نے چیخ کر کہا کہ کوئی باہر سبحان سبحان پکار رہا ہے تو ایک لڑکا بولا کہ یہ میرے بابا ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’شکر ہے بابا پہنچ گئے ہیں، جس کے بعد وہ باہر کی طرف جانا چاہا مگر میں نے روکا اور ان کو آواز دے کر بتایا کہ ہم اس کمرے میں ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایک گرین یونفیارم میں اور دوسرا محمد عامر ماسک پہنے اندر آئے اور ان کی بھی حالت غیر ہو رہی تھی۔ انھوں نے اندر آتے ہی سب لوگوں کو باہر نکلنے کو کہا، کچھ لوگوں کو مدد اور سہارے کی ضرورت تھی، ان کو جو مدد دے سکتے تھے انھوں نے مدد دی اور ہم لوگ نیچے پہنچ گئے تھے۔‘
عبدالسبحان کہتے ہیں کہ ’ہم لوگ نیچے پہنچے تو اس وقت سب کی حالت غیر تھی۔ ہمیں ابتدائی طبی امداد دی گئی، تین چار لوگ بے ہوش بھی تھے ان کو فی الفور ہسپتال پہنچایا گیا، جس کے بعد حالت سنبھلی تو دیکھا کہ کافی لوگ اکھٹے تھے اور کافی امداد ہو رہی تھی۔ بعد میں مجھے پتا چلا کہ ایک اور کال سینٹر میں کام کرنے والے دلاور اور اسد ہلاک ہو گئے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بعد میں پتا چلا کہ ان کی لاشیں چوتھی منزل میں سیڑھیوں کے پاس ملی تھں۔ اسد کی دو ماہ بعد شادی ہونے والی تھی۔
’اسد آگ سے نہیں دھویں سے ہلاک ہوا‘
واقعہ میں ہلاک ہونے والے ایک نوجوان اسد خان کے بہنوئی شہزاد خان بتاتے ہیں کہ اسد کی عمر 19 سال تھی اور وہ دن میں تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے رات کو کام بھی کر رہا تھا۔
شہزاد کے مطابق انھیں اس واقعے کے بارے میں تقریباً آٹھ بجے پتا چلا تھا جب کہ اس کے والد کو سات بجے اطلاع دی گئی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پلازہ میں پہنچے تو اسد وہاں نہیں تھا جس کے بعد جناح ہسپتال پہنچے۔‘
شہزاد خان کا کہنا تھا کہ جناح ہسپتال کے مردہ خانے میں ان کی لاش کو شناخت کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق ’میں نے خود ان کو غسل دیا ہے۔ ان کے جسم پر کسی بھی جگہ پر جلنے کے نشانات نہیں ہیں۔ بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ وہ دم گھنٹے سے ہلاک ہوئے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا ہے وہاں سے دو اور لاشیں نکلی تھیں۔‘
شہزاد خان کہتے ہیں کہ ’جناح ہسپتال میں ہمیں نواب شاہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ملے تھے۔ ان لوگوں کے چار لوگ لفٹ میں ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں دو آپس میں کزن تھےاور دو ان کے ساتھ کام کرتے تھے۔ امدادی کارکن جنھوں نے ان کی لاشوں کو نکالا تھا انھوں نے بتایا کہ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ وہ جان بچانے کے لیے لفٹ کی طرف گئے تھے اور دھواں سے ہلاک ہوگئے تھے۔‘
شاہ زیب بھی اس واقعے میں ہلاک ہوئے ہیں۔
شاہ زیب کے بھائی جہانزیب کہتے ہیں کہ ’مجھے امدادی کارکنان نے بتایا کہ ان کی لاش کو بھی آگ نے نہیں بلکہ دھویں نے نقصان پہنچایا تھا۔ ان کی لاش بھی اس حالت میں ملی کہ ان کا ہاتھ لفٹ کی طرف بڑھا ہوا تھا، جیسے وہ باہر نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
’ہنگامی راستہ ہوتا تو قیمتی جانیں بچ جاتیں‘
محمد عامر کہتے ہیں کہ ’میں اس کے بعد دوبارہ چوتھی منزل پر گیا تھا۔ وہاں پر مجھے کوئی اور نہیں ملا تھا، جس کے بعد میں واپس آ گیا۔ فائر بریگیڈ کا عملہ دیواروں میں سوراخ کر کے آگ بجا رہا تھا۔‘
چھیپا کے ترجمان چوہدری شاہد حسین ان لوگوں میں سے تھے جو امدادی کاموں کے لیے اپنے رضا کاروں کو لے کر موقع پر پہنچے تھے۔
چوہدری شاہد حسین کہتے ہیں کہ قیمتی جانیں ضائع ہونے کی وجہ پلازہ میں ہنگامی راستوں کا نہ ہونا، آگ بجھانے کے آلات اور الارم کا نہ ہونا تھا۔ اگرحفاظتی انتظامات ہوتے تو ممکن ہے کہ اتنا جانی نقصان نہ ہوتا۔
ان کے مطابقچوتھی منزل سے شروع ہونے والی آگ نے پانچویں اور چھٹی منزل کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا۔