سندھ پاکستان کا وہ واحد صوبہ ہے جہاں سنہ 2008 سے ایک ہی سیاسی جماعت یعنی پاکستان پیپلز پارٹی برسراقتدار ہے۔ اس دوران جماعت پر کرپشن کے الزامات اور کارکردگی پر سوالات تو اٹھتے رہے لیکن گزشتہ تین انتخابات میں بھی ان کی اقتدار پر گرفت کو کمزور نہ کیا جا سکا۔
پچاس سالہ صاحب خاتون کھوسو کا آدھا جسم ابھی تک جھلسا ہوا ہے۔ ان کا علاج ایک سرکاری ہسپتال میں جاری ہے۔ ان کے پوتے اور بہو کے جسم پر بھی زخموں کے نشان مستقل داغوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
صاحب خاتون پاکستان کے صوبہ سندھ میں قمبر شہر سے صرف دو کلومیٹر دور ایک گاؤں میں رہتی ہیں۔ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری لاڑکانہ کے علاوہ اس حلقے سے بھی الیکشن لڑ رہے ہیں، جہاں سے ان کی جماعت 2008سے صوبے پر حکمرانی کر رہی ہے۔
صاحب خاتون کے مکان کے دونوں کمرے 2022 کی بارشوں میں گر گئے تھے اور وہ اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ خیموں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوئیں لیکن گذشتہ سال 12 دسمبر کی ایک سرد رات کو ان کے خیمے میں آگ بھڑک اٹھی۔
2022 میں سندھ میں شدید بارشوں کی وجہ سے 20 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا گیا تھا۔ ان اضلاع میں صاحب خاتون کے مکان سمیت کم وبیش 20 لاکھ سے زائد گھر مکمل یا جزوی طور پر متاثر ہوئے تھے اور 73 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔
پکا گھر ہوتا تو بچے زندہ ہوتے
صاحب خاتون نے بتایا کہ ان کے مکان کے دونوں کچے کمرے تھے جو بارش میں گر جانے کے بعد وہ گذشتہ ایک سال سے خیموں میں ہی رہائش پذیر تھے۔ واقعے کی شب ایک بج چکا تھا جب موم بتی سے ان کے دونوں خیموں کو آگ لگ گئی۔
’ہم سوئے ہوئے تھے۔ جب جاگے اور دروازے پر پہنچے تو دروازہ نہیں کھل رہا تھا۔ آنکھوں سے جیسے اندھے ہو گئے۔ کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ سارا تنبو جل کر ہمارے اوپر گر گیا۔ تین بچے مر گئے اور چار زخمی ہو گئے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ سیلاب کے بعد ان کے متاثرہ گھر کا حکومت کی مقررہ ٹیم نے سروے بھی کیا اور تعمیر کی یقین دہانی بھی کرائی لیکن ان کا نام متاثرہ خاندانوں میں شامل نہ ہوسکا۔
صاحب خاتون کے بیٹے رشید کھوسو ٹریکٹر ڈرائیور ہیں۔ ان کو روزانہ پانچ سے چھ سو روپے دیہاڑی ملتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان میں گھر بنانے کی سکت نہیں تھی اسی لیے حکومت کی مدد درکار تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر پکا گھر ہوتا تو بچے آنکھوں کے سامنے جھلس کر ہلاک نہ ہوتے۔‘
ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی یہ گھر تعمیر کے مرحلے میں ہیں۔ سندھ پیپلز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے مطابق 14 لاکھ مکمل منہدم گھروں میں سے اس وقت صرف ساڑھے 71 ہزار گھروں کی مکمل تعمیر ممکن ہوسکی ہے۔
سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ 1940 کی دہائی سے لے کر 2010 تک جو بھی سیلاب آئے ہیں کبھی بھی کسی حکومت نے گھر بنا کر نہیں دیے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پانچ فیصد گھر مکمل ہو چکے ہیں جبکہ باقی تعمیر کے مراحل میں ہیں۔ آنے والے مون سون میں پچاس فیصد مکمل ہو جائیں گے۔ فی گھر تین لاکھ روپے کا پیکج دے رہے ہیں۔ اکیس لاکھ گھر ہیں، تقریباً چھ سو ارب روپے مالیت بنتی ہے جبکہ سندھ کا سالانہ ترقیاتی پروگرام ڈیڑھ سو ارب روپے کا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ چار سال تک کوئی اور کام نہ کریں پھر جاکر یہ گھر بنیں گے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔‘
’اب یہ قرض اترے گا لیکن کارکردگی کی بنیاد پر‘
2024 کے انتخابات سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھرپور انتخابی مہم کرتے دکھائی دے رہے ہیں جس کے دوران انھوں نے دعوی کیا ہے کہ الیکشن میں کامیابی کے بعد دوگنی تنخواہیں، تین سو یونٹ مفت بجلی، تیس لاکھ گھر دیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ سندھ پاکستان کا وہ واحد صوبہ ہے جہاں 2008 سے ایک ہی سیاسی جماعت یعنی پاکستان پیپلز پارٹی، برسراقتدار ہے۔ اس دوران کرپشن کے الزامات اور کارکردگی پر سوالات تو اٹھتے رہے لیکن گزشتہ تین انتخابات میں بھی ان کی اقتدار پر گرفت کو کمزور نہ کیا جا سکا تاہم انتخابی مہم کے دوران ایسے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں جہاں نوجوان ووٹر پیپلز پارٹی کے امیدواروں سے تلخ سوالات کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
بدین کے گاؤں دودو گشکوری میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی کے امیدوار غلام علی تالپور اپنی انتخابی مہم کے لیے پہنچے تو ایک نوجوان نے سوال کیا کہ ’جب لوگ ڈوب رہے تھے اس وقت آپ کہاں تھے؟اس وقت بھی ہمارا گاؤں ڈوبا ہوا ہے۔‘
سوشل میڈیا پر وائرل اس ویڈیو میں ایک نوجوان نے ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’شہیدوں کا قرض اتارتے اتارتے ہمارے آباؤ اجداد مر گئے، اب یہ قرضہ اترے گا لیکن کارکردگی کی بنیاد پر۔‘
ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا 2024 میں پیپلز پارٹی کسی موثر مخالف انتخابی اتحاد کی عدم موجودگی میں سندھ میں مسلسل چوتھی بار حکومت قائم کرنے کا ریکارڈ قائم کرے گی یا اس بار سندھ کا حکمران تبدیل ہو سکتا ہے؟
سندھ میں گورننس پر سوالات
سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کے طرز حکمرانی اور گورننس پر تنقید سیلاب کے بعد کی صورتحال تک محدود نہیں بلکہ تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور امن و امان سمیت ہر شعبے میں تنقید ہوتی رہی ہے۔
پاکستان اکنامک سروے کے مطابق سندھ میں 44 فیصد بچے سکول نہیں جاتے۔ پاکستان ایمرجنسی فوڈ سکیورٹی الائنس کے مطابق سندھ میں پانچ سال سے کم عمر پچاس فیصد بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔
سندھ کے بڑے اضلاع جیسا کہ لاڑکانہ، تھرپارکر، جیکب آباد اور شکارپور میں ایچ آئی وی ایڈز، نومولود بچوں کی ہلاکتوں اور خودکش بم حملوں کے وقت ہنگامی صورتحال میں بھی بنیادی سہولیات موجود نہ ہونے کی شکایات بھی سامنے آ چکی ہیں۔
مراد علی شاہ سات سال سندھ صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں ان کی حکومت بہترین نہیں تھیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ جن ممالک میں وسائل ہیں وہاں بھی گورننس کی شکایات ہوتی ہیں۔
’ہماری صحت کے شعبے میں گورننس بری ہوتی تو گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (گمس)، این آئی سی وی ڈی اور ایس آئی یو ٹی میں دیگر صوبوں سے لوگ کیوں آتے؟ تھر میں بچوں میں غذائی قلت کی بات ہوتی ہے، وہاں انفراسٹریکچر بنا ہے۔ پہلے لوگ ہسپتال تک پہنچ نہیں سکتے تھے، اب پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ بچوں کی اموات بھی ہوتی ہیں لیکن نمایاں زیادہ ہوتی ہیں۔‘
پیپلزپارٹی کا دعویٰ ہے کہ صحت کے شعبے میں اس کی کارکردگی خصوصاً متاثر کن رہی ہے اور اس حوالے سے گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کی مثال پیش کی جاتی ہے۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ دل کی سرجری ہو یا نیورو سرجری، لیور ٹرانسپلانٹ ہو یا گردے کا ٹرانسپلانٹ، یہ سب سہولیات گمس میں موجود ہیں حتیٰ کہ کچھ روبوٹک مشینیں ایسی بھی ہیں جو اس خطے میں بھی دستیاب نہیں۔
گمس کی ایک ڈسپینسری سے ٹیچنگ ہسپتال تک کے سفر میں اس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی کا بھی اہم کردار رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ صحت ہو یا تعلیم، یہ حکومت کا کام ہے اور اسی لیے وہ عطیات کے پیچھے نہیں دوڑے۔
’اگر میں چلا جاتا تو ڈونر بھی خاموش ہو کر چلے جاتے۔ حکومت تو رہے گی۔ چاہے کوئی بھی آجائے، پیسے حکومت کے پاس ہیں، وہ دے گی۔۔۔ اس لیے حکومت کے ساتھ چلنا ضروری ہے۔‘
گورننس کی شکایات کے باوجود ووٹ کیوں ملتا ہے؟
سنہ 2013 کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی وفاقی حکومت بنانے میں تو کامیاب نہیں ہو سکی تاہم سندھ میں 2008 سے لے کر تین بار اس کی حکمرانی رہی ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس متنازع طرز حکمرانی کے باوجود اس کو آخر ووٹ کیوں ملتا ہے۔
قومی عوامی تحریک کے رہنما ایاز پلیجو اس کی وجہ حلقے کی سیاست کو قرار دیتے ہیں۔ ’جس میں کسی تھانے سے ایس ایچ او سے بندہ چھڑوانا، تحصیل دار سے زمین کے کھاتے کی نقل کاپی دلوانا، ڈرینیج کی لائن بچھانے میں مدد شامل ہوتی ہے۔‘
تجزیہ نگار فیاض نائچ کہتے ہیں کہ ’پپیلز پارٹی نے گورننس کا جو ماڈل اختیار کیا ہے یہ ہی اس کی طاقت ہے کیونکہ اگر کسی کے پاس ملازمت نہیں، اگر کسی کا تبادلہ یا تقرری کرانی ہے تو ووٹر کو یہ ذہن نشین ہو گیا ہے کہ یہ سب پیپلز پارٹی کے بغیر ممکن نہیں، اس کے علاوہ سڑک کی تعمیر ڈرینج نظام کی تعمیر سب ان کے مرہون منت ہے۔‘
’آپ یوں سمجھیں کہ ریاستی ادارے کام نہیں کرتے اور جو الیکٹیبلز ہیں ان کے ماتحت ہی سارا نظام ہے۔‘
مخالفین متحرک اور منظم کیوں نہیں؟
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، جنھوں نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی، ان کے بعد پارٹی کی قیادت بینظیر بھٹو نے سنبھالی اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کی، جس کو ایم آر ڈی تحریک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس تحریک میں سندھ میں گرفتاریاں ہوئیں اور کارکنوں کو کوڑوں کی سزائیں سنائی گئیں۔
حروں کے روحانی پیشوا پیر علی مردان شاہ پیپلز پارٹی کے ابتدا سے مخالف اور سندھ میں اپوزیشن جماعتوں کا مرکز رہے ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے پیر صبغت اللہ شاہ نے یہ قیادت سنبھالی ہوئی ہے۔
انھوں نے 2013 میں مسلم لیگ نون کے ساتھ 12 جماعتی اتحاد بنایا اور اس کے بعد 2018 میں تحریک انصاف کے ساتھ مل کر گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کی بنیاد رکھی جس میں ان کی مسلم لیگ فنکشنل سمیت قوم پرست جماعتیں بھی شامل ہیں۔
ایاز پلیجو قومی عوامی تحریک کے سربراہ ہیں جو گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کا حصہ ہیں۔ وہ جی ڈی اے کے ٹکٹ پر سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کی تحصیل قاسم آباد سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔
ایاز پلیجو کہتے ہیں کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا سب سے بڑا مسئلہ سندھ میں ہے کیونکہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حکومتیں تبدیل ہوتی رہی ہیں لیکن صرف ایک ہی صوبہ ہے سندھ جہاں ایک ہی جماعت کی حکومت تسلسل کے ساتھ جاری ہے اس لیے لیول پلیئنگ فیلڈ یہاں نہیں۔
’ڈی سی، ایس ایس پی، آر اوز گذشتہ 15 سال سے ان کے ساتھ ہیں۔ وہ کسی کو ہلنے تک نہیں دیتے۔ اگر یہاں حکومتیں تبدیل ہوں، نئے لوگوں کو موقعہ ملے، مقتدر ادارے آخری مرحلے میں پلیٹ میں سجا کر پی پی کو حکومت نہ دیں تو دوسروں کے لیے بھی جگہ ہو گی۔‘
صحافی اور تجزیہ نگار فیاض نائچ کا ماننا ہے کہ پیپلز پارٹی کے حریف کمزور ہیں۔ ان کے مطابق قوم پرست پیپلز پارٹی کے بیانیہ کی بنیاد پر مخالفت کرتے ہیں لیکن ان کی اپنی تنظیمی ساخت کمزور ہے۔
’اس لیے وہ بیانیے کی حد تک تو پیپلز پارٹی کو پیچھے دھکیل دیتے ہیں لیکن تنظیمی ساخت مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے وہ الیکشن جیت نہیں پاتے۔‘
’دوسرا گروپ جو پیپلز پارٹی کی مخالفت کرتا ہے وہ ان الیکٹیبلز پر مشتمل ہے جو جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کے ساتھ رہے ہیں۔ ان کی اپنی کارکردگی پیپلز پارٹی سے زیادہ بدتر ہے اور وہ آپس میں اتحاد تو کرتے ہیں، کبھی ڈیمو کریٹک الائنس کی صورت میں، کبھی بارہ جماعتی اتحاد کی صورت میں لیکن ایک امیدوار اپنے حلقے سے باہر دوسرے اتحادی کی مدد نہیں کر پاتا کیونکہ اس کا اثرو سروخ اس کے حلقے تک محدود ہوتا ہے۔‘
سندھ کارڈ؟
سندھ میں پانی کی قلت ہو، کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا معاملہ ہو، مالی وسائل کی تقسیم ہو، مردم شماری ہو یا تعلیمی نصاب پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں ایک ہارڈ لائن اختیار کرتی آئی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس طرح پی پی پی سندھ میں ایک قوم پرستانہ بیانیہ اور رویہ اختیار کر لیتی ہے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینیجنمنٹ سائنسز کی اسسٹنٹ پروفیسر اور سندھ قوم پرستی پر کتاب ’ان سرچ آف لاس گلوری‘ کی مصنفہ اسما فیض کہتی ہیں کہ پی پی پی کا ایک منظم تنظیمی ڈھانچہ ہے جس کو پتا ہے کہ سیاست کیسے ہوتی ہے، اس کے پاس الیکٹیبلز اور کامیاب ہونے والے امیدوار بھی ہیں۔
’اس کے علاوہ کراچی سے باہر جو سندھی ووٹر ہے، اس کے پاس کوئی متبادل موجود نہیں۔‘
’جس طرح پنجاب میں دیکھتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں استحکام پاکستان پارٹی بنی، یہ کوششیں سندھ کے لیے بھی کی جاتی رہی ہیں لیکن موثر متبادل کھڑا نہیں کر سکے۔ تیسری چیز یہ کہ سندھ میں جو مسائل ہیں، پیپلز پارٹی ان پر سندھ کی پوزیشن لیتی ہے اور سندھی ووٹر کی جو خواہشات ہیں اس کا اظہار کرتی ہے۔ اس کے مخالف قوم پرست کچھ بھی کہیں کہ یہ سندھ فروخت کرتے ہیں لیکن ان سیاسی ایشوز کو دیکھ لیں، پی پی کا سندھ کی حمایت والا موقف موجود ہے۔‘
گورننس خراب ہوتی تو ووٹ اور نشستیں کیوں بڑھتیں؟
سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کے لیے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا اور وہی نعرہ لگاتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے اصولوں پر لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔
مراد علی شاہ کے مطابق ’مخالفین کو جب کوئی چیز نہیں ملتی تو ایسی باتیں کرتے ہیں، ہم انھیں کہتے ہیں آپ اپنا پروگرام بتائیں، وہ تو کوئی نہیں بتاتا سوائے تنقید کرنے کے۔‘
مراد علی شاہ کے مطابق ’بینظیر بھٹو کے بعد 2008 میں جو انتخابات ہوئے وہ تو الیکشن نہیں تھے۔ مخالفت میں کوئی نہیں تھا اور اگر تھا بھی تو پی پی کو ووٹ دیا جس کے بعد 2013 میں پہلے سے زیادہ نشستیں اور ووٹ ملے۔‘
مراد علی شاہ نے کہا کہ 2018 میں پیپلز پارٹی کو اس سے بھی زیادہ نشستیں ملیں اور ’اب 8 فروری کو پہلے سے بھی زیادہ نشستیں ہوں گی۔ اگر گورننس خراب ہوتی تو یہ ووٹ اور نشستیں کیوں بڑھتیں۔‘