لداخ کے ’آئس مین‘ جنھوں نے ہمالیہ میں مصنوعی گلیشیئرز بنا کر کسانوں کی زندگی آسان بنائی

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے لداخ کے رہائشی چوانگ نورفل کو ’آئس مین آف لداخ‘ کے نام سے بھی پہچانا جانے لگا ہے جنھوں نے تھکسی کے قریب واقع گاؤں ننگ میں کامیابی کے ساتھ ایک مصنوعی گلیشیئر بنا ڈالا ہے۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ایک مقامی شخص نے کسانوں کی فصلیں سیراب کرنے کے لیے ہمالیہ میں مصنوعی گلیشیئرز بنائے ہیں جس نے فصل کی بوائی کے وقت پانی کی کمی کو دور کرنے کا ایک پائیدار حل مہیا کیا ہے۔

لداخ کے گاؤں تھسکے سے تعلق رکھنے والے آلو کے کاشتکار ڈولکر نے گزرے دور کو یاد کرتے ہوئے بتایا ’مجھے یاد ہے کہ بچپن میں یہاں اتنی زیادہ برف پڑتی تھی جو تقریباً میرے گھٹنوں کے برابر تک آتی تھی لیکن اب نہ تو بارش ہوتی ہے اور نہ ہی اتنی برف باری ہوتی ہے۔‘

ڈولکر کے آباؤ اجداد آلو کے کاشتکار رہے تاہم اب انھوں نے اپنی خاندانی آمدنی کو گزرتے سالوں میں ایسے ہی کم ہوتے دیکھا ہے جیسے ان کے آبائی شہر کے آس پاس پہاڑوں پر برف کے ڈھیرمیں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔

ڈولکر کا گاؤں لداخ کے دارالحکومت لیہ سے مشرق کی جانب 19 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آلو کے کاشتکاروں کے طور پر ہماری ماہانہ آمدن 70 ہزار روپے تک تھی جو اب گھٹتے گھٹتے 20 ہزار ماہانہ تک پہنچ گئی ہے۔‘

پگھلتے گلیشیئرز

تین ملین ہیکٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے 55 ہزار ہمالیائی گلیشیئرز جو پولر کیپس (قطبین کے برف سے ڈھکے ہونے کو Polar caps کہا جاتا ہے) کے علاوہ برف کے سب سے بڑے تودوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

تاہم اب موسمیاتی تبدیلیوں سے ہمالیہ کا نازک ماحولیاتی نظام شدید متاثر ہونے کے خطرات سے دوچار ہے اور اس سے خطے کی معیشت، ماحولیات اور ایکولوجی بھی متاثر ہو گی۔

اگلی صدی کے آخر تک ہمالیہ کے گلیشیئرز کا ایک تہائی حصہ ختم ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے اور ایسا ہونے سے ایشیا کے دریائی نظام میں بڑی تبدیلیاں آئیں گی جو تقریباً ڈیڑھ ارب لوگوں کو پانی فراہم کرتے ہیں۔

ان گلیشیئرز کے پگھلنے سے جہاں فصلوں کی پیداوار متاثر ہو گی وہیں تقریباً 13 کروڑ کسانوں کی روزی روٹی بھی داؤ پر لگ جائے گی جو ان گلیشیئرز سے پگھلنے والے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔

لداخ کی آب و ہوا سرد اور خشک ہے اور یہاں اوسطً 86.8 ملی میٹر سالانہ بارش ہوتی ہے۔ جس لیے اس خطے کے 80 فیصد کسان اپنی فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے گلیشیئرز پر انحصار کرتے ہیں۔

تاہم گذشتہ 30 سالوں کے دوران برف باری میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے پہاڑوں پر برف کا احاطہ کم ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں گلیشیئر پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ ندی کا پانی آبادی کے لیے ناکافی ہے اور ہمالیائی دیہاتوں میں پانی کی شدید قلت ہے۔

لیکن ڈولکر کے گاؤں میں ایک مقامی انجینیئر نے ایک جدید تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے گلیشیئرز کے اس بحران کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔

چوانگ نورفل کو ’آئس مین آف لداخ‘ کے نام سے بھی پہچانا جانے لگا ہے جنھوں نے تھکسی کے قریب واقع گاؤں نانگ میں کامیابی کے ساتھ ایک مصنوعی گلیشیئر بنا ڈالا ہے۔

اپنے مشن کے حصے کے طور پر نورفل نے ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے مختلف دیہاتوں کا سفر کیا۔

ان دوروں کے دوران انھوں نے جانا کہ 80 فیصد کسان برف پگھلنے سے حاصل ہونے والے پانی پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ گلیشیئر سے آنے والا پانی کاشتکاری کے لیے اہم ہے تاہم یہ جون کے وسط میں بہنا شروع ہوتا ہے جبکہ بوائی کا موسم اپریل میں شروع ہوتا ہے۔

سردیوں کی طوالت کی وجہ سے غیر استعمال شدہ پگھلا ہوا پانی دریاؤں میں بہہ جاتا ہے۔

کمیونٹی کے لیے اس قیمتی وسیلے کو محفوظ رکھنے کے لیے نورفیل نے ایک مصنوعی گلیشیئر بنانے کا فیصلہ کیا۔ اور اسی سوچ کو پروان چڑھا کر لداخ کے علاقے کے 10 دیگر دیہاتوں میں بھی انھوں نے مصنوعی گلیشیئر بنا ڈالے۔

ہم پانی خود نہیں بنا سکتے۔ لہذا ہمارا واحد راستہ یہ ہے کہ ہمارے پاس جو ذرائع دستیاب ہیں ان ہی کو استعمال کیا جائے۔

ننگ نامی گاؤں بھی انھی میں سے ایک گاؤں ہے۔

لداخ کے علاقے میں لیہ شہر سے تقریباً 30 کلومیٹر کی دوری پر واقع گاؤںننگ سطح سمندر سے 3,780 میٹر کی بلندی پر واقع ہے اور یہاں صرف 334 افراد آباد ہیں۔

ننگ میں لوگوں کا واحد ریعہ معاش زراعت ہے جس کی اہم فصلیں آلو اور گندم ہیں۔

خطے کے بہت سے دیہاتوں کی طرح ننگ میں کوئی مستقل گلیشیئر نہیں ہے اور پانی کی فراہمی قدرتی چشموں اور ندیوں سے ہوتی ہے۔ تاہم یہ پانی کسانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں۔

خاص طور پر اپریل اور مئی میںفصلوں کی بوائی کے اہم موسم میں پانی کی شدید قلت ہو جاتی ہے ۔ یہ صورت حال زراعت کے لیے ایک چیلنج بن کر سامنے آتی ہے خصوصاً موسم بہار کے دوران گندم، آلو اور دیگر فصلوں کے کھیتوں کو سیراب کرنے میں انھیں دشواری ہوتی ہے کیونکہ موسم گرما تک برفانی پگھلنے کا عمل نہیں ہوتا ہے۔

رواں سال کسانوں کو غیر یقینی موسمی نمونوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنی زرعی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی میں پریشانی کا سامنا رہا۔

اور اس دوران وہ اس مخمصے کا شکار رہے کہ نے والے موسم کے لیے بوائی جائے یا نہیں۔

اگرچہ وہ فصل نہ لگاتے تو انھیں آمدنی کے نقصان کا خطرہ تھا اور اگر بوائی کی جاتی تو اس کے لیے پانی کے وسائل کی دستیابی کا خدشہ برقرار تھا۔

یہ بھی پڑھیے

موسمی تبدیلیوں کے اثرات کے مد نظر 87 سالہ انجینیئر نورفیل نے ایک جدید تکنیک متعارف کروائی جو کسانوں کو ان کی پیداوار میں کمی سے روکتی ہے اور گلیشیئرز کو ان کے گاؤں کے نزدیک لاتی ہے۔

نورفیل کا کہنا ہے کہ مرکزی گلیشیئر سے جون کے مہینے میں پانی آنا شروع ہوتا ہے۔ ’ہم پانی نہیں بنا سکتے۔ لہذا ہمارا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنے پاس دستیاب ذرائع کو ہی استعمال کریں۔‘

نورفیل کہتے ہیں کہ گلیشیر کے پانی کو بطور وسیلہ استعمال کرنے کا خیال ان کے پاس وہاں سے آیا جہاں سے انھیں اس کی کم سے کم توقع تھی اور وہ جگہ تھی ان کے گھر کے پیچھے موجود باغ کا نل۔

وہ کہتے ہیں۔

ہم سردیوں میں پانی کو رواں رکھنے کے لیے نلکوں کو کھلا رکھتے ہیں ورنہ پانی پائپوں میں جم جاتا ہے اور ان کے پھٹنے کا خطرہ ہوتا ہے تاہم، یہ پانی عام طور پر صرف بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے۔

نورفیل نے برف کے اس چھوٹے سے ٹکڑے کا مشاہدہ کیا جو ان کے رواں نلکوں میں سے ایک کے نیچے بن گیا تھا۔

پانی ایک سایہ دار جگہ کے نیچے جمع ہوا اور پھر وہاں جم گیا تھا، کیونکہ اس پر براہ راست دھوپ نہیں پر رہی تھی۔

انھیں خیال ایا کہ اگر وہ ضائع شدہ پانی کو جمع کر کے انھیں منجمد کر سکی وہ پورے گاؤں کے لیے ایک مصنوعی گلیشیئر بنا سکتے ہیں۔

نورفیل نے اسی حکمت عملی کے ساتھ مختلف اونچائیوں پر متعدد گلیشیئرز بنا ڈالے جو پورے ایک گاؤں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کام کریں گے

گاؤں کے قریب ترین سب سے کم اونچائی پر واقع گلیشیر سب سے پہلے پگھلتا ہے۔ اور موسم بہار میں بوائی کے شروع میں ضروری آبپاشی کا پانی مہیا کرتا ہے۔ جوں جوں درجہ حرارت بڑھتا ہے توں توں زیادہ اونچائی پر موجود گلیشیئر پگھلنے لگتے ہیں اور یوں نیچے کے کھیتوں کو پانی کی مسلسل اور بروقت فراہمی یقینی بن جاتی ہے۔

آئس وال تکنیک کیا ہے

یہ گاؤں انتہائی بلند و بالا پہاڑوں کے دامن میں بسا ہوا ہے جہاں آنے والے مہمانوں کا استقبال یہاں لگا وہ بورڈ کرتا ہے جو نورفیل کے مشہور مصنوعی گلیشیر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

یہ گلیشیئر خطے کے مخصوص پہاڑوں پر 30 منٹ کے پر پیچ راستوں پر واقع ہیں۔ برف کے تودے ابتدائی 10 منٹ میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

سوریا نارایانن مصنوعی گلیشیئرز سمیت پانی کے انتظام کے حل فراہم کرنے والی کمپنی’ایکرز آف آئس‘ کے شریک بانی ہیں اور وہ سوئٹزرلینڈ کی یونیورسٹی آف فریبرگ میں مصنوعی برف کے ذخائر کے حوالے سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور فی الحال اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ برف کے گلیشیئر پانی کے تحفظ کو کیسے بڑھا سکتے ہیں۔

ننگ گاؤں سے تعلق رکھنے والے بالاسوبرامنین کا کہنا ہے کہ ’گاؤں میں پانی ذخیرہ کرنے کا ایک منفرد نظام ہے جس میں پہاڑ کے اوپر ایک منجمد نہر شامل ہے جو وادی تک پھیلی ہوئی ہے۔ نہر کے ساتھ موجود چٹان کی دیواریں مخصوص طریقے سے پانی کی رفتار کم کر دیتی ہیں جس سے جمنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

ان چٹانی دیواروں کا مقصد پانی جمنے کی شرح کو بڑھانا ہے، جس کے نتیجے میں پوری وادی برف کی چادر تان لیتی ہے۔

بالاسوبرامنین کا کہنا ہے کہ یہ منفرد جدید طریقہ کار کامیاب رہا ہے۔ ان کے مطابق گاؤں کی پانی کی فراہمی میں 20 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

’ یہ گلیشیئر اپریل کے اہم مہینوں میں اب تک تقریباً 10 دیہاتوں کو پانی فراہم کر کے فائدہ پہنچا رہا ہے۔ ہم دو مزید گلیشیئر تعمیر کر رہے ہیں۔ یہ زمینی پانی کو ری چارج کرنے کا ایک بہت اچھا حل بھی ہے جو لداخ میں زیادہ سیاحت کی وجہ سے تیزی سے کم ہو رہا ہے۔‘

ننگ کے کسان گلیشیئربنانے کی اس حکمت عملی پر انتہائی خوش ہیں ۔ یہ منصوبہ پانی کی رسائی میں ان کے لیے ایک بہتر تبدیلی لایا ہے۔

رنگزین وانگیال ننگ گاؤں کے ایک 44 سالہ کسان ہیں جن کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے پہلے سے پہلے فصلوں کے لیے مطلوبہ پانی حاصل کرنا مشکل تھا۔

’مصنوعی گلیشیئر ہونے سے پہلے ہمارے لیے پانی کی مطلوبہ مقدار حاصل کرنا مشکل تھا۔ اگرچہ وہاں بہت زیادہ برف تھی جو بہت دور گرتی تھی اس لیے اسے پگھلنے میں کافی وقت لگتا تھا، اور ہمارے پاس آنے میں اس سے بھی زیادہ وقت لگتا تھا۔ اس تاخیر کا مطلب تھا کہ ہماری فصل کی کٹائی دیر سے ہوئی تھی، اور بعض اوقات ہمارے کھیت خشک ہو جاتے تھے کیونکہ ہمارے پاس پانی دستیاب نہیں ہوتا تھا۔‘

لداخ کے دیہاتوں میں ان مصنوعی گلیشیئرکے منصوبوں کے نفاذ کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم لیہہ نیوٹریشن پروگرام (LNP) ہے جس میں 2013 میں بھرتی کیے گئے ٹیم کے ابتدائی کارکنوں میں سے ایک ونگیال ہیں۔

وہ کہتے ہیں۔ ’ہم نے پانی کے بہاؤ کو موڑنے کا مشکل کام انجام دینے کے لیےاس وقت بیلچہ ٹھایا جب درجہ حرارت نقطہ انجماد پر تھا۔ میرے پاس اس وقت گرم جوتے بھی نہیں تھے، لیکن میں نے یہ کام کمیونٹی کے لیے کیا۔ اور اب مصنوعی گلیشیئر ہمارے لیے پانی کا پہلا ذریعہ ہیں۔‘

نورفیل نے 1995 میں اس تنظیم میں شمولیت اختیار کی تاکہ وہ اپنے مصنوعی گلیشیئر پروگرام کو زیادہ مؤثر طریقے سے آگے بڑھا سکیں۔ ان کی کامیابی کو ہر جگہ سراہا گیا یہاں تک کے ان کی خدمات کے لیے انڈیا کے سب سے بڑے شہری اعزازات میں سے ایک پدم شری ایواڈ بھی دیا گیا۔

ان کے تخلیقی اور منفرد کام نے دیگر منصوبوں کے لیے ایک تحریک کا کام کیا مثلاً لداخ میں سونم وانگچک کا آئس سٹوپا جس میں منجمد پانی پگھلنے اور کاشت کے موسم میں تقسیم ہونے سے پہلے سٹوپا کی مخروطی شکل اختیار کرتا ہے۔ تاہم، نورفیل وانگچک کے اس منصوبے پر کچھ تحفظٌات بھی رکھتے ہیں۔

’برف کے سٹوپا بھی ایک حل ہیں، اور آپ کو (گلیشیئرز کے برعکس) احتیاط سے سائٹ کا انتخاب کرنے کی ضرورت نہیں تاہم یہ سادہ اور کم قیمت مصنوعی گلیشیئرز کے مقابلے میں بہت مہنگے اور پیچیدہ بھی ہیں۔‘

عالمی مسئلے کا مقامی حل

ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی گلیشیئر پانی کے وسائل کے انتظام کی ایک طاقتور حکمت عملی ہیں۔ اگرچہ وہ عالمی گلیشیئر پگھلنے کے مسئلے کو حل نہیں کرسکتے تاہم وہ دنیا بھر میں متعدد کمیونٹیز کو درپیش خطرات سے مؤثر طریقے سے نمٹ سکتے ہیں جن کا بہت زیادہ انحصار گلیشیئرز پر ہے۔

امریکی کی کارنیگی میلن یونیورسٹی کے شعبہ سول اور ماحولیاتی انجینئرنگ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈیوڈ روونس کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک بہت ہی بہترین خیال ہے جس کے حالیہ مقالے میں اکیسویں صدی کے آخر تک دنیا کو گلیشیرز کی حجم 25 سے 40 فیصد کے درمیان کم ہونے کا خطرہ ظاہر کیا گیا ہے۔‘

رونس کہتے ہیں کہ ’ان خطوں میں استعمال کیے جانے والے طریقے جن میں آئس سٹوپا اور گلیشیئرز شامل ہیں، کامیابی سے چلتے نظر آ رہے ہیں۔

یہ طریقے بہت سارے پانی کا زخیرہ کر سکتے ہیں اور اونچے پہاڑوں میں رہنے والی آباد کے لیے میٹھے پانی کے قیمتی وسائل مہیا کرتے ہیں لیکن جب ہم اس مسئلے کے بارے میں سوچتے ہیں، تو یہ ہے کہ درجہ حرارت صرف اس وقت تک بڑھتا ہی رہے گا جب تک کہ ہم بطور عالمی معاشرہ مل کر قدم نہیں اٹھاتے۔‘

ہمالیہ میں موسمیاتی لچک پر کام کرنے والی ایک بین الحکومتی تنظیم انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ (آئی سی آئی ایم او ڈی) نیپال نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں پالیسی سازوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے بدترین اثرات کے لیے تیار رہیں۔ رپورٹ میں یہ نتیجہ بھی اخذ کیا گیا ہے کہ ان تبدیلیوں سے انسانی زندگی اور فطرت کے لیے سنگین نتائج ہوں گے۔

آئی سی آئی ایم او ڈی کی ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایزابیلا کوزیل نے کہا، ’ایشیا میں دو ارب لوگوں کے پانی کا انحصار یہاں کے گلیشیئرز اور برف پر ہے۔ کرائیوسفر(زمین کی سطح کا وہ حصہ جہاں منجمد پانی کے ذخائر ہیں) کو کھونے کے نتائج کا تصور بھی محال ہے ۔ ہمیں تباہی کو روکنے کے لیے لیڈرز کی ضرورت ہے۔‘

رونس کا 2023 کا مطالعہ پانی کی فراہمی اور لاکھوں لوگوں کی روزی روٹی کو برقرار رکھنے میں چھوٹے گلیشیئرز کی اہمیت کو واضح کرتا ہےخصوصا وسطی یورپ اور اونچے پہاڑی ایشیا جیسے خطوں میں یہ اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

رونس کہتے ہیں ’یہ چھوٹے گلیشیئرز ننگ اور تھسکی جیسی پہاڑی مقامی آبادیوں کے لیے اہم ہیں۔

’عالمی سطح پر (نارفیل کی) تکنیک پر غور کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ دنیا بھر میں چلی اور وسطی یورپ جیسی بہت سی کمیونٹیز، پانی کے ان وسائل پر انحصار کرتی ہیں۔ اس لیے یہ پانی سے متعلق چیلنجوں کا سامنا کرنے والی مختلف عالمی برادریوں کے لیے ایک مؤثر مقامی حل ہو سکتا ہے۔‘

تاہم وہ مزید کہتے ہیں کہ چھوٹے پیمانے کے ایسے منصوبے آب و ہوا کے حل کے بجائے نقصان کی تخفیف کی محض تکنیک ہیں۔اور یہ سوچنا کہ یہ حکمت عملی عالمی سطح پر گلیشیئرز کے نقصان کو روک سکے گی، بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوگا۔‘

نورفیل کا خیال ہے کہ ان کی سادہ، کم لاگت تکنیک ایک دیرپا طریقہ ضرور ہے۔

’ہم پانی پیدا نہیں کر سکتے، لیکن ہم دستیاب ذرائع کا استعمال کر سکتے ہیں۔ گاؤں کے لوگوں کو شامل کر کے، ہم قابل افراد کو تربیت دے سکتے ہیں کہ وہ اس کی دیکھ بھال خود سنبھال سکیں۔ یہ مصنوعی گلیشیئرز دیہاتوں میں ندیوں کو دوبارہ بنانے میں بھی مدد کرتے ہیں، جو پانی کا ایک اہم ثانوی ذریعہ ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.