ویتنام جنگ کے ’انچاہے بچے‘: ’میرے باپ کو تو میری ماں کا پورا نام بھی پتہ نہیں تھا‘

امریکہ نے ویتنام جنگ کے دوران شمالی ویتنام پر بمباری کے لیے تھائی ایئر بیس کا استعمال کیا تھا۔ اس وقت ہزاروں امریکی فوجی تھائی لینڈ میں مقیم تھے۔ اس دوران انھوں نے مقامی خواتین کے ساتھ رشتے بنائے اور ان سے بچے پیدا ہوئے۔
جینی اسٹوبر اور مورس کے پلے رابرٹس
Jenny Stüber/Morris K Ple Roberts
جینی اسٹوبر اور مورس کے پلے رابرٹس ان ہزاروں نیم تھائی اور نیم امریکی بچوں میں سے دو ہیں جن کے حیاتیاتی باپ امریکی فوجی تھے

امریکہ نے ویتنام جنگ کے دوران شمالی ویتنام پر بمباری کے لیے تھائی ایئر بیس کا استعمال کیا تھا۔ اس وقت ہزاروں امریکی فوجی تھائی لینڈ میں مقیم تھے۔ اس دوران انھوں نے مقامی خواتین کے ساتھ رشتے بنائے اور ان سے بچے پیدا ہوئے۔ لیکن زیادہ تر فوجی جنگ کے بعد واپس امریکہ چلے گئے۔ ان بچوں میں سے کچھ پچاس سال بعدنئے ڈی این اے ٹیسٹ کی وجہ سے اپنے اصل والدین کے ساتھ دوبارہ مل رہے ہیں۔

جینی سٹوبر سنہ 1970 میں ایک نوجوان تھائی خاتون کے ہاں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی والدہ اس وقت بینکاک سے کوئی 140 کلومیٹر جنوب مشرق میں یو-تاپاؤ ایئر بیس کے قریب کہیں قیام پذیر تھیں۔

جینی اپنی آپ بیتی بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ولادت کے بعد ’میری ماں مجھے نہیں رکھ سکی۔ انھوں نے مجھے اپنی ایک دوست کو دے دیا لیکن وہ بھی مجھے نہیں پال سکیں۔‘

لہٰذا جینی کو ’جنگ کے پیدا ہونے والے ان چاہے بچوں‘ کی امداد کرنے والی بین الاقوامی تنظیم پرل ایس بک فاؤنڈیشن کے حوالے کر دیا گیا۔

جینی اپنی ماں اور بڑے بھائی کے ساتھ
Jenny Stüber
جینی سٹوبر کو اس وقت گود لیا گیا جب وہ صرف تین ہفتے کی تھیں

کوئی نہیں جانتا تھا کہ جینی کا باپ کون ہے۔ ان کے پاس جینی کے والد کے متعلق صرف اتنی ہی معلومات تھی کہ وہ یو-تاپاؤ میں تعینات ایک امریکی فوجی تھے۔ یہ ایئربیس ویتنام جنگ کے دوران تھائی لینڈ میں بنائے گئے آٹھ امریکی اڈوں میں سے ایک تھی اور ان کے بی-52 بمبار طیاروں کے لیے ایک بنیادی ہوائی اڈہ تھا۔

سنہ 1965 اور 1973 کے درمیان شمالی ویتنام میں کمیونسٹ حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے ہر سال لاکھوں امریکی فوجی اس خطے میں بھیجے گئے تھے۔

جنگ میں لڑنے والے امریکی فوجیوں کے محکمے (یو ایس ویٹرن افیئرز) کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ اس پورے تنازعے کے دوران مجموعی طور پر 34 لاکھ امریکیوں کو جنوب مشرقی ایشیا میں تعینات کیا گیا تھا۔

امریکی فوجی
Getty Images
جنگ کے دوران تقریباً 58000 امریکی فوجی مارے گئے

امریکہ کو سرد جنگ کی وجہ سے کمیونزم کے پھیلاؤ کے خدشات تھے اور خاص طور پر ’ڈومینو کے اصول‘ کی وجہ سے کیونکہ اس کے مطابق اگر ایک ایشیائی ملک بائیں بازو کے نظریے کی طرف مائل ہوتی ہے تو دوسرے بھی تیزی سے اس کی پیروی کریں گے۔

جنگ کے عروج کے زمانے میں تھائی لینڈ میں تقریباً 50,000 امریکی فوجی تعینات تھے۔ اور ویت نام میں موجود ہزاروں فوجی یا جی آئیز (حکومت کے جاری کردہ) لوگ آرام اور تفریح کے نام نہاد پروگرام کے تحت مسلسل تھائی لینڈ آتے جاتے رہتے تھے۔

اور اس تفریحی اور آرام کے لیے امریکی فضائی اڈوں کے ارد گرد بننے والے قحبہ خانوں میں بار، نائٹ کلب، اور تفریحی مقامات ابھرے۔ بہت سے فوجیوں کے مقامی خواتین کے ساتھ معاشقے یا مختصر مدت کے تعلقات بھی قائم ہوئے۔

جینی ایسے ہی ایک رشتے سے پیدا ہونے والی اولاد تھیں۔

جینی بچپن میں
Jenny Stüber
سونے کے وقت سنائی جانے والی کہانیوں کے ذریعے جینی کے گود لینے والے خاندان نے بتایا کہ وہ گود لی گئی تھیں

جب جینی محض تین ہفتوں کی تھیں تو انھیں ایک سوئس جوڑے نے گود لے لیا۔ یہ جوڑا اس وقت تھائی لینڈ میں کام کر رہا تھا۔ اپنے سوئس بہن بھائیوں کے ساتھ پرورش پانے والی جینی کو کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ وہ ان سے مختلف ہے۔

پھر ایک دن۔۔۔

وہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’بنکاک کے ایک ڈپارٹمنٹ سٹور پر ایک خاتون نے مجھ سے پوچھا کہ میری ماں کہاں ہے۔ میں نے اپنی والدہ کی طرف اشارہ کیا، جو سنہرے بالوں والی عورت تھیں اور ان کے پاس ہی کھڑی تھیں۔ وہ خاتون اس بات پر حیران و پریشان نظر آنے لگیں۔‘

سونے کے وقت سنائی جانے والی کہانیوں کے ذریعے انھیں پتا چلا کہ انھیں گود لیا گیا تھا۔

جب جینی 14 سال کی ہوئیں تو ان کا خاندان سوئٹزرلینڈ چلا گیا لیکن انھوں نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ اپنے حیاتیاتی والدین کو تلاش کرنے کے لیے ایک دن واپس تھائی لینڈ آئیں گی۔

سنہ 2022 میں ڈی این اے ٹیسٹوں کی بدولت (جو اب آسانی سے قابل رسائی ہیں) وہ امریکہ میں اپنے والد کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔

لیکن ان کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ جینی اب 53 سال کی ہیں لیکن انھیں اب بھی شدت سے اپنی تھائی ماں کی تلاش ہے۔

جینی اشکبار آنکھوں سے کہتی ہیں: ’میں اپنے آپ سے کہتی ہوں کہ شاید کبھی اپنی ماں سے نہ مل پاؤں گی اور میری کہانی کا کوئی خوش کن انجام نہیں ہوگا۔‘

جنگ اور سیکس ٹورزم

ویت نام سے بھاگتے ہوئے امریکی فوجی
Getty Images
ویتنام جنگ میں امریکہ کا کردار اس وقت ختم ہوا جب کمیونسٹ شمالی ویت نام کے فوجیوں نے جنوب میں سائگون پر حملہ کر دیا

طویل جنگ کی قیمت اور جانی نقصان امریکہ کے لیے بہت زیادہ ثابت ہوا اور انھوں نے سنہ 1973 میں اپنی افواج واپس بلا لی لیکن دو سال بعد غیر کمیونسٹ جنوبی ویتنام کو کمیونسٹ شمالی کی طرف سے پورے پیمانے پر حملے کا سامنا کرنا پڑا۔

امریکیوں کی موجودگی نے تھائی لینڈ کے بارے میں بین الاقوامی تاثر کو ڈرامائی طور پر تبدیل کر دیا اور سیاحت میں بھی زبردست اضافہ ہوا۔ سنہ 1960 میں صرف 200,000 بین الاقوامی اور مقامی زائرین والے ملک میں سنہ 1970 میں 800,000 لوگ پہنچے جبکہ اس کے صرف ایک دہائی بعد اس نے 50 لاکھ زائرین کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

ویتنام کی جنگ کے پچاس سال بعد تھائی لینڈ ایک اہم عالمی سیاحتی مقام بنا ہوا ہے اور یہ سیکس کی سیاحت کا ایک مرکز ہے جو کہ جزوی طور پر جنگی دور کی پیداوار ہے۔

ٹی وی پر اپیل

جینی اسٹوبر کی پیدائش سے چند سال قبل ایک ایسے ہی واقعے میں مورس کے پلے رابرٹس کو بھی گود لیا گیا تھا۔ وہ بھی ایک امریکی فوجی کے تھائی خاتون سے تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے۔

رابرٹس کی ماں نے اپنے بچے کو عالمی تنظیم پرل ایس بک کے حوالے کیا۔ یہ وہی فاؤنڈیشن تھی جس نے جینی کو گود لینے میں سوئس خاندان کی مدد کی تھی۔

فاؤنڈیشن کے تخمینے کے مطابق 1968 تک وہاں ’2000 سے زیادہ‘ ایسے بچھے تھے جو نیم تھائی اور نیم امریکی تھے اور ان کے حیاتیاتی باپ جنگ کے دوران تھائی لینڈ میں تعینات امریکی اہلکار تھے۔

یہاں تک کہ ایسے بچوں کے لیے ’امریکن‘ کی اصطلاح گڑھ لی گئی تھی۔ یعنی مشرقی یا جنوب مشرقی ایشیاء میں پیدا ہونے والوں بچوں کو ’امریکن‘ کہا جانے لگا جن کی ماں مقامی اور بات امریکی فوجی تھے۔

فاؤنڈیشن نے بی بی سی کو بتایا کہ جنگ کے بعد امریکہ واپس جانے والے فوجیوں میں سے صرف پانچ فیصد نے تھائی لینڈ میں اپنے بچوں کو مالی مدد فراہم کی اور جن لوگوں نے ابتدا میں ایسا کیا ان میں سے بھی اکثریت نے ایک سال بعد مالی اعانت بند کر دی۔

مورس اپنے والد اورسوتیلیوالدہ کے ساتھ
Morris K Ple Roberts
اپریل سنہ 2022 میں مورس پہلی بار اپنے 85 سالہ والد سے ملنے الاباما گئے

مورس ایک امیر تھائی خاندان کی دیکھ بھال میں پلے بڑھے۔ آج وہ ایک معروف اداکار اور ٹی وی پریزینٹر ہیں۔ لیکن وہ اپنے بچپن کو نظر انداز کیے جانے کے طور پر بیان کرتے ہیں۔

ان کے مطابق ان کی پرورش ’نوکر کے طور پر‘ ہوئی تھی، یہاں تک کہ انھیں کھانے کے عوض کام کرنا پڑتا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’گھر میں مجھے مارا پیٹا جاتا اور گالیاں دی جاتی تھیں۔ سکول میں، میں دوسرے بچوں سے لڑتا تھا۔ میری سیاہ جلد کا مطلب یہ تھا کہ مجھے گندا سمجھا جاتا تھا۔۔۔ میں ان کے لیے حقیر شخص تھا۔‘

وہ کئی بار گھر سے بھاگے لیکن ہمیشہ ہی انھیں واپس آنا پڑا۔ 17 سال کی عمر میں، مورس نے بالآخر اپنا رضاعی گھر چھوڑ دیا اور پٹایا میں انھوں نے پرل ایس بک فاؤنڈیشن سے رابطہ کیا۔

ان کے تعاون سے وہ اپنی پیشہ ورانہ ڈگری مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد وہ تھائی لینڈ کے انٹرٹینمنٹ شعبے میں شامل ہو گئے اور ٹی وی شوز کی میزبانی شروع کر دی اور مورس کے نام سے جانے گئے۔

اپنے شوز میں وہ ہر شخص سے اپیل کرتے کہ جن کے پاس ان کی والدہ کے بارے میں کوئی معلومات ہیں وہ آگے آئیں۔

1995 میں جب مورس 34 سال کے ہوئے تو ایک دن وہ ان کے اپارٹمنٹ پہنچیں۔

مورس کہتے ہیں کہ ’میں انھیں گلے لگانا چاہتا تھا لیکن ہم بغل گیر نہیں ہوئے۔ ماں کی محبت کی ضرورت میرے اندر غصے میں بدل گئی۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ آخر انھوں نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔‘

مورس اپنے والد ایسائیا کے ساتھ
Morris K Ple Roberts
ڈی این اے ٹیسٹ سے پتہ چلتا ہے کہ مورس کا ڈی این اے ان کے والد کے ساتھ 99.6 فیصد ملتا تھا

انھوں نے مورس کو بتایا کہ کسی تھائی خاتون کے لیے بغیر باپ کے سیاہ بچے کو پالنا کسی سکینڈل سے کم نہیں تھا۔ انھوں نے مورس کو بتایا کہ ’ان کے بغیروہ دوبارہ شادی کر سکتی تھیں، ایک گھر بسا سکتی تھیں۔‘

مورس کو پتا چلا کہ ان کے والد ایک امریکی فوجی تھے جو بنکاک کے مشرق میں چاچوینگساو صوبے کے قریب کام کرتے تھے اور وہ وہیں ان کی ماں سے ملے تھے۔

انھوں نے کچھ عرصہڈیٹنگ کی لیکن پھر مورس کی ماں کو بتائے بغیر تھائی لینڈ سے چلے گئے۔

’میری ماں کو تو میرے والد کا نام بھی یاد نہیں تھا۔ انھوں نے تمام تصاویر اور باقی سب کچھ جلا دیا تھا۔ میری ماں ان کے بارے میں سب کچھ بھول جانا چاہتی تھی، لوگ انھیں ایک سیکس ورکر سمجھتے تھے۔‘

مورس اور ان کے اہل خانہ
Morris K Ple Roberts
مورس اور ان کے اہل خانہ

تھائی لینڈ میں ان ’انچاہے‘ بچوں کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر جسم فروشی بھی انہی سالوں میں بڑھی۔

برسٹل یونیورسٹی کے پروفیسر یانوس زیلبربرگ کا کہنا ہے کہ امریکی فضائی اڈوں کے قریب ریڈ لائٹ ایریاز کی ترقی ویتنام جنگ کے دوران ملک میں فوجی موجودگی کا نتیجہ ہے۔

پروفیسر زیلبربرگ کہتے ہیں کہ 'تھائی لینڈ جنسی صنعت کس طرح ترقی کرتی ہے اس کی ایک واضح مثال ہے۔ امریکی فوجی ویتنام میں لڑنے گئے تھے لیکن انھوں نے اپنا آف ڈیوٹی وقت تھائی لینڈ میں آرام سے گزارا۔ جب جنگ ختم ہوئی تو سیاحوں نے فوجیوں کی جگہ لے لی۔‘

آج تک ریڈ لائٹ والے علاقے وہیں موجود ہیں جہاں امریکی اڈے قائم تھے حالانکہ فوجی چوکیاں دہائیاں پہلے بند ہو گئی ہیں۔

ادون تھانی
Kevin Kim
ریڈ لائٹ ایریا کا وجود امریکی فوجیوں کی آمد کا نتیجہ ہے

’کرایے کی بیویاں‘

لو، منی آبلیگیشن: ٹرانس نیشنل میرج ان اے نارتھ ایسٹرن تھائی ولیج یعنی ’محبت، پیسہ، ذمہ داری: شمال مشرقی تھائی گاؤں میں ملک سے باہر کی شادیاں‘ نامی کتاب کی مصنفہ پیٹچارن لاپانن بتاتی ہیں کہ تھائی خواتین اور امریکی فوجی مردوں کے درمیان پیچیدہ تعلقات تھے۔

مصنف کا کہنا ہے کہ کچھ معاملات میں ’وہ چند ماہ تک ایک جوڑے کے طور پر ساتھ رہتے اور ان کا رشتہ اس وقت تک قائم رہتا جب تک کہ انھیں جنگی محاذ پر یا امریکہ واپس نہیں بھیج دیا جاتا تھا۔‘

تھائی معاشرے میں کچھ لوگوں نے ان خواتین کو ’کرائے کی بیویوں‘ کے طور پر دیکھا۔

مورس کی والدہ ان کی پہلی ملاقات کے تقریبا دس سال بعد فوت کر گئیں تو ٹی وی پریزینٹر نے سوچا کہ یہ ان کے حیاتیاتی والد سے ملنے کی ان کی جستجو کا خاتمہ ہے۔

لیکن برسوں بعد انھوں نے ایک امریکی کمپنی میں ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا۔ وہ کمپنی کسی کے آباؤ اجداد کا پتہ لگانے کی پیشکش کرتی ہے۔

نتائج سامنے آئے اور آخر کار ان کے ایک کزن کی شناخت ہوئی۔ انھوں نے اپنے کزن سے یہ پوچھنے کے لیے رابطہ کیا کہ آیا ان کے خاندان کا کوئی فرد سنہ 1964 اور 1966 کے درمیان تھائی لینڈ میں رہا تھا۔

ان کے خاندان کا ایک شخص ایسا تھا اور ان کا نام عیسائیہ رابرٹس تھا۔ سنہ 2019 میں ان کے کزن نے مورس اور رابرٹس کے درمیان پہلی ویڈیو کال کا بندوبست کرنے میں مدد کی۔ رابرٹس کے تین دوسرے بڑے بچے ہیں۔

کووڈ وبا کی وجہ سے کئی سال کی تاخیر کے بعد بالآخر مورس سنہ 2022 میں پہلی بار اپنے 85 سالہ والد سے ملنے الاباما پہنچے۔

ڈی این اے ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ ان کا 99.6 فیصد جینیاتی میل تھا۔ مورس کہتے ہیں کہ ’میرے والد نے کہا کہ ہمیں مزید ڈی این اے ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہے، ان کا ڈی این اے میرے چہرے پر موجود ہے۔‘

رابرٹس نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ’میں جانتا ہوں کہ وہ ممکنہ طور پر میرا خون ہے کیونکہ میرا اس کی ماں کے ساتھ رشتہ تھا۔ میں اسے مسترد نہیں کروں گا۔ میں اسے قبول کرتا ہوں اور ذمہ داری لیتا ہوں۔‘

رواں سال کے اوائل میں مورس نے تھائی لینڈ میں اپنا ٹی وی کریئر چھوڑ دیا اور اپنے والد کے ساتھ رہنے کے لیے امریکہ چلے گئے۔ وہ اپنی نئی زندگی کی ویڈیوز آن لائن شیئر کرتے ہیں۔

بنکاک میں سوئی کاؤ بوائے کے نام سے مشہور رات کی تفریحی گلی
Getty Images
بنکاک میں سوئی کاؤ بوائے کے نام سے مشہور رات کی تفریحی گلی

نام کا بھی پتا نہیں

جینی اسٹوبر مورس کی اپنے والد کو گلے لگاتے ہوئے ویڈیوز دیکھتی ہے اور اس کی آنکھیں چھلک آتی ہیں۔

انھوں نے بھی سنہ 2022 میں ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے اپنے والد کا پتا چلا لیا ہے لیکن وہ ابھی تک نہیں ان سے نہیں ملی ہیں۔

اب ان کے والد 78 سال کے ہیں۔ وہ امریکی جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ وہ خطوط اور تصاویر کا تبادلہ کرتے ہیں اور انھیں یقین ہے کہ وہ واقعی ان کی بیٹی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں نے ان سے پوچھا کہ میری ماں کون ہے تو وہ کہتے ہیں وہ ان کا پورا نام نہیں جانتے۔‘

(اور اس کے ساتھ ہی) وہ دروازہ جو مجھے میری ماں تک لے جا سکتا تھا، بند ہو گیا ہے۔‘

اپنے خطوط میں جینی کے والد نے یاد کیا کہ ان کی ماں یو-تاپاو ایئر بیس کے باہر کھانے کے سٹال پر کام کرتی تھیں۔ جب وہ تھائی لینڈ میں تعینات تھے تو وہ تقریباً 10 ماہ تک ایک دوسرے سے ملتے رہے۔

’پھر میرے والد کو 1970 میں امریکہ واپس بلایا گیا کیونکہ فوج ان کے چھوٹے بھائی کو سائگون بھیجنا چاہتی تھی اور (امریکی فوج میں) ایک اصول تھا کہ ایک ہی خاندان سے ایک سے زیادہفوجیوں کو بیک وقت ملک سے باہرتعینات نہیں کیا جا سکتا تھا۔‘

انھں کبھی پتہ نہیں چلا کہ فوڈ سٹال پر کام کرنے والی تھائی خاتون حاملہ تھی۔

جینی اپنے والد کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ کبھی میری ماں کا پورا نام نہیں جان سکے۔ انھیں افسوس ہے کہ انھوں نے کبھی نہیں پوچھا۔‘

ان کے والد نے بعد میں شادی کر لی اور ان کی طلاق بھی ہو گئی ہے اور ان کے دو بالغ بچے ہیں۔

جینی کئی بار واپس تھائی لینڈ گئیں اور اس علاقے کا دورہ کیا جہاں کھانے پینے کے سٹال لگے تھے۔ انھوں نے محلوں کے مقامی حکام سے رابطہ بھی کیا جہاں ان کے خیال میں ممکنہ طور پر ان ماں رہتی اور کام کرتی تھیں، لیکن کوئی سراغ نہیں ملا۔

میں نے ان کی تصویر بنانے کی کوشش کی ہے۔ میرے والد نے مجھ سے کہا کہ ’جینی، اپنے آپ کو آئینے میں دیکھو، مسکراؤ تو تم اسے دیکھو لو گی۔‘

فی الحال جینی کو امید ہے کہ ان کے حیاتیاتی والد کو معافی مل جائے گی اور وہ جلد ہی جیل سے باہر آجائیں گے۔ وہ ان کے ساتھ ویڈیو چیٹ کرنا پسند کریں گی۔

وہ کہتی ہیں: 'امید ہے اگلے سال یا شاید اس کے بعد۔ کون جانتا ہے، شاید کبھی نہیں۔۔۔'


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.