جگا جٹ: پنجاب کا رابن ہڈ جس نے انگریز راج کی نیندیں اڑا دیں

image

یہ پنجاب کے رابن ہڈ جگا جٹ ہیں۔ برطانوی راج کے خلاف مزاحمت کے دنوں کا ایک اہم نام۔ ایک ڈکیت جسے رابن ہڈ کا خطاب ملا۔

وہ رابن ہڈ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امیروں سے دولت لوٹ کر غریبوں میں تقسیم کر دیا کرتا تھا۔ ایک ایسی سوچ جو سرمایہ دارانہ نظام کی نفی کرتے ہوئے اس بے بسی کی جانب اشارہ کرتی ہے جس میں طاقت وروں سے لوٹ مار کرنا بھی درست قرار پاتا ہے۔

 گھبرو جوان جگا جٹ سال 1901 یا 1902 میں قصور کے نواحی گاؤں برج رام سنگھ میں پیدا ہوا۔ نام جگت سنگھ ورک تھا مگر شہرت جگا جٹ کے نام سے ملی۔

لیجنڈ شوکت علی، گرداس مان، ابرارالحق، لوک گلوکار فضل جٹ اور حال ہی میں دلجیت دوسانجھ نے بادشاہ اور اکا کے ساتھ مل کر جگا جٹ پر گیت گایا ہے مگر یہ سوال اہم ہے کہ جگا جٹ پر پہلی بار گیت کس نے گایا؟

جگا جٹ کی تاریخ وفات کچھ تاریخی ماخذوں کے مطابق 1931 اور کچھ کے مطابق 1932 ہے۔ یوں، جگا جٹ کی عمر اپنی موت کے وقت 30 سال سے زیادہ نہیں تھی۔

یہ سال 1935 کی بات ہے جب جگا جٹ پر پہلا گیت ’جگا جمہیا تے ملن ودھائیاں‘ (جگا پیدا ہوا تو مبارکبادیں ملیں) لاہور کی ایک مشہور گائیکہ اور رقاصہ طمنچہ جان نے ایک پنجابی فلم کے لیے گایا تھا۔ یہ وہ طمنچہ جان ہی ہیں جن کا ذکر مصنف پرانل نیول نے اپنی کتاب ’لاہور جب جوان تھا‘ میں کیا ہے۔

طمنچہ جان کا اصل نام تو گلزار بیگم تھا مگر انہوں نے طمنچہ جان کے نام سے شہرت حاصل کی اور جگا ان کا مشہور ترین گیت ہے جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جگا جٹ اپنی موت کے کچھ ہی برسوں بعد پورے پنجاب میں ایک ہیرو کا درجہ پا چکا تھا۔

پنجاب کا پہلا رابن ہڈ دُلا بھٹی کو مانا جاتا ہے جنہوں نے اکبر اعظم کو لگان دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد امرتسر کے ڈکیت نظام لوہار ایک اہم انقلابی کے طور پر ابھرے جن کی موت قصور میں ہی ہوئی جو اس وقت ضلع لاہور کا حصہ تھا۔

جگا جٹ برطانوی راج کے خلاف مزاحمت کے دنوں کا ایک اہم نام ہے۔ فوٹو: گیٹی امیجز

ملنگی اور جگا ڈاکو تقریباً ہم عصر تھے اور دونوں ہی قصور سے تھے۔ اس زمانے کے ایک اور ڈاکو امام دین گوہاویہ لاہور کے نواحی گاؤں گوہاویہ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ تمام ڈاکو انگریزوں کے خلاف مزاحمت اور پنجاب کے رابن ہڈ کے طور پر معروف ہوئے۔

جگت سنگھ جگا کی کہانی مگر ان میں سب سے دلچسپ ہے کیوں کہ وہ ایک بڑے زمین دار خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔

وہ سردار مکھن سنگھ اور بھاگاں بی بی کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کے والد 250 ایکڑ اراضی کے مالک تھے۔ سردار مکھن سنگھ اور بھاگاں کے جگا سے قبل چھ بچے پیدا ہوئے مگر ان میں سے کوئی بھی بچ نہیں سکا۔

سردار مکھن سنگھ اس وقت قریبی گاؤں سوڈھی والا کے ایک بزرگ اندر سنگھ کے پاس دعا کروانے کے لیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اگلے بچے کی پیدائش سے قبل بکرا خریدیں اور بچہ پیدا ہو تو وہ بکرے کو چھوئے جب کہ بچے کا نام حرف ’ج‘ سے شروع نہ ہوتا ہو۔

سردار مکھن سنگھ اور بھاگاں نے ایسا ہی کیا۔ بچہ زندہ رہا اور بکرا مر گیا مگر بچے کے چچا روپ سنگھ کے کہنے پر اس کا نام جگت سنگھ رکھ دیا گیا جس سے بزرگ نے منع کیا تھا۔

جگت سنگھ کے کھیلنے کودنے کے دن تھے جب اس کے والد چل بسے۔ جگے کی پرورش اس کے چچا اور ماں نے کی۔

جگے کو شروع سے ہی پہلوانی کا شوق تھا اور وہ گاؤں کے اکھاڑے میں پہلوانی کیا کرتا تھا۔ وہ کسرتی جسم کا مالک اور درمیانے قد کا تھا اور چہرے پر گھنی مونچھوں نے اس کی شخصیت کو اور بھی رعب دار بنا دیا تھا۔

جگا جٹ کی پہلی لڑائی اپنے سسرالی گاؤں میں نکئی بھائیوں سے ہوئی جنہیں اس نے ان کے غرور کا خوب سبق سکھایا۔ اس کے بعد اس کی توتکار گاؤں کے پٹواری سے اپنی اراضی سے متعلق معلومات طلب کرنے پر ہوئی۔

جگا جٹ امیروں سے دولت لوٹ کر غریبوں میں تقسیم کرتا تھا۔ فوٹو: گیٹی امیجز

پٹواری نے جب ریکارڈ دینے سے انکار کیا تو جگا غصے میں آ گیا اور اس نے اس کا تمام ریکارڈ پھینک دیا جس کے بعد جگا جٹ کی شہرت قریبی دیہاتوں میں پھیل گئی۔

برطانوی نوآبادیاتی دور میں ایسے نوجوانوں پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی کیونکہ وہ برطانوی حکومت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے تھے۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پنجاب بھر میں انگریزوں کے خلاف تحریک زور پکڑ رہی تھی۔ انگریز انتظامیہ کے لیے حالات غیرمعمولی طور پر پریشان کن ہوتے جا رہے تھے۔

دوسری جانب جگا کی اس شہرت سے کوٹ موکھال گاؤں کے ذیلدار حسد کرنے لگے۔ انہوں نے جگا کی شہرت کو اپنے لیے چیلنج تصور کیا اور ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر اسے جیل بھجوا دیا۔

جگا جیل سے چھوٹا تو قریبی گاؤں بھائی پھیرو میں چوری کی ایک واردات ہوئی۔ زیلدار نے اپنے دوست پولیس انسپکٹر اصغر علی کے ساتھ مل کر جگا کو اس مقدمے میں پھنسا دیا اور یوں جگا کو ایک بار پھر پولیس سٹیشن پیش ہونے کا حکم ہوا۔ جگا کے بہت سے دوستوں نے اس سے کہا کہ وہ پولیس کے روبرو پیش ہو جائے مگر جگا بضد رہا اور مفرور ہو گیا۔

جگا پولیس کے رویے سے اس قدر دلبرداشتہ ہوا کہ اس نے کنگن پور گاؤں میں ایک پولیس اہل کار سے رائفل چھینی اور اسے گولی مار دی۔ اس کے بعد جگا ڈاکو بن گیا اور لوگوں کو اسلحے کے زور پر لوٹنے لگا لیکن کہتے ہیں کہ وہ صرف امیروں کو ہی لوٹا کرتا تھا جبکہ غریبوں کی مدد کیا کرتا۔

جگے نے پہلی ڈکیتی قصور کے ایک نواحی گاؤں میں ایک سنار کے گھر پر کی اور غریب لوگوں کے لیے گئے قرضوں کا تمام ریکارڈ جلا ڈالا۔

اس نے جلد ہی ایک گروہ بنا لیا جس میں اس کے بہت سے دوست شامل ہو گئے۔ لالو نائی گروہ کے لیے کھانا بنانے کا کام کیا کرتا تھا۔

یہ سال 1932 کی بات ہے۔ قریبی گاؤں سدھوپور کے مشہور مسلمان ڈکیت ملنگی اور اس کے غریب کسان خاندان سے تعلق رکھنے والے ساتھی ہرنام سنگھ کے بارے میں پولیس کو مخبری ہوئی اور وہ دونوں پولیس مقابلے میں مارے گئے۔ ملنگی کی بہن اور بھائی بھی قتل ہو گئے جب کہ ان کے والد صدمے سے چل بسے۔

جگا جٹ کو موت کے کچھ برسوں بعد پورے پنجاب میں ہیرو کا درجہ ملا۔ فوٹو: پاسٹ انڈیا

جگے کو اس بارے میں معلوم ہوا تو وہ ملنگی کی والدہ سے ملنے چل دیا۔ اس نے سہ پہر وہیں گزارنے کا فیصلہ کیا اور لالو نائی سے کھانا بنانے کے لیے کہا۔ وہ پہلے سے ہی موقع کی تاک میں تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ جگے اور اس کے ساتھیوں نے شراب پی لی ہے تو اپنے بھائیوں کو بلایا اور حکومت سے انعام کے لالچ میں جگے کو اس کے ساتھیوں سمیت قتل کر دیا۔

جگے پر بنے گیت میں اس جانب کچھ یوں اشارہ کیا گیا ہے:

جگا وڈھیا بوڑھ دی چھاویں

نو من ریت پھج گئی پورنا

نائیاں نے وڈھ چھڈیا جگا سورما

(جگے کو جب مارا گیا تو وہ برگد کے درخت کی چھاؤں میں دراز تھا۔ وہ مرا تو ریت لہو رنگ ہو گئی اور نائیوں نے جگے جیسے بہادر انسان کو مار ڈالا)

کچھ لوک روایات یہ ہیں کہ برطانوی حکام نے جگے کے گھر پر حملہ کیا۔ بہت سے لوگوں کو مارنے کے بعد گھروں کو جلا ڈالا۔ جگا کبڈی کا میچ کھیل کر واپس لوٹا تو اس نے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ انگریز حکام نے اس وقت جگے کی محبوبہ بلو کے والد بلاکی نائی کی مدد حاصل کی۔

جگا ایک روز بلو سے ملاقات کرنے کے لیے اس کے گھر گیا مگر اس سے قبل اس نے بلاکی نائی سے شیو بنانے کے لیے کہا جس نے جگا کی شہ رگ پر گہرا گھاؤ لگایا۔

جگا سنگھ کسی نہ کسی طور پر بچ نکلا اور اس نے بلاکی نائی اور اس کی بیٹی بلو کو مار ڈالا۔

روایات کے مطابق، جگا سنگھ کی موت پر لالو نائی کو اس کی اڑھائی سو ایکڑ پر پھیلی جاگیر کے علاوہ ایک گھوڑا بھی انعام میں دیا گیا مگر اس کو کچھ ہی عرصے بعد ایک دوسرے مقدمے میں جیل ہو گئی جہاں ملیر کوٹلہ سے تعلق رکھنے والے اس کے ایک ساتھی قیدی نے اس کا قتل کر دیا۔

انگریزوں کے خلاف تحریک سے پنجاب میں حالات پریشان کن تھے۔ فوٹو: گیٹی امیجز

جگا جٹ کی بیٹی انڈین ریاست پنجاب کے ضلع مکستر صاحب میں رہتی رہی ہیں اور انہوں نے جگا جٹ کے بارے میں مختلف اخبارات کو بہت سے انٹرویوز بھی دیے۔

جگا جٹ کی شہرت یوں تو اس کی موت کے چند ہی برس بعد ہندوستان بھر میں پھیل چکی تھی مگر اس عہد کے دوسرے بہت سے باغیوں کی طرح اس کو بھی ’ڈکیت‘ کے طور پر پیش کیا گیا۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جگا جٹ سے متعلق تاریخ زیادہ تر زبانی روایات پر مشتمل ہے اور اس حوالے سے سردست تحقیقی کام کیے جانے کی ضرورت ہے کیونکہ جگا جٹ، نظام لوہار یا ملنگی ڈاکو پر فلمیں بنا دینا یا گیت گا لینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان کی جدوجہد کو اس دور کے درست سماجی و سیاسی تناظر میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.