دفاعی تعاون سمیت وہ تین وجوہات جن کے لیے پوتن کو شمالی کوریا کا دورہ کرنا پڑ رہا ہے

اگر روسی صدر واقعتاً شمالی کوریا کا دورہ کرتے ہیں تو یہ 24 برسوں میں پوتن کا اس ملک کا پہلا دورہ ہو گا۔ اس سے پہلے انھوں نے آخری دورہ 2000 میں کیا تھا جب موجودہ رہنما کم جونگ اُن کے والد کم جونگ ال اقتدار میں تھے۔
پوتن
Getty Images

امکان ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن اس ہفتے شمالی کوریا کا دورہ کریں گے اور ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ پیانگ یانگ نے روسی صدر کے دورے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔

اگر روسی صدر واقعتاً شمالی کوریا کا دورہ کرتے ہیں تو یہ 24 برسوں میں پوتن کا اس ملک کا پہلا دورہ ہو گا۔ اس سے پہلے انھوں نے آخری دورہ سنہ 2000 میں کیا تھا جب موجودہ رہنما کم جونگ اُن کے والد کم جونگ ال اقتدار میں تھے۔

روسی رہنما نے کِم کی شمالی کوریا کے دورے کی دعوت کو گذشتہ سال ستمبر میں قبول کیا تھا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئندہ ہونے والی ملاقات دونوں ممالک میں بڑھتے ہوئے تعلق کو ظاہر کرے گے۔

امکان ہے کہ ملاقات کا مرکز دونوں ممالک میں فوجی تعاون ہوگا اور اس ملاقات سے معیشت، ثقافت، زراعت، سیاحت اور سماجی شعبوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو مضبوط کرنے کا موقع ملے گا۔

خاص طور پر یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ صدر پوتن کس حد تک شمالی کوریا کے جدید ہتھیاروں کے تبادلے اور جوہری ہتھیار رکھنے کا ذکر کریں گے۔

تاہم ایک خیال یہ بھی ہے کہ شمالی کوریا اور روس کے درمیان ہونے والی یہ سربراہی ملاقات نتیجہ خیز بات چیت کے بجائے ایک ’ایونٹ‘ کے طور پر ختم ہونے کا زیادہ امکان ہے۔

ہم یہاں ایسی تین وجوہات کا ذکر کریں جو پوتن اور کِم کے درمیان میل جول کی وضاحت کرتے ہیں۔

1: فوجی تعاون: روس کو ہتھیار جبکہ شمالی کوریا کو تکنیکی مدد کی ضرورت

یوکرین پر روسی حملے کے آغاز کے تقریباً ڈھائی سال بعد، شمالی کوریا اور روس کے درمیان باہمی انحصار مضبوط ہوتا جا رہا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو سامان فراہم کرتے ہیں۔

کوریا یونیورسٹی کے شعبہ یونیفیکیشن اینڈ ڈپلومیسی کے پروفیسر نم سنگ ووک نے کہا کہ اس وقت میٹنگ کا ایجنڈا یہ ہے گا کہ ’مستقبل میں روس کو شمالی کوریا کے تیار کردہ مزید کتنے ہتھیار فراہم کیے جائیں گے۔‘

کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ یہ ملاقات مختصر مدت کے معاہدوں سے آگے بڑھے گی جس میں شمالی کوریا کی طرف سے روایتی ہتھیاروں کی فراہمی پر توجہ دی جائے گی اور ہتھیاروں کے نظام کی مشترکہ ترقی جیسے پروگراموں کے ذریعے زیادہ قریبی فوجی تعاون کی بنیادیں قائم کی جائیں گی۔

یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ شمالی کوریا روس کو فراہم کیے جانے والے ہتھیاروں کے بدلے خوراک اور ایندھن سے زیادہ اشیا چاہتا ہے۔

خاص طور پر، پروفیسر نام نے پیشن گوئی کی کہ شمالی کوریا جو گذشتہ مئی میں فوجی جاسوسی سیٹلائٹ لانچ کرنے میں ناکام رہا تھا اس میٹنگ کا استعمال اپنی ایرو سپیس ٹیکنالوجی کے لیے روس کی حمایت پر بات چیت کے لیے کرے گا کیونکہ کہ شمالی کوریا کو اضافی سیٹلائٹس کو کامیابی سے لانچ کرنے کے لیے خلائی ٹیکنالوجی کے پاور ہاؤس روس کی مدد درکار ہوگی۔

شمالی کوریا کی جانب سے جاسوس مصنوعی سیاروں اور جوہری آبدوزوں کی ریزولوشن بڑھانے کے لیے روس سے ٹیکنالوجی کی مدد حاصل کرنے کی بھی پیش گوئی کی گئی ہے۔

فی الحال صدر پوتن یوکرین میں مغربی ہتھیاروں کے داخلے اور روسی سرزمین کے لیے ان کے خطرے کے حوالے سے حساس ہیں۔ انھوں نے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے امکان کا بھی ذکر کیا ہے۔

چونکہ جزیرہ نما کوریا اور شمال مشرقی ایشیا کے درمیان تعاون یا جوہری ہتھیاروں کے تبادلے سے امریکہ اور چین جیسے ممالک کی طرف سے زبردست مخالفت پیدا ہو سکتی ہے اس لیے امکان ہے کہ ملاقات کے دوران جوہری ہتھیاروں سے متعلق کسی بھی طرح کی بات چیت کا انکشاف نہیں کیا جائے گا۔

پوتن
Getty Images

2: اقتصادی تعاون: روس افرادی قوت چاہتا ہے، شمالی کوریا غیر ملکی کرنسی کمانا چاہتا ہے

روس اور شمالی کوریا کے درمیان اقتصادی تعاون کو بڑھانے پر بھی بات چیت متوقع ہے۔

ڈونگ اے یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس اور ڈپلومیسی کے پروفیسر کانگ ڈونگ وان نے کہا کہ شمالی کوریا کو آج روس سے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے ’غیر ملکی زر مبادلہ کی کمائی۔‘

اس کا مطلب ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے روس میں اضافی کارکن بھیجنے کا امکان بڑھ سکتا ہے۔

روس کو جنگ کی وجہ سے عمارتوں کی تعمیر نو کے لیے بھی افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ یوکرین میں جنگ کی وجہ سے ہونے والے نقصان سے نکلنے اور معیشت کی تعمیر نو کے لیے اسے افرادی قوت کی ایک قابل ذکر تعداد درکار ہے۔

روسی میڈیا آؤٹ لیٹ ویدوموستی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے کہا ’دونوں رہنما اس بات پر تبادلہ خیال کر سکتے ہیں کہ آیا شمالی کوریا سے تارکین وطن کارکنوں کو لایا جائے،کیونکہ روس میں فوجیوں کی نقل و حرکت کی وجہ سے مزدوروں کی شدید قلت کا سامنا ہے اور نوجوان بھی یوکرین میں جنگ کے بعد بیرونِ ملک فرار ہو رہے ہیں۔‘

یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے شمالی کوریا کے خلاف منظور کردہ پابندیوں کے مطابق شمالی کوریا کے کارکنوں پر بیرون ملک کام کرنے پر پابندی ہے اور وہ تمام افراد جو پہلے بیرون ملک تھے انھیں 22 دسمبر 2019 سے پہلے وطن واپس بھیجنے کا حکم دیا گیا تھا۔

اس لیے اس بات کا بہت امکان ہے کہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہونے کی حیثیت سے اگر روس سرکاری طور پر شمالی کوریا کے کارکنوں کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے عالمی برادری میں کھلبلی مچ جائے گی۔

ملاقات میں امکان ہے کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ عالمی برادری کی مخالفت اور سفارتی دباؤ کے باوجود دونوں ممالک کس طرح اقتصادی تعاون کو آگے بڑھائیں گے۔

3:ثقافتی تبادلہ: کیا شمالی کوریا اور روس کے درمیان سیاحتی چینل کھلے گا؟

فروری میں، روس نے شمالی کوریا کے گروپ دورے دوبارہ شروع کیے، جو کووِڈ 19 کی وجہ سے معطل ہو گئے تھے۔

اس کے علاوہ اس ماہ کے شروع میں شمالی کوریا اور روس کے درمیان مسافر ٹرین سروس تقریباً چار سال بعد بار دوبارہ شروع ہوئی۔

روس کے علاقے پریمورسکی کرائی کی حکومت کے مطابق اس سال فروری اور مئی کے درمیان 400 سے زائد روسی سیاحوں نے شمالی کوریا کا دورہ کیا۔

روسی ٹریول ایجنسی ووسٹوک انٹرو نے اپنی ویب سائٹ پر شمالی کوریا کے لیے پانچ دن، چار راتوں کا ٹور پیکج 750 ڈالر میں پیش کیا ہے۔ یہاں شمالی کوریا کے گروپ ٹرپس کی بھی پیش کش کی گئی ہے جو ستمبر تک بک کیے جا سکتے ہیں۔

ملک میں سیاحت میں حالیہ اضافے کی وجہبتاتے ہوئے یونیورسٹی آف نارتھ کوریا کے سٹڈیز کے پروفیسر کم ڈونگ یوپ نے وضاحت کی ’اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاحت صرف غیر ملکی کرنسی کمانے کا ایک ذریعہ نہیں ہے بلکہ اس کا ایک اہم کردار بھی ہے۔ لوگوں کے درمیان براہ راست تبادلے کے ذریعے تعلقات کو بہتر بنانے کا اہم کردار۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ شمالی کوریا کا دورہ کرنے والے روسی افراد دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے میں بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

پروفیسر کم نے کہا کہ غیر ملکی سیاحوں کے دوروں سے شمالی کوریا کی بین الاقوامی برادری میں ایک بند اور خطرناک ملک کے طور پر ساکھ بہتر کرنے میں مدد ملتی ہے۔

تاہم حال ہی میں شمالی کوریا کے کچھ گروپ ٹور منسوخ بھی کیے گئے۔

ایک ٹریول ایجنسی نے اعلان کیا کہ 31 مئی کو ملک کا چار روزہ گروپ ٹور درخواست دہندگان کی کمی کی وجہ سے منسوخ کر دیا گیا ہے۔

شمالی کوریا کی اپنی خصوصیات کی وجہ سے اس میں سیاحت کے بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے اور غیر ملکیوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی ہے۔ وہاں سیاحت کو پھیلانا ایک مشکل صنعت ہے۔

پروفیسر کانگ ڈونگ وان نے نشاندہی کی کہ شمالی کوریا اور روس کے درمیان یہ سربراہی اجلاس سیاحتی تعاون پر بات چیت کا ایک موقع ہو سکتا ہے۔

کم
Getty Images
اگست 2002 میں روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اس وقت کے شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اِلسے ملاقات کی

24 سال بعد سربراہی دورہ

جولائی 2000 کو صدر پوتن نے پہلی بار پیانگ یانگ کا دورہ کیا اور صدر کم جونگ ال سے ملاقات کی۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روس اور شمالی کوریا کے درمیان یہ پہلی سربراہی ملاقات تھی۔

اس وقت روس عالمی برادری میں دوبارہ ابھرنے کا خواب دیکھ رہا تھا اور شمالی کوریا ’اردوس مارچ‘ کی مدت ختم کرنے کے بعد بیرونی دنیا سے رابطے بڑھانے کی کوشش کر رہا تھا۔

اس وقت دونوں رہنماؤں نے شمالی کوریا اور روس کے مشترکہ اعلامیے کو اپنایا جس میں شمالی کوریا کے میزائل کے مسئلے سمیت مختلف امور پر دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کے حوالے شامل تھے اور دوستی اور تعاون کے معاہدے کے مندرجات کی وضاحت کی گئی تھی۔

خاص طور پر فوجی تعاون کے حوالے سے اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ’حملے یا خطرناک صورتحال کی صورت میں دونوں ممالک ایک دوسرے سے فوری رابطہ کریں گے۔‘

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ شمالی کوریا اور روس کے درمیان تعلقات کتنے مضبوط ہوئے ہیں یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ جو معاہدہ ’افہام و تفہیم‘ سے ’اتحادی‘ بننے کی راہ پر ہے اس کی اس ملاقات میں تجدید کی جائے گا۔

پروفیسر نم نے وضاحت کی ’ایسا لگتا ہے کہ یہ اتحاد کی سطح تک پہنچ جائے گا‘۔

انھوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ ایک اور بڑا فرق یہ ہے کہ ماضی میں شمالی کوریا کے پاس جوہری ہتھیار نہیں تھے، جو آج ہے۔

’ایسی صورتحال میں جب بین الاقوامی نظام کی تنظیم نو ہو رہی ہے جس میں ایک ہی وقت میں امریکہ پر مرکوز یک قطبی نظام کمزور ہو رہا ہے روس اور شمالی کوریا سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اپنے قومی مفادات کے لیے تعاون کے نئے طریقے تلاش کریں گے۔‘

انھوں نے مزید کہا ’ایسی صورتحال میں جہاں دونوں کوریائی خطوں تعلقات ٹوٹ رہے ہیں اس بات کا امکان ہے کہ شمالی کوریا کوئی نئی سفارتی حکمت عملی لے کر آئے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.