پانچ دن تک سمارٹ فون ترک کرنے والے نوجوانوں پر کیا بیتی؟

آج کے نوجوان نے آنکھ کھولتے ہی سمارٹ فون، انٹرٹیٹ اور ڈیجٹل دنیا دیکھی ہے۔ کیا وہ ان سب چیزوں کے بغیر رہ سکتے ہیں؟ یہی جاننے کے لیے 10 نوجوانوں نے پانچ دن تک اپنی ڈیوائسز کو بدل کر صرف ایسے فون رکھے جو کال کرسکتے ہیں یا ٹیکسٹ بھیج سکتے ہیں۔ یہ تجریہ کیسا رہا؟

آج کے نوجوان نے آنکھ کھولتے ہی سمارٹ فون، انٹرٹیٹ اور ڈیجٹل دنیا دیکھی ہے۔ کیا وہ ان سب چیزوں کے بغیر رہ سکتے ہیں؟ یہی جاننے کے لیے 10 نوجوانوں نے پانچ دن تک اپنی ڈیوائسز کو بدل کر صرف ایسے فون رکھے جو کال کرسکتے ہیں یا ٹیکسٹ بھیج سکتے ہیں۔ یہ تجریہ کیسا رہا؟

وِل باقاعدگی سے دن کے آٹھ گھنٹے اپنے سمارٹ فون کو دیکھنے میں گزارتے ہیں۔ جب وہ چھوٹے تھے تو سائیکل چلانا پسند کرتے تھے۔ اب وہ 15 سال کے ہیں اور کالج کے بعد اپنا زیادہ تر فارغ وقت ٹک ٹاک ویڈیوز دیکھنے میں گزارتے ہیں۔

گذشتہ ہفتے ول نے صرف سوشل میڈیا ایپس پر 31 گھنٹے گزارے تھے۔ لیکن اگلے پانچ دنوں تک ان کی سوشل میڈیا تک رسائی نہیں ہوگی۔

’مجھے فکر ہے کہ میں یہ کیسے کروں گا؟ اب مجھے اپنے والدین کے ساتھبات چیت کرنی پڑے گی۔‘

یہ ڈی ٹاکس بی بی سی کے اس منصوبے کا حصہ ہے جس میں نوجوانوں کی سمارٹ فون کی عادات کا جائزہ لیا گیا ہے اور ول میڈیا سٹی کے یونیورسٹی ٹیکنیکل کالج کے ان 10 طالب علموں میں سے ایک ہیں جنھوں نے نوکیا کے سادہ ہینڈ سیٹ استعمال کرنے کی رضامندی ظاہر کی ہے۔

طالب علموں کی زندگی کا تقریباً ہر پہلو متاثر ہوگا۔ وہ سمارٹ فون کے ساتھ بڑے ہوئے ہیں اور ہر چیز کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔

وہ آپس میں سنیپ چیٹ یا فیس ٹائم پر بات چیت کرتے ہیں۔ گوگل میپس استعمال کرتے ہیں اور ہمیشہ چلتے پھرتے موسیقی سنتے ہیں۔

کالج کے پرنسپل کولن گرینڈ نے تجربے دوران طالب علموں کے آلات کو بند کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’حقیقی چیلنج‘ ہو گا۔

روبی کا خواب ہے کہ وہ ایک اداکارہ بنیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے فون پر بہت زیادہ وقت گزارتی ہیں اور اکثر ٹک ٹاک پر سکرول کرتے وقت اپنے والدین کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔

تجربے کے دوران میں ان کے خاندان سے ملنے گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو 16 سالہ لڑکی کالج جانے سے پہلے میک اپ کر رہی تھیں۔ ان کے والد نے چیک کیا کہ ان کے بیگ میں یونیفارم ہے اور پھر روبی کی ماں ہمیں ٹرام سٹاپ پر لے گئیں۔

روبی تسلیم کرتی ہیں کہ اپنے سمارٹ فون سے وقفہ لینے سے ان کے والدین کے ساتھ ’مزید بات چیت کا آغاز ہوا ہے‘ اور ان کی والدہ ایما اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ ڈیجیٹل ڈی ٹاکس نامی یہ تجربہ ان کی بیٹی کے رویے پر مثبت اثر ڈال رہا ہے۔

ایما کہتی ہیں کہ ’روبی اپنے فون کی بہت عادی ہے۔ اس لیے اب اسے سمجھنے کا موقع ملا ہے کہ جب میں نوعمری میں تھی تو سب کچھ کیسا تھا۔‘

’یہ زیادہ بات کر رہی ہے اور جلدی سو جاتی ہے۔ یہ اچھا وقفہ ہے۔‘

جیسے ہی ہم سٹیشن پر پہنچنے تو ٹرام نکل چکی تھی۔ عام طور پر روبی ٹرام کی آمد کا وقت اپنے فون پر ایک ایپ سے چیک کرتی تھیں۔ ٹرام سٹاپ پر ڈسپلے بورڈ پر ٹائم ٹیبل پڑھنے کا کام اس نسل نے نہیں کیا۔

وہ کہتی ہیں ’فون کے علاوہ میرے پاس معلوم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔‘

جب ہم اگلی ٹرام کا انتظار کر رہے تھے تو روبی نے مجھے اپنی جز وقتی ملازمت کے بارے میں بتایا۔ وہ ہفتے میں دو بار کام کرتی ہیں لیکن انھیں پتا نہیں کہ آیا آج ان کی شفٹ ہوگی یا نہیں یا کتنی دیر کی ہوگی۔

ان کے منیجر نے انھیں دفتر کا ٹیلی فون نمبر دیا ہے تاکہ وہ اپنے اوقات کی معلومات حاصل کر سکیں۔ لیکن وہ فون کرنے کے بارے میں ’تھوڑا سا گھبراہٹ‘ محسوس کرتی ہیں۔

روبی بتاتی ہیں کہ ’آپ کو ایپ پر کام کے اوقات کا پتا چل جاتا ہے۔ میں نے کبھی کام کی جگہ پر فون نہیں کیا۔‘

انھوں نے اپنے ٹرام ٹکٹ کے لیے پیسے ادا کیے۔ سمارٹ فون والیٹ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے انھوں نے بینک کارڈ استعمال کیا جو وہ کبھی کبھار ہی کرتی ہیں اور ہم ایک گھنٹے کے طویل سفر پر روانہ ہو گئے۔

کچھ نوجوانوں کے لیے اپنے سمارٹ فون کو چھوڑنا واقعی مشکل رہا ہے۔

صرف 27 گھنٹوں کے بعد 14 سالہ چارلی نے تجربہ چھوڑ دیا اور اپنا فون واپس مانگ لیا۔

وہ کہتے ہیں ’میں جانتا تھا کہ میرا فون اسی عمارت میں ہے‘ لیکن یہ علم نہ ہونا کہ کسی نے ان سے رابطہ کی کوشش کی یا نہیں اور وہآن لائن نہیں جا پا رہے یہ واقعت ’تناؤ‘ بھرا تھا۔

ایک اور چیز جو ہر کسی کے لیے پریشان کن ہے وہ ان کی سنیپ سٹریک ہے۔ یعنی مجموعی طور پر انھوں نے ایک دوسرے کو کتنے دنوں تک سنیپ چیٹ پیغامات بھیجے ہیں۔

کچھ طالب علموں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ اس سلسلے کے ٹوٹنے کا سوچ کر بہت فکرمند ہیں جو کبھی کبھی لگاتار 1،000 دنوں تک چل سکتا ہے ۔

انھوں نے دوستوں سے کہا ہے کہ وہ ان کے اکاؤنٹس میں لاگ ان کریں اور انھیں ڈی ٹاکس کے دوران جاری رکھیں۔

چارلی کی طرح اس تجربے میں حصہ لینے والے دوسرے طالب علم بھی اس خوف کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ بہت سی چیزیں نہیں کر پا رہے لیکن زیادہ تر کا کہنا ہے کہ وہ اس بات پر حیران ہیں کہیہ تجربہ انھیں کتنا آزاد محسوس کرا رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ بہتر نیند لے رہے ہیں جبکہ دوسروں کو لگتا ہے کہ وہ اپنے فون کے بغیر زیادہ تخلیقی محسوس کر رہے ہیں۔

15 سالہ گریس کہتی ہیں کہ ’مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں چیزیں سیکھ رہی ہوں اور زیادہ مشغول ہو رہی ہوں۔‘ سکول کے فورا بعد تجربے کے پہلے دن وہ اور ان کے دوست پلاسٹک کے نگ خریدنے گئے تاکہ ان کا فون سجایا جاسکے۔

گفتگو کے دوران انھوں نے یہ سب مجھے دکھایا۔ گریس کہتی ہیں کہ شاپنگ ان کے بند کیے گئے سمارٹ فون کے بارے میں سوچنے سے دور رہنے کا اچھا موقع تھا اور اس کا ایک اور غیر متوقع فائدہ تھا۔

وہ کہتی ہیں ’وقت بہت پر سکون رہا، میں نے واقعی اس سے لطف اٹھایا کیونکہ اس نے میری تخلیقی صلاحیت کو واپس اجاگر کیا۔‘

’گھر پہنچتے ہی میں نے ڈرائینگ اور پینٹنگ شروع کر دی۔ اس سے ان چیزوں کو تلاش کرنے میں مدد ملی جو مجھے پسند ہیں۔‘

فروری میں برطانوی حکومت نے سکول کے اوقات میں طالب علموں کو فون استعمال کرنے سے روکنے کے لیے نئی ہدایات شائع کیں۔ لیکن مئی میں کچھ ارکان پارلیمنٹ کے ایک گروپ نے کہا تھا کہ عام انتخابات میں جو بھی جیتتا ہے اسے 16 سال سے کم عمر کے تمام بچوں کے لیے سمارٹ فون پر مکمل پابندی عائد کر دینی چاہیے۔

بی بی سی ریڈیو فائیو لائیو اور بی بی سی نیوز کی جانب سے 13 سے 18 سال کی عمر کے 2 ہزار افراد پر کیے گئے سروے میں نوجوانوں سے زندگی کے مختلف پہلوؤں بشمول ذہنی صحت اور ان کی سمارٹ فون کی عادات کے بارے میں پوچھا گیا۔

پولنگ کمپنی سرویشن کی جانب سے کیے گئے سروے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے:

  • 23 فیصد نے اس بات پر اتفاق کیا کہ 16 سال سے کم عمر کے بچوں کے لی سمارٹ فونز پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔
  • 35 فیصد کا خیال ہے کہ 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔
  • 50 فیصد کا کہنا ہے کہ ان کے پاس سمارٹ فون نہ ہونے کی وجہ سے وہ پریشان محسوس کرتے ہیں۔ گذشتہ برس یہ اعداد و شمار قدرے زیادہ یعنی 56 فیصد تھے۔

صرف اس ڈیجیٹل ڈی ٹاکس میں حصہ لینے نے ان نوجوانوں کو اپنے ہم عصروں سے الگ کر دیا ہے۔

بی بی سی کے سروے میں شامل 74 فیصد نوجوانوں کا کہنا تھا کہ وہ اپنے سمارٹ فونز کو بنیادی ڈیوائس میں تبدیل کرنے کے بارے میں سوچیں گے بھی نہیں۔

پانچ دنوں کے طویل عرصے کے بعد طلبا کو ان کے سمارٹ فونز کے ساتھ دوبارہ ملانے کا وقت آیا تو جوش و خروش دیدنی تھا۔ ایک استاد فون لینے جارہے تھے تو بہت سے طالب علم خوشی سے چیخ رہے تھے۔

جیسے ہی انھوں نے اپنے فون دوبارہ آن کیے نوجوان اپنی سکرینوں سے چپک گئے، سکرول کرنے لگے اور گروپ چیٹس پڑھنے لگے۔ لیکن زیادہ تر کا کہنا ہے کہ ڈی ٹاکس میں حصہ لینے کے بعد وہ اپنے سکرین ٹائم کو محدود کرنے کے طریقے تلاش کرنا چاہیں گے۔

ول کا کہنا ہے کہ ’اس سے مجھے احساس ہوا ہے کہ میں نے سوشل میڈیا پر کتنا وقت گزارا ہے اور مجھے احساس ہوا ہے کہ مجھے اس میں کمی کرنے اور مزید باہر جانے کی ضرورت ہے۔‘

’ یہ بات تو پکی ہے کہ میں ٹک ٹاک کا کم استعمال کرنے کی کوشش کروں گا۔‘

وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ مشکل تھا اور خاص طور پر وہ موسیقی سننے سے محرومرہے لیکن اپنے فون سے دور ی نے ول کو سائیکل چلانے کے اپنے شوق کو دوبارہ زندہ کرنے کا موقع دیا ہے جسے وہ جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ موبائل فون پر سکرول کرنا ’دن میں آٹھ گھنٹے صرف پاگل پن ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.