لوگ موبائل فونز یا لیپ ٹاپ میں اپنی برہنہ تصاویر اور ویڈیوز کیوں رکھتے ہیں؟

اکثر سننے میں آتا ہے کہ کسی کی عریاں تصاویر آن لائن لیک ہو گئی ہیں۔ مرد اور خواتین دونوں ہی اس جرم کا شکار رہے ہیں۔ مگر یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ ایسی تصاویر بناتے کیوں ہیں اور انھیں اپنے فون یا کمپیوٹر میں محفوظ کیوں کرتے ہیں؟
لوگ اپنی برہنہ تصاویر کیوں سیوو کرتے ہیں
Getty Images

اکثر سننے میں آتا ہے کہ کسی کی عریاں تصاویر آن لائن لیک ہوگئی ہیں۔ مرد اور خواتین دونوں ہی اس جرم کا شکار رہے ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ رجحان بہت عام ہے اور آئے روز کسی نہ کسی شخصیت کی عریاں یا برہنہ تصاویر کے سوشل میڈیا پر لیک ہونے کی خبریں سامنے آتی ہیں۔

حال ہی میں ایسا ہی ایک واقعہ اس وقت منظر عام پر آیا ہے جب سپین سے تعلق رکھنے والی پیٹریشیا فرانکیسا نامی خاتون نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں ویڈیو شیئر کی۔

فرانکیسا سپین کی ایک فلم ڈائیریکٹر ہیں۔ ان کی کہانی شروع ہوتی ہے 2019 میں جب ان کا لیپ ٹاپ میڈرڈ کے ایک بار سے چوری ہو گیا تھا۔

اس وقت انھیں معلوم نہ تھا کہ ان کا چوری شدہ لیپ ٹاپ ہیک بھی کر لیا گیا ہے اور ان کا ذاتی ڈیٹا لیک ہو چکا ہے۔

انھیں اس بات کا اس وقت علم ہوا جب تین ماہ بعد ہیکر نے ان سے رابطہ کیا اور ان سے رقم کا مطالبہ کیا۔ ہیکر نے انھیں دھمکی دی کہ اگر اس کی بات نہ مانی گئی تو وہ ان کی ذاتی تصاویر آن لائن لیک کر دے گا۔

پیٹریشیا فرانکیسا
Getty Images
پیٹریشیا فرانکیسا کا لیپ ٹاپ چوری ہونے کے بعد ان کی ذاتی تصاویر ہیکرز کے ہاتھ لگ گئی تھی

فرانکیسا یقینی طور پر نہیں جانتی کہ جس شخص نے ان سے پیسوں کا تقاضہ کیا تھا اس نے ان کا لیپ ٹاپ چرایا تھا۔

اس واقعے کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے فرانکیسا نے ایک دستاویزی فلم بنائی ہے جس میں انھوں اپنے ساتھ رونما ہونے آنے والے واقعے کو بیان کیا ہے۔

فرانکیسا کی فلم ’مائی سیکسٹورشن ڈائری‘ حال ہی میں منعقد شیفیلڈ ڈاکومینٹری فیسٹیول میں دکھائی گئی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’دستاویزی فلم بنانا میرے لیے کنٹرول اور طاقت حاصل کرنے کا ایک طریقہ تھا۔‘ فرانکیسا کا کہنا تھا کہ ان کے لیے یہ خود کو تکلیف سے بچانے اور محفوظ بنانے کا طریقہ تھا۔

فرانکیسا اس کو اپنی زندگی کا ایک تاریک واقعہ قرار دیتی ہیں۔

انٹرنیٹ کے دور میں پروان چڑھنے والی نسل کے لیے عریاں تصاویر لینا، ان کو اپنے پاس محفوظ رکھنا اور انھیں اپنے چاہنے والوں کو بھیجنا ایک عام سی بات ہے۔ ان عادات کی وجہ سے اس نسل کو ایک ایسے خطرے کا سامنا ہے جس کا ان سے پہلے کی نسل کو ادراک نہ تھا۔

یہ بھی پڑھیے

فرانکیسا بظاہر اپنے والدین اور خود کا موازنہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایک بار ان کے والد نے ان کی والدہ کی سوئمنگ سوٹ میں تصویریں کھینچیں تھیں اور وہ ان کے لیے بہت تھا۔ ’لیکن جب سے ہم ڈیجیٹل دنیا کا حصہ بنے ہیں یہ ہمارے لیے قربت دکھانے کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔‘

ہیکرز نے انھیں یہ باور کروانے کے لیے کہ وہ اپنی مانگ کو لے کر کتنے سنجیدہ ہیں انھوں نے فرانکیسا کی کچھ تصاویر ان کے دوستوں اور رشتے داروں کو بھیج دیں جنھیں انھوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے ڈھونڈا تھا۔

لیکن فرانکیسا نے پولیس سے رجوع کر کے ان تصاویر کو بلاک کرنے کی درخواست کی۔

اس کیس میں اُس وقت کچھ پیش رفت سامنے آئی جب پولیس نے انھیں بتایا کہ انھوں نے کیفے سے حاصل سی سی ٹی وی فوٹیج کی جانچ پڑتال کے بعد ان ہیکرز کو گرفتاری کر لیا ہے۔

سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح تین افراد جو وہیں اس بار میں موجود تھے نے ان کا لیپ ٹاپ چرایا تھا۔ لیکن پولیس تفتیش میں پیش رفت کے باوجود ہیکرز نے فرانکیسا سے بھتہ لینے کی اپنی کوششیں جاری رکھیں۔

ہیکرز، آن لائن
Getty Images

فرانکیسا کسی صورت ہیکرز کی مانگیں پوری نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ بالآخر فرانکیسا نے اس بلیک میلنگ سے تھک ہار کر ان تصاویر کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اپ لوڈ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے اس جراتمندانہ اقدام نے ہیکرز کی طاقت چھین لی۔

لیکن یہ ان کے لیے آسان نہ تھا۔ ’یہ میراتھن کے آخری لمحات کی طرح تھا۔ میں یہ تصویریں پوسٹ نہیں کرنا چاہتی تھی، میں امید کر رہی تھی کہ یہ شخص رک جائے اور جب میں نے دیکھا کہ وہ نہیں اس کام سے باز نہیں آ رہا تو اس کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔‘

فرانکیسا کی تصاویر اپ لوڈ کرنے کے بعد ہیکر نے ان سے رابطہ کرنا بند کردیا۔ اس سے معلوم پڑتا ہے کہ ہیکر کوئی ایسا شخص تھا جو انھیں سوشل میڈیا پر فالو کر رہا تھا۔ لیکن وہ بھی اب تک نہیں جانتی کہ وہ ہیکر کون ہے۔

لوگ ایسی تصاویر اپنے فونز میں کیوں رکھتے ہیں؟

فرانکیسا اکیلی نہیں۔ ان جیسی لاتعداد خواتین ہیں جن کی ذاتی تصاویر اور ویڈیوز ہیکرز نے مختلف حربوں سے حاصل کر لی ہیں اور ان سے ان تصاویر کے بدلے میں پیسوں یا دیگر چیزوں کا مطالبہ کیا۔ حالیہ دنوں میں صومالیہ کے سوشل میڈیا پر کئی خواتین یہ شکایت کرتے ہوئے دیکھی گئی ہیں کہ ہیکرز نے ان کی نامناسب تصاویر آن لائن شیئر کردی ہیں۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگ اپنے موبائل فونز یا لیپ ٹاپ میں ایسی تصاویر کیوں محفوظ کرتے ہیں؟

ہم نے اس کا جواب جاننے کے لیے چند صومالی خواتین سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ انھوں ایسی تصاویر اور ویڈیوز کیوں فلمائی تھیں۔

ایک خاتون نے بی بی سی نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ خواتین کا اپنے جسم کی خوبصورتی کو دیکھ کر لطف اندوز ہونا ایک فطری بات ہے اور بعض اوقات وہ اسے ایک یاد کے طور پر محفوظ کر لیتی ہیں۔

لیکن کچھ خواتین کا خیال ہے کہ ایسا کرنے والی خواتین میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے اور وہ بار بار اپنے جسم کو دیکھ کر خود کو اپنی جسمانی خوبصورتی کا قائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

کچھ لوگ کے پاس ایسی نجی ویڈیوز ریکارڈ کرنے کی کچھ اور وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔

لیکن جیسا کہ اس سے پہلے شائع ہونے والی تحقیقات میں لوگوں نے وضاحت کی ہے 21ویں صدی میں ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافے کے بعد لوگ آمنے سامنے کم ہی ملاقات کرتے ہیں۔ ایسے میں کئی افراد اپنی اہمیت اور سامنے والے کے ساتھ ذاتی تعلق محسوس کرنے کے لیے ایسی تصاویر اور ویڈیوز ریکارڈ کرتے ہیں تاکہ وہ کسی طرح ایک دوسرے کو دیکھ سکیں۔

بعض اوقات یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لوگوں کے برہنہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ جذباتی طور ایک دوسرے سے جڑے نہیں ہوتے ہیں۔ کئی ایسی خواتین بھی ہیں جن کی ویڈیوز آن لائن شائع ہو چکی ہیں لیکن انھیں اب تک اس کے بارے میں معلوم نہیں ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.